انسان جب تک خود نہ سمجھنا چاہے کوئ اسے نہیں سمجھا سکتا..
پھر چاہے آپ اسے پیار سے سمجھائیں یا دانٹ ڈپٹ کے..
بیڈ پر بالکل ساکت بیٹھی وہ بالکل کوئ مجسمہ لگ رہی تھی..
نظریں سامنے دیوار پر تھیں.. پر وہ کسی اور جہاں میں ہی لگتی تھی..
رویا رویا سا چہرہ, اور بالکل خالی آنکھیں جو سوجھی ہوئ محسوس ہوتی تھیں..
بالکل عام نین نقوش کی وہ سانولی رنگت کی زرکش سلیمان تھی..
نہیں بلکہ اب دو سالوں سے وہ زرکش شہریار تھی…
چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا…
اور ذہن اپنے ماضی کو کھنگال رہا تھا تاکہ اُس حساب سے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو..
بیس سال اس کی زندگی کے حسین ترین سال تھے…
ہر چیز پرفیکٹ نہیں تھی پر اس کی زندگی میں سکون تھا…
وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی..
اس کے باپ سلیمان صاحب کی سرکاری نوکری تھی.. اور تنہواہ بھی معمولی تھی..
اور ماں , ثانیہ گھریلو خاتون تھیں..
لیکن پھر بھی انہیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئ.. شاید برکت تھی ان کے گھر میں…
سرکاری سکول سے اس نے میٹرک کیا اور اس کا رشتہ طہ ہوگیا..
دو سال بعد شادی تھی..
سرکاری کالج میں ہی اس نے ایف اے کیا..
وہ ضدی نہیں تھی کبھی بھی پر جب کوئ چیز ضرورت ہوتی یا اس کی خواہش ہوتی وہ بنا جھجکے اپنے ابا سے کہتی یا اماں سے..
اور ابا اور اماں بنا کچھ پوچھے اسے وہ چیز مہیا کردیتے..
وہ ان کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی..
پر ماں باپ کے لاڈلے دنیا کی تلخ حقیقت تھوڑی نا جانتے ہیں… وہ تو اتنے نازک ہوتے ہیں کہ ایک ہوا کا جھونکا انہیں گرا سکتا ہے…
انہیں تو لاڈ کی عادت ہوتی ہے پر زندگی کہاں کسی سے لاڈ کرتی ہے..
دو سال بعد شادی ہوگئ..
جہیز وہی دیا جو خاندان میں طہ پایا تھا…
ایک مہینہ پُر سکون گزرا..
ہر ایک کا رویہ بہت ہی اچھا تھا اس کے ساتھ..
اچھا وقت کتنا بے وفا ہوتا ہے نا.. بس تھوڑے عرصے کے لیے آتا ہے آپ کی زندگی میں اور پھر اپنی شکل تک دکھانا بھول جاتا ہے…
اور پھر وہ مہینہ پلک چھپکتے ہی غائب ہوگیا…
زندگی آہستہ آہستہ تلخ ہوتی گئ..
نند ایک ہی تھی جو اپنا سسرال سنھمبال رہی تھی.. اس کا بہت کم ہی آنا جانا ہوتا تھا میکے میں..
پر ساس سسر اور دادی ساس کا رویہ کھینچا کھینچا سا رہنے لگا..
وجہ پتا نہیں کیا تھی.. یا پھر شاید ان کی فطرت ہی ایسی تھی..
ہر وقت حکم…
ہر وقت طنز..
شہریار کا رویہ ٹھیک تھا. مہینے میں ایک دن وہ اس کی پسند کی کوئ چیز گھر لے آتا..
کبھی آئسکریم, کبھی گجرے کبھی کچھ.. شروع میں اس کی ساس کو یہ سب بہت اچھا لگتا تھا. پر پھر وہ انہیں ناگوار گزرنے لگا…
اگر شہریار کبھی اس کی سائیڈ لے لیتا تو ان سے برداشت نہ ہو پاتا..
دادی ساس کی وفات کے بعد ساس نے گھر کی ساری زمہ داری اس کے سر پر ڈال دی..
صبح اٹھتی تو کام شروع ہوتے اور رات تک وہ کام سے لگی رہتی…
سسر صاحب شروع شروع میں تعریفیں کرتے تھے اس کے ہر کام کی پر پھر وہ بھی اس کی ہر چیز سے نقص نکالنے لگے….
