Haakim e Zanjeer

Ask for More Information

Meet The Author

Haakim e Zanjeer

دوپہر کی جلا دینے والی تیز دھوپ میں وہ خاموشی سے سڑک کے درمیان چلتی جارہی تھی۔اردگرد کے ماحول کا سنجیدگی سے جائزہ لیتی کبھی اپنے ماتھے پہ آتے پیسنے کو صاف کرتی اور کبھی رک کے منظر کو دیکھتی جا رہی تھی۔ہر طرف خون کے نشان اور لاشوں کے انبار لگے تھے۔ان لاشوں اور ان سے بہنے والے خون کی اس کی نظر میں کوئی وقعت نہیں تھی جب ہی وہ اتنے سکون سے سارا منظر اپنی آنکھوں میں۔ قید کر رہی تھی یا شائید اب وہ اس سب کی عادی ہو چکی تھی۔ اس کے قدم ایک لاش کے پاس آ رکے۔اس نے لاش کے پاس بیٹھنے کے بعد اس کا چہرا اپنی جانب کیا۔ وہ ایک خوبصورت نین نقش والا ایک معصوم بچہ تھا جس کا چہرا مٹی سے جبکہ جسم خون سے اٹا ہوا تھا۔ اس نے پیار سے بچے کے چہرے کو چھوا
Ahh poor little soul
کہتی اس کے چہرے کو بھوسہ دیا۔
جانے کیا ملتا ہے ان لوگوں کو مر کے؟ کیا ان کو اپنی جانیں عزیز نہیں ہیں؟
نہیں ان کو کوئی عزیز نہیں نہ یہ خود زندہ رہنا چاہتے ہیں۔۔۔اور نہ ہی انہیں اپنے بچوں کی جانیں عزیز ہیں۔۔۔۔ پاس گرے ادھیر عمر کے شخص کی طرف دیکھتی بولی۔۔۔
بے وقوف نہ ہوں تو۔۔
جب ہی اس کے کندھے پہ کس نے نرمی سے ہاتھ رکھا۔ ہاتھ کی نرماہٹ بتا رہی تھی کہ کوئی بچہ ہے۔
اس نے اکتائے ہوئے چہرے کے ساتھ اس نے ہاتھ رکھنے والے کی طرف دیکھا۔
وہ ایک معصوم نو سالہ بچی تھی جس کے ماتھے سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا۔کپڑے اور چہرا کافی میلا تھا لیکن اس کے باوجود وہ بہت حسین معلوم ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں معصومیت لیے وہ جولی کو دیکھ رہی تھی۔
جولی نے اپنے تاثرات کو چھپاتے ہوئے چہرے پہ مسکراہٹ قائم کی اور بچی کے بالوں پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوئی۔
کیا ہوا ننھی پری؟
میں پری نہیں ہوں۔
مجھے تو پری ہی لگ رہی ہو۔ اتنی پیاری ہو اتنی پیاری تو پریاں ہی ہوتی ہیں۔۔۔جولی مسکراتے ہوئے بولی۔
نہیں پریوں سے سب محبت کرتے ہیں۔ پریوں کو کوئی تکلیف نہیں دیتا لیکن مجھے تو کوئی پیار نہیں کرتا۔ ہاں امی ابو کرتے تھے لیکن وہ تو اللہ میاں کے پاس چلے گئے اور دیکھیں اگر میں پری ہوتی تو مجھے نہ مارتے ۔۔۔۔ سر کی طرف اشارہ کرتی بولی۔
جولی سر جھکا گئی۔
کیا آپ میری مدد کریں گی؟ میں جانتی ہوں مجھے آپ سے مدد نہیں مانگی چاہیے لیکن مجھے بہت پیاس لگی ہے۔ کیا آپ پانی پلا سکتی ہیں؟
بلکل پلاؤں گی۔۔۔ جولی اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کی ننھی انگلی تھامتے بولی
آؤ گی میرے ساتھ پانی پینے۔
بچی نے سر ثبات میں ہلایا تو جولی بھی مسکرا دی۔
اب دونوں مشرق کی جانب مڑ چکیں تھیں۔
تم نے یہ کیوں کہا تمھیں مجھ سے مدد نہیں مانگنی چاہیے تھی؟
کیونکہ مدد صرف اللّٰہ سے مانگتے ہیں۔
پھر مجھ سے کیوں مانگی؟
کیونکہ اللّٰہ کچھ لوگوں کو مسیحا بنا کے بھیجتا ہے۔
تو کیا میں مسیحا ہوں؟
جی۔
تمھیں کیسے معلوم؟
کیونکہ آپ کے ہاتھ میں قرآن ہے۔
