چاند کی چاندنی خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو سورج کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ثانیہ بھی اپنی چاندنی کو ماند نہیں ہونے دینا چاہتی تھی اس لیے اس نے وہ کیا جو ہر کسی کی سمجھ میں آنے والا نہیں تھا
ایک لڑکی جو گھر کے مسئلوں سے تنگ آکر سکون حاصل کرنے کے لیے لائیبریری جانا شروع کرتی ہے مگر اسے کیا معلوم تھا وہان بھی اسے بیچنی ملے گی مگر وہ خود کو heal کرنا جانتی ہے وہ اپنی حدود اچھے سے جانتی ہے اِسی لیے آخر میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی ہے اور ہر چیز بھولنے کا فیصلہ کرتی ہے،
اللہ نے ہر انسان کو اُس کی سوچ سے زیادہ نوازا ہے۔ زندگی اک امتحان ہے، کسی کو دنیا میں بہت کچھ دے کر نوازا گیا ہے تو کسی سے لے کر۔ غرض یہ ہے کہ انسان اپنے اچھے اور برے وقت میں کتنا شکر ادا کرتا، کتنا صبر سے کام لیتا ہے۔ دنیا میں سب سے امیر انسان وہ ہے جس کے والدین حیات ہیں۔ سر پر والدین کا سایہ ہونا کسی نعمت اور خوشنصیبی سے کب نہیں۔
یہ کہانی ہے میری، آپ کی اور ہر افرحہ کی، ایک ذہین مصنفہ جو اپنے خیالات کے سمندر میں ڈوب رہی ہے۔ جب وہ اپنے ذہن میں کرداروں، پلاٹ کے موڑ اور مناظروں کا گچھا لئے لکھنے کا وقت تلاش کرتی ہے۔ لیکن جب وہ بالآخر لکھنے بیٹھتی ہے تو اس کے خیالات دھوئیں کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔اپنے ہی دماغ کی بھول بھلیوں میں وہ تخلیقی دباؤ کے چیلنجز کا سامنا کرتی ہے۔ کیا وہ اپنے خیالات کو پکڑ پاتی ہے یا وہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوجاتے ہیں؟؟ جاننے کےلیے پڑھئے گوہرِ تخیل
حباب یعنی پانی کا وہ قطرہ جو بارش کے وقت پیدا ہوتا ہے۔ اور یاد رہے یہ ان لاکھوں، ہزاروں بارش کے قطروں سے زیادہ نایاب ہے کیونکہ یہ وہ قطرہ ہے جس سے سات رنگ لیے قوس و قزح پروان چڑھتا ہے۔ ایسے ہی ہماری زندگی میں چند قوس و قزح کی مانند کردار موجود ہیں۔ اور ان کرداروں کی کہانی ہے حباب۔۔۔
یہ کہانی ان لڑکیوں کے لیے ہے جو آج کل کچھ لکھاریوں کا ڈارک رومانس کے نام پر فہاشی پڑھ کر انسپائر ہوتی ہیں جو ٹاکسیسیٹی کو رومینٹاسائز کرنے لگتی ہیں ۔ جب کہ حقیقت میں ڈارک رومانس کچھ نہیں ہوتا ۔ یہ بس نئ نسل کا دماغ خراب کرنے کے لیے فہاشی لکھی گئی ہے ہمیں ایسے لکھاریوں کا بائکاٹ کرنا چاہیے ۔ امید ہے اس کہانی سے آپ لوگوں کو کوئی سبق ملے گا