یہ کہانی ہے فیصل اور آصف کی چٹ پٹی شرارتوں اور دادی جان سے نوک جونک کی، لبینہ اور خضر کی مُحبت میں لکھی گئی ہے۔۔ اس کہانی میں آپ دنیا کے فریب اور تلخی سے ہٹ کر مسکراہٹ کے لمحات گزار سکیں گے۔۔ جہاں صرف محبتیں اور شرارتیں ہیں۔ جہاں چاہت ہے اپنوں کی۔
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دین کو قید سمجھتی تھی جسے لگتا تھا کہ پردہ کرنا اسکے بس کی بات نہیں۔ وہ زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتی تھی مگر اسکے رب کو کچھ اور منظور تھا۔
شہرِ فلسطین پر لکھی گئی ایک ایسی تحریر جو صرف چند کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ مگر اس تحریر کا ایک ایک لفظ انبیاء کی سرزمین پر پلتے لاکھوں حقیقی کرداروں کا عکس ہے۔
عکس لکھا گیا ہے کیوں کہ شہر شہداء کے وہ لوگ آخر میں اپنے دشمنوں کی باتیں نہیں بلکہ اپنے دوستوں کی خاموشی کو یاد رکھیں گے۔
اشکِ ندامت فقط ایک کہانی نہیں بلکہ یہ ایک مشعلِ راہ ہے۔ جس سے رہنمائی حاصل کرکے زندگی کو اندھیر نگری سے اجالے کی طرف لایا جاسکتا ہے اور قربِ الہی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
ماں باپ اور بیٹی سے منسوب اک سچی کہانی۔
معاشرے میں بڑھتے ذہنی امراض سے آگاہی کی اک چھوٹی سی کاوش۔ اک ایسی کہانی جس کے ہر کردار میں اک الگ کہانی ہے مگر کہانی کا مرکزی کردار مقدس فاران ہے۔ دینی و دنیاوی زندگی ساتھ لیکر چلتی مقدس فاران۔ خوشحال زندگی کی متلاشی مقدس فاران۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی بیٹی کیلئے جان گنوانے والی ماں کی کہانی جو آپ کی آنکھوں میں بھی آنسو لائے گی۔
یہ کہانی ہے ایک ایسے لڑکے کی جو مایوسی کے دلدل میں پھنسے ہوۓ تھا پھر خدا نے اسے ہدایت دی یہ کہانی ہے دوستوں کی یہ کہانی حسین یوسف کی یہ کہانی ہے یوسف کی نور کی یہ کہانی ہے یوسف اور نور کی ۔
تعلقات کی الجھن میں وہ ایک ڈور جو کہیں پہلے ہی چھوٹ گئی تھی کیا اسے بھلا دیا گیا یا اسی کے سہارے زندگی گزاری گئی۔ ڈور کا دوسرا سرا ملنا ہر ایک کے مقدر میں نہیں ہوتا مگر کیا وہ عزیزم اس کے مقدر میں تھا؟۔۔۔ وہ ویٹنگ ایریا میں بیٹھی کچھ مضطرب سی نگاہیں دوڑا رہی تھی۔ موبائل کی وائبریشن نے ایک بار پھر اس کی دھڑکن تیز کی تھی۔ ہاں وہی پیغام تھا یہ۔ یہ سلسلہبہت پرانا تھا۔ وہ لڑکا فون پر بات کررہا تھا جب اسے کسی نے پکارا تھا۔ وہ پیچھے مڑا تو برف کا پتلا بن گیا تھا۔ نہیں یہ اس کا خواب نہیں تھا۔ اس بار یہ اسکا خواب نہیں تھا وہ واقعی وہاں موجود تھی۔
بدلتی راہیں ناول ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتا ہے جو اپنے باپ کے لاڈ پیار کی وجہ سے تھوڑی سخت مزاج کی حامل ہے مگر اسے اپنے قریبی رشتوں سے پیار ہے وہ اپنی خواہشات کو پورا کر دینے کی خاطر سب کچھ کرنے کی حامی ہے مگر اسکی زندگی اچانک ایک نیا رخ اختیار کرتی ہے اور ایک ایسا لمحہ آتا ہے جس کے بعد پھر پہلے جیسا کچھ نہیں رہتا اور زندگی کے اس اُتار چڑھاؤ میں اُسے اپنا ہم سفر مل جاتا ہے ..
کوئی زخموں پر مرہم رکھتا تھا…
کوئی تحریروں سے امیدیں جگاتا تھا…
کوئی سچ کی آنکھ بنا ہوا تھا…
وہ ایک امید تھے، ایک آواز تھے…
ایک روشنی، ایک انقلاب تھے وہ…
مگر امیدیں ٹوٹ گئیں، آوازیں دفن ہو گئیں…
روشنی پر اندھیرے نے راج کر لیا…
اور انقلاب… کبھی آ نہ سکا…
وجہ؟
وہ لوگ… جن کے دلوں میں دل نہیں، پتھر تھے…
جن کے ضمیر مر چکے تھے…
جو لاپرواہ، بےحس، اور خاموش تماشائی بنے رہے…
سب مٹی ہو گئے…
اور جو باقی رہ گئے۔۔
ان کو بچانے بھی کوئی آگے نہیں بڑھا۔
وہ… تنہا رہ گئی…
نم آنکھیں، لرزتے لب،
بہتے آنسو، اور کچھ دعائیں۔۔
چاروں طرف آگ کا طواف…
جس کی تپش اس تک پہنچ رہی تھی۔
اور اس کی آہیں، اس کی پکار…
بس ایک رب سن رہا تھا…
کیا اس کا سننا کافی نہیں؟
کہیں میں اور آپ بھی تکلیف کی شدت میں زبان سے ادا ہونے والی ان بددعائوں میں شامل تو نہیں؟
کیا ہم خاموش تماشائیوں پر عذاب نہیں آئے گا؟