جولی نے اپنے ہاتھ میں موجود کتاب دیکھی جو اس نے کسی لاش کے پاس سے اٹھائی تھی۔۔۔ پھر تھوڑی حیرانگی سے بچی کو دیکھا
تو جس کے پاس قرآن ہوتا ہے وہ مسیحا ہوتا ہے؟
نہیں۔
تو پھر؟
قرآن کی تعلیمات انسان کو مسیحا بنا دیتی ہیں۔
جولی پہ جیسے حیرت کا پہاڑ گرا تھا۔ایک چھوٹی سی بچی اتنی گہری باتیں کیسے کر رہی تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
مسیحا کون ہوتا ہے؟
جو اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کی مدد بنا یہ جانے کہ وہ کون سے مذہب سے کون سی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ بس یہ جانتا ہو بندے اللہ کے ہیں مدد لازم ہے۔
جولی کچھ دیر خاموش رہی پھر سر جھٹک کے بولی۔
کیا نام ہے تمھارا؟
زینب۔
اوہ۔۔ تمھاری طرح ہی بہت خوبصورت ہے وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
اس بات پہ زینب بھی مسکرا دی۔
تمھارے امی ابو کیسے فوت ہوئے؟
اسرائیل کے فوجیوں نے گولیاں مار کے شہید کر دیا۔
اوہ ۔۔ کتنا وقت ہو گیا ہے ان کے انتقال کو؟
وہ کچھ سوچتے انداز میں بولی ۔۔۔ شائید پانچ منٹ بعد دو گھنٹے ہو جائیں گے۔
کیا؟ جولی ایک دم رکتے ہوئے بولی
پانچ منٹ بعد ان کے انتقال کو دو گھنٹے ہو جائیں گے۔۔ زینب مسکراتے ہوئے بولی۔
کیا تمھیں ان کے مرنے کی تکلیف نہیں ہوئی؟
نفی میں سر ہلاتے ہوئے گویا ہوئی۔۔۔۔۔ پہلی بات تو یہ وہ مرے نہیں شہید ہوئے ہیں ۔دوسری بات اللّٰہ تعالیٰ کہتے ہیں شہید کو مردہ نہ کہو وہ زندگی ہوتے ہیں۔ امی کہتی تھیں شہید اللّٰہ کے خاص بندے ہوتے ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ اللہ کے قریب ہوتے ہیں اور ہر کوئی شہید نہیں ہوتا۔جس سے اللہ زیادہ محبت کرتا ہے اس کو شہادت نصیب ہوتی ہے اور ہاں شہید کے لیے روتے نہیں ہیں۔
جولی کی آنکھوں میں آنسوں دیکھتے ہوئے بولی
کیا تم جانتی ہو وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
اس نے ثبات میں سر ہلایا۔
جولی پہ خاموشی طاری ہوگئی۔
جولی نے گھر آکے اس کو پانی اور کھانا دیا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ کھانے والی میز پہ ہی وہ قرآن موجود تھا جو جولی نے کسی لاش کے پاس سے اٹھایا تھا۔ جولی کی نظریں قرآن پہ ٹک گئیں۔
وہ قرآن کو دیکھتے بولی۔۔۔ تم لوگ سڑکوں پہ نکل کے احتجاج کیوں کرتے ہو؟ کیوں اسرائیل کے آگے جھک نہیں جاتے؟ کیوں اپنی زندگی آسان کر لیتے؟
ہم اللہ کی پاک سر زمین کو بچانے کے لیے نکلتے ہیں۔ اور جھکا صرف اللّٰہ کی ذات کے آگے جاتا ہے وہی حاکم ہے وہی مالک ہے وہی قابلِ سجدہ ہے اور زندگی تو ہماری آسان ہی ہے مشکل نہیں ہے۔
کیا مطلب کیسے آسان ہے؟ جولی بڑے تعاجب سے بولی۔
ابو کہتے تھے جس کو اللہ نے پیدا کیا اس کو سانسیں دیں اس کو چاہے کشیدہ رزق اور بہترین بنگلے سے نہ نوازے لیکن وہ جانتا ہو اور اس کو یقین ہو کے اس کی سننے والا موجود ہے اور وہ یقین رکھتا ہو کہ شہادت اور جنت اس کا مقدر ہے تو زندگی آسان بنادی جاتی ہے۔
جولی ایک بار پھر حیرت کے سمندر میں ڈوبی تھی۔
ایک ننھی بچی اس کے پاس ہر سوال کا جواب تھا۔ وہ جو 21 سال کی ہو کے بھی ان باتوں کو نہ جانتی تھی وہ نو سالہ بچی بنا سوچے سارے سوالوں کے جواب اطمینان بخش دے رہی تھی۔