پر پھر بھی اسے حوصلہ تھا امید تھی کہ شہریار اس کے ساتھ ہے ہمیشہ…
کام کا کیا ہے وہ تو سب ہی کرتے ہیں… وہ اپنے آپ کو خود ہی حوصلہ دے دیتی..
آہستہ آہستہ شہریار بھی اس پر غصہ ہونے لگا…
پہلے وہ اسے سب کے سامنے کچھ نہیں کہتا تھا پر پھر اس نے اپنے ماں باپ کے سامنے اسے ڈانٹنا شروع کردیا..
کبھی اگر وہ آگے سے کچھ کہہ دیتی تو شہریار اسے نافرمان کا طعنہ دیتا جس وجہ سے وہ چپ ہوجاتی..
ہمیشہ اس سے لڑتے ہوۓ وہ اسے کہتا کہ تم میرے ماں باپ کا دھیان نہیں رکھتی…
حالات اتنے خراب ہوگۓ ان کے درمیان کہ شہریار کئ کئ دن گھر ہی نہ آتا…
اور اگر گھر میں ہوتو اس سے بات تک نہ کرتا..
. یہ وجوہات اسے جینے نہیں دیتیں پر پھر بھی اس میں مرنے کی سکت نہیں تھی..
وہ ابھی بھی جینا چاہتی تھی اس امید کے ساتھ کہ ایک دن سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا…
پر آج دوپہر جو کچھ ہوا اس کے بعد بھی اسے جینا چاہئے کیا؟؟ بیڈ پر مجسمہ بنی بیٹھے وہ سوچ رہی تھی …
بارہ بجے کا وقت تھا جب گھر کی دوڑ بیل بجی..
سسر تو کسی دوست سے ملنے گۓ تھے اور ساس بھی کچھ دیر پہلے مارکٹ تک گئ تھیں..
پاپا آگۓ ہونگے.. یہ سوچ کر وہ دروازے کی طرف بڑھی اور دروازہ کھولا تو سامنے پچیس چھیبیس سال کا لڑکا کھڑا تھا..
جنید تم؟؟ . آؤ اندر آجاؤ..
وہ سامنے سے ہٹ گئ.. کتنے عرصے بعد دیکھا تھا جنید کو اس نے.. وہ اس کی شادی میں بھی شامل نہیں تھا وجہ دوسرے شہر میں اس کے پیپرز ہورہے تھے..
شکر ہے پہچان تو لیا.. کیسی ہو؟؟ وہ مسکراتا ہوا اندر آیا..
اور یہ خالہ نے دیا تھا.. اسی لیے آیا ہو ورنہ میرا زرا موڈ نہیں تھا..
شادی تو میرے بغیر کر لی تو اب میرے آنے کا کیا فائدہ… وہ مصنوعی خفگی سے بولتا ہوا زرکش کے پیچھے لاؤنچ تک آیا…..
تمہاری زبان ابھی بھی ویسے ہی چلتی ہے ؟؟.. زرکش نے شاپر صوفے کے ساتھ رکھا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا..
وہ بہت اچھے دوست نہیں تھے پر کزن ہونے کے ناطے بہت اچھی سلام دعا تھی…
نہیں اب دوڑنے لگی ہے.. جنید نے قہقہہ لگایا…
باقی گھر والے کہاں ہیں ؟؟ جنید اِدھر اُدھر دیکھتے ہوۓ بولا..
ماما ابھی مارکٹ گئ ہیں.. پاپا کسی دوست سے ملنے اور شہریار کام پہ.. زرکش نے کچن کی طرف جاتے ہوۓ کہا..
ساتھ وہ ساس کو کال بھی کررہی تھی. تاکہ وہ بھی گھر آجائیں…
پر ان کا نمبر آف جارہا تھا..
جوس پیش کر کے وہ دوسرے صوفے پہ بیٹھ گئ… چاۓ جنید پیتا ہی نہیں تھا.. اسی لیے وہ بس جوس لائ تھی..
بڑی سمجھدار ہوگئ ہو شادی کے بعد.. سسرالیوں نے صحیح ٹریننگ دے رکھی ہے.. جنید نے گلاس ٹیبل پہ رکھتے ہوۓ کہا..
