عثمان ایک کٹھن وقت سے گزر کے زندگی کا وہ راز سیکھ گیا جو شاید ہر ایک کے لیے آسان نہیں۔ ایک ایسا جذبہ جس کی سب کو اشد ضرورت ہے۔ کیا عثمان اپنی مشکلات سے نکل کر منزل پالے گا؟ آخر کیا ہے وہ راز ؟
رامین سکندر نامی ایک لڑکی جو لے پالک ہے لیکن اسے معلوم نہیں بعد میں اس کی منگنی کے دن اسے پتہ چلا اور اس کے منگیتر نے اسے صرف جائیداد کے لیے چھوڑ دیا جس کے بعد وہ بہت دکھی تھی پھر وہ اور اس کی دوست ملیحہ بیچلرز کے لیے لاہور چلی گئیں۔ اور جہاں وہ اپنی دوست ملیحہ کے بھائی یزدان ملک کے بارے میں سوچنے لگتی ہے
لاہور میں ایک نامعلوم شخص نے اسے بہت سے خطوط بھیجے پھر بیچلر کے بعد وہ واپس اسلام آباد چلی گئی جہاں اس کی شادی اس کے دوست کے بھائی کے ساتھ ہو گئی اسے لگتا ہے کہ وہ اس کی دوست کا دوسرا بھائی معید ہے یزدان نہیں بلکہ نکاح پر اس کی دوست ملیحہ اسے بتاتی ہے کہ یزدان وہ شخص تھا جس نے اسے خطوط لکھے اور نکاح کے بعد جب وہ اس سے ملی تو پتہ چلا کہ وہ یزدان ہے معید نہیں
یہ داستان ہے دو دوستوں کی جو بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے، حسد کی، ذہنی غلامی کی۔یہ داستان ایک فرضی کہانی ہے لیکن اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو آج کل ہمارے معاشرے کا اہم ناسور بن چکے ہیں تو اس لیے اسے کہانی کی طرح لیا جائے اور ان باتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ یہ میری طرف سے ان کے نام جو ذہنی غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں۔
کوئی زخموں پر مرہم رکھتا تھا…
کوئی تحریروں سے امیدیں جگاتا تھا…
کوئی سچ کی آنکھ بنا ہوا تھا…
وہ ایک امید تھے، ایک آواز تھے…
ایک روشنی، ایک انقلاب تھے وہ…
مگر امیدیں ٹوٹ گئیں، آوازیں دفن ہو گئیں…
روشنی پر اندھیرے نے راج کر لیا…
اور انقلاب… کبھی آ نہ سکا…
وجہ؟
وہ لوگ… جن کے دلوں میں دل نہیں، پتھر تھے…
جن کے ضمیر مر چکے تھے…
جو لاپرواہ، بےحس، اور خاموش تماشائی بنے رہے…
سب مٹی ہو گئے…
اور جو باقی رہ گئے۔۔
ان کو بچانے بھی کوئی آگے نہیں بڑھا۔
وہ… تنہا رہ گئی…
نم آنکھیں، لرزتے لب،
بہتے آنسو، اور کچھ دعائیں۔۔
چاروں طرف آگ کا طواف…
جس کی تپش اس تک پہنچ رہی تھی۔
اور اس کی آہیں، اس کی پکار…
بس ایک رب سن رہا تھا…
کیا اس کا سننا کافی نہیں؟
کہیں میں اور آپ بھی تکلیف کی شدت میں زبان سے ادا ہونے والی ان بددعائوں میں شامل تو نہیں؟
کیا ہم خاموش تماشائیوں پر عذاب نہیں آئے گا؟
یہ افسانہ 1947 کی تقسیم کے بعد بچھڑنے والے رشتوں، یادوں اور خوابوں کا نوحہ ہے۔ یہ اُن چھوٹی ریاستوں اور بستیوں کو خراج ہے جنہوں نے ہجرت کا دکھ دل میں بسائے رکھا۔ لکیر نے صرف زمین نہیں، دلوں، رشتوں اور بچپن کی یادوں کو بھی جدا کیا۔ کہانی اُن بچھڑے چہروں اور کھوئے خوابوں کی ہے جو وقت کی گرد میں دب گئے، مگر امید اب بھی زندہ ہے کہ شاید ایک دن سب کچھ پھر سے جُڑ جائے، اور ہم کہہ سکیں: “ہم صرف بچھڑے تھے، بھولے نہیں”۔
لوگ کہتے ہیں مرد مجبور نہیں ہوتا لیکن میں کہتی ہوں مرد مجبور ہوتا ہے کبھی گھریلو حالات کے آگے تو کبھی اپنے والدین کے آگے اور ایسی ہی کچھ کہانی احسن اور عائشہ کی ادھوری داستان کی تھی۔۔۔
کہانی ایسے شادی شدہ جوڑے کی ہے جن کی شادی بہت ہی ناسازگار حالت میں ہوتی ہے جس میں دونوں کو بھی سماجی طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر بھی یہ دونوں اپنی خوشی سے زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں
کہانی ایک ایسی لڑکی کی جس نے اپنے پردہ کے لیے اپنوں کی ناراضگی مول لی،اس کا رشتہ ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا تھا،جس کے اپنوں نے ہی اس کا دل دکھایا،کہانی حکم خدا ماننے والی لڑکی کی وہ کہتی تھی اس کے لیے شہزادہ آئے گا اور اللہ نے مرحا حسن کے لیے حماد وسیم کو شہزادہ بنا کر بھیجا جس نے مرحا کے پردے کی عزت کی اور اس سے محبت کی،مرحا حسن کو اپنے دل کی روشنی کہنے والا
یہ کہانی ایک فین فکشن ہے جس میں سعدی یوسف خان ، کارل ، حسن سلطان اور حمزہ حیدر علی ہیں ۔ یہ کہانی ہے دوستی کی محبت کی دوستوں پر جان دینے والوں کی یہ کہانی مزاہیہ ہے پر کہیں جزباتی بھی کر دے گی۔
The intensity of love, the allure of mystery, the enchantment of magic, the depths of sorrow, and the terrifying realities of murder were all expressed by a writer who broke the locks of these narratives with their pen.