زینب کھانا کھا کے الحمد پڑھ رہی تھی۔ جبکہ جولی قرآن کو دیکھ رہی تھی۔
کیا آپ مجھے پانی کی دو بڑی بوتلیں دے سکتیں ہیں؟
جولی کی نظریں اب قرآن پاک سے ہٹ کر زینب کی طرف مڑ گئیں۔
بلکل۔۔۔
زینب نے پانی کی بوتلیں تھامی اور دروازے کی طرف مڑ گئی۔
کدھر جا رہی ہو؟
واپس۔
اسرائیلی فوجی تمھیں مار دیں گے ۔
شہید۔۔۔شہید کردیں گے۔۔۔ وہ تصیح کرتے بولی
ہاں۔۔۔ شہید کر دیں گے
تو کردیں۔۔ لیکن میرا جانا ضروری ہے ۔کیا معلوم کسی زخمی کو پانی کی ضرورت ہو۔۔۔ کہتے ہوئے وہ دروازے سے باہر ہوگئی۔۔ پھر مڑی
کیا اگر میں دوبارہ پانی لینے آؤں گی تو کیا آپ مجھے اور پانی دیں گی۔
جولی مسکرا کر گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے کو پیار سے چھوتے بولی۔۔۔every time
زینب بھی مسکرا ئی اور سیڑیوں کی طرف چلی گئی۔
جولی نے اندر آ کے قرآن کو دیکھا جو ابھی بھی میز پر پڑھا تھا۔ کچھ دیر مسلسل اس کو دیکھتی رہی جب ہی فائرنگ کی آواز سے دوبارہ ہوش میں آئی۔اس نے قرآن کو ہاتھ میں تھاما اور ٹیرس کی جانب بڑھ گئی۔ وہ ٹیرس کی ریلنگ پہ ہاتھ جما کے کھڑی ہوگئی۔ ہاتھ میں موجود قرآن کو نرمی سے چھوا۔ جب ہی اس کی نظر نیچے کی جانب پڑی اور اسے زینب کے ساتھ کی جانے والی گفتگو یاد آئی۔
اسرائیلی فوجی تمھیں مار دیں گے ۔
شہید۔۔۔شہید کردیں گے۔۔۔
ہاں۔۔۔ شہید کر دیں گے
تو کردیں۔۔ لیکن میرا جانا ضروری ہے ۔کیا معلوم کسی زخمی کو پانی کی ضرورت ہو
جولی کی آنکھوں سے زاروقطار آنسوں بہنے لگے۔
وہ جو معصوم بچی کچھ دیر پہلے زخمیوں کو پانی پلانے نکلی تھی۔اس کے ننھے وجود سے خون آبشار کی طرح بہہ رہا تھا۔اس کے آنکھیں جولی کے چہرے پہ ٹکی تھیں یا شائید اس کے ہاتھ میں موجود کتاب پر جسکا ایک ایک لفظ اس کو جینے کی امید دیتا تھی۔ وہ ننھی پری جو کچھ دیر پہلے ہسنتی مسکراتی اس کے پاس بیٹھی اس کے پاس باتیں کر رہی تھی اب زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔
زینب۔۔۔ وہ دھیمے سے بولی
وہ اب بھی مسکرا رہی تھی جیسے وہ کچھ دیر پہلے مسکرا رہی تھی۔
دو اسرائیلی فوجی زینب کی تلاشی لے رہے تھے۔
جولی کو ان کی آوازیں آرہیں تھیں۔
یہ مر گئی۔۔۔ جب ہی اس کے کان میں زینب کی موت کی خبر پڑی۔
مرگئی۔۔۔ وہ دھیمے سے بولی۔
شہید۔۔ شہید ہو گئی ۔۔ کسی نے اس کی تصیح کی۔
زینب شہید ہوگی ۔۔۔ وہ قرآن کو دیکھتے ہوئے بولی
اسرائیلی فوجی اب زینب کے معصوم وجود کو بے دردی سے کھینچتے لے جا رہے تھے اور یہ درد ناک منظر دیکھ کر جولی کی روح تڑپ گئی۔
زینب سچی تھی۔ اس کی زندگی واقعی آسان تھی۔اس کے امی ،ابو سچے تھے، اس کا دین سچا تھا۔ قرآن واقعی دلوں کو موم کر دیتا ہے۔ان کے آگے سجدہ کرنا واقعی ناگزیر تھا۔ حاکم ۔۔حاکم صرف اللّٰہ ہے ۔۔ یہ حاکمِ زنجیر تو بن سکتے ہیں لیکن حاکمِ دین و دنیا نہیں۔
اور زینب جاتے جاتے اپنے یقین،امید اور دین کا جگنوں جولی کے ہاتھ میں تھما گئی۔
۔۔۔۔۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Haakim e Zanjeer”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?