اور تم ابھی تک ویسے ہی کم عقل ہو.. زرکش نے زبردستی ہنستے ہوۓ کہا..
بس دیکھ لو میں ابھی تک نہیں بدلا… کیونکہ بدلنا میری عادت نہیں ہے..
دونوں کے قہقہے ہوا میں بلند ہوۓ..
اچھا تو ہمارے پیچھے یہ سب کچھ ہوتا ہے… ہم سے تو مسکرا کر بات تک نہیں کی جاتی اور یہاں اپنے یار کو گھر بلا کر اس کے ساتھ قہقہے لگاۓ جارہے ہیں… زرکش ایک دم اٹھ گئ.. تھوڑے فاصلے پر اس کی ساس کھڑی تھی… پر ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ چابک کی طرح اسے لگے تھے…
ماما یہ جنید ہے میرا خالہ زاد… کزن.. زرکش نے مری مری آواز میں کہا…
اوہ تو مطلب یہ سب کچھ شادی سے پہلے سے چلا آرہا ہے… ساس نے طنز کیا..
جبکہ جنید اپنی جگہ بالکل شل کھڑا تھا..
آنے دو شہریار کو.. بتاتی ہوں اسے کہ اس کی بیوی اس کے پیچھے کیا کارنامے سر انجام دیتی ہے.. وہ آہستہ سے چلتی ہوئیں آئیں اور صوفے پر بیٹھ گئیں..
آنٹی پلیز آپ…… جنید ابھی کچھ کہتا اس سے پہلے ہی انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا…
دفعہ ہوجاؤ ہمارے گھر سے… اور دوبارہ اپنی شکل بھی نا دیکھانا..
زرکش نے بھی اسے جانے کا اشارہ کیا وہ اس کی بےعزتی نہیں کرواسکتی تھی…
جنید تیزی سے باہر نکل گیا…
تو اور کتنے یار ہیں تمہارے..؟؟.
تمہیں شرم نہیں آتی یوں شادی کے بعد بھی چکر چلانے میں..
میں مزید تمہیں برداشت نہیں کرسکتی اس گھر میں…
شہریار سے کہہ کر آج ہی تمہیں طلاق دلاؤں گی… وہ سور پھونک رہی تھیں زرکش کے کانوں میں..
میں نے… اس نے بولنا چاہا پر آواز ساتھ ہی نہیں دے رہی تھی..
اس کے پاس کچھ نہ تھا ایک کردار کے سوا … اور اب وہ بھی نہیں رہا تھا…
ساس اسکی اٹھیں اور اپنے کمرے میں چلی گئیں.. . اور وہ مرے مرے قدم اٹھاتی اپنے کمرے کی طرف آگئ..
کیا اسے زندہ رہنے کی اب ضروت ہے ؟؟؟
بیڈ پر بیٹھی وہ سوچ رہی تھی..
ہر گز نہیں..
فیصلہ ہوگیا تھا… اس دنیا میں اس کے لیےشاید کچھ بھی نہیں تھا ..
یہ دنیا قسمت والوں کو قبول کرتی ہے… بدقسمتوں کا اس دنیا پر کوئ حق نہیں…
کردار پر داغ تو لگ ہی چکا تھا اب وہ طلاق یافتہ بھی کہلاۓ گی یہ سوچ بہت خوفناک تھی..
ایک ہاتھ میں نیند کی گولیاں جو کہ بہت ساری تھیں پکڑے دوسرے ہاتھ میں پانی کا گلاس لیے وہ بیڈ پر صحیح ہوکر بیٹھی..
یہ گولیاں وہ ڈیڑھ سال سے استعمال کررہی تھی.. ان کے بغیر اب گزارا مشکل تھا…
اللہ میں نے سب کو معاف کردیا ہے.. مجھے کسی سے کوئ گلہ نہیں..
تجھ سے بھی نہیں..
مجھے پتا ہے میں غلط کررہی ہوں پر میں بے بس ہوں…
انسان جب تک خود اپنے لیے نہ لڑے اپنے لیے نہ کھڑا ہو کوئ دوسرا اس کی جگہ نہیں کھڑا ہوسکتا کوئ اس کے لیے نہیں لڑ سکتا..
مجھے یہ بات سمجھ آگئ ہے پر شاید اب بہت دیر ہوچکی ہے…
میں ایک بدقسمت لڑکی ہوں جسکا وجود بھی اس دنیا پر بھاری ہے.. مجھے کوئ حق نہیں ہے اس دنیا میں جینے کا…
وہ چپ ہوگئ اس کے پاس بس یہی الفاظ تھے… .
ایک ساتھ ساری گولیاں منہ میں ڈال کر اس نے پانی کا گلاس منہ سے لگایا..
دو تین منٹ لگے اسے وہ کھانے میں کیونکہ ان کی تعداد زیادہ تھی اور پھر وہ بیڈ پر لیٹ گئ…
…..
ہاں بیٹا آج دن کو فون کیسے کیا ؟؟ ماما نے حیرانگی سے پوچھا…
ماما زرکش فون نہیں اٹھارہی اور جنید آیا ہے نا .. سلیمان انکل نے بھی فون کیا تھا اور جونید نے بھی ..
تو میں آرہا ہوں گھر.. کچھ چاہیے ہوتو بتادیں میں آتا ہوا لیکر آجاؤں گا… میں نے اسی لیے فون کیا ہے.. جنید کی آواز آئ.. اور اس کی ماں اپنی جگہ پتھر بن گئ تھیں..
وہ ایک بے گناہ پر الزام لگا آئ تھیں..
ماما ؟؟ دوبارہ آواز آئ تو وہ چونک پڑیں..
ہاں وہ…. ابھی ان کی بات پوری بھی نہیں ہوئ تھی کہ انہیں جنید کے چیخ کی آواز آئ..
جنید میرے بچے کیا ہوا ؟؟؟.
جنید؟ وہ مسلسل پکار رہی تھیں پر انہیں جنید کی آواز نہیں آئ البتہ لوگوں کے آدھے ادھورے جملے سننے کو ملے..
بےچارہ جوان موت مر گیا ہے..
مر گیا ہے اب کیا بچا ہوگا.. اتنی بری طرح ایکسیڈنٹ ہوا ہے
کیا پتا ابھی زندہ ہو اٹھاؤ اسکو.
ایمبولنس کو بلاؤ کوئ…
ہر طرح کے فقرے ان کے کان میں پڑ رہے تھے اور وہ بس دم سادھے یہ جملے سن رہی تھیں..
پھر ان کے جسم میں حرکت ہوئ اور وہ موبائل پھینک کے باہر کی طرف دوڑیں.. انہیں زرکش کو بتانا تھا اور اسے لیکر ہسپتال جانا تھا..
کونسے ہسپتال یہ وہ بعد میں پتا کرلیں گی.. انہوں نے سوچا…
جیسے ہی وہ زرکش کے کمرے میں آئیں تو سامنے کا منظر انہیں خوف میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھا….
زرکش بیڈ پر لیٹی تھی اور سر تھوڑا بائیں اور جھکا تھا..
اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی بیڈ کے پاس نیچے زمین پر ایک چھوٹی سی بوتل پڑی تھی..
اور اسکی ساس وہیں زمین پر ڈھیر ہوگئیں… . اپنے ہوش ہواس سے بیگانہ وہ زمین پر پڑی تھیں..
…..
زرکش شہریار کی کہانی ختم ہوگئ تھی اور شاید شہریار کی بھی…
اور ختم بھی بہت بری طرح ہوئ تھی..
اور دنیا والوں کو لگتا ہے زندگی بہت آسان ہےاتنی آسان کے وہ اسے جی لیں گے.. پر انہیں کیا پتا ان کا یہ اچھا وقت جلد ہی ختم ہوجاۓ گا..
زرکش شہریار نے غلط کیا.. وہ بول سکتی تھی وہ اپنے لیے لڑ سکتی تھی..
وہ زندگی سے اچھے کی امید رکھ سکتی تھی پر اس نے گناہ کا راستہ چُنا .وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئ اور اس کے لیے دونوں جہانوں میں تکلیف لکھ دی گئ……
زندگی نے اسے شکست دی تھی یا اس نے زندگی کو کیا فرق پڑتا تھا نقصان تو صرف زرکش شہریار کا ہوا تھا…
ختم شد
Views:1,369
Reviews
There are no reviews yet.
Be the first to review “Shikasta Dill” Cancel reply
Reviews
There are no reviews yet.