یہ کہانی ہے اس نورے گُل کی جسے اس کے رنگ کی بنا پر پرکھا جاتا ہے جسے لوگ چھوٹی سی عمر میں تانوں سے مار ڈالتے ہیں لیکن وہ کھڑی ہوتی ہے اپنے لئے اپنے سے جڑے رشتوں کے لیے وہ کمزور نہیں ہوتی وہ باہمت ہوتی ہے ۔ یہ کہانی ہے اس مصطفٰی کی جو خود سے دو سال بعی اس سانولی لڑکی کی محبت میں بچپن سے گرفتار ہوتا ہے ۔ وہ کم گو لڑکا اس سے گھنٹوں بیٹھ باتیں کر سکتا تھا ۔ یہ کہانی ہے معاشرے میں پھیلی معاشی مسائل کی کہ وہ لوگوں کو کبھی ان کے طریقوں سے جینے نہیں دیتے ۔ اپنی عزت نفس کے لیے وہ لڑکی کھڑی ہوئی تھی اس نے اپنا آپ ویسے قبول کیا تھا جیسی وہ تھی ۔وہ لڑکا اس کا مضبوط سہارا تھا اس کی پرچھائی وہ ایک اچھا دوست بنا اور پھر ایک اچھا ہمسفر ۔
“خوبصورتی صرف ظاہری نہیں ہوتی بلکہ اندرونی ہوتی ہے اور محبت کی روشنی ہر اندھیرے کو ختم کر سکتی ہے۔”
اس کہانی میں حیام احمد حیات، نور العین، زہرہ ناصر، افشاں ندیم، عارض احمد وہاب، ارمان جاوید مغل، زین العابدین اور محمد عالیان خالد کے کردار موجود ہیں جو سب ایک ہی یونیورسٹی میں مختلف ڈیپارٹمنٹس کے سٹوڈنٹس ہیں۔
اس کے مین کردار حیام احمد حیات اور عارض احمد وہاب ہیں ان دونوں کا نکاح بچن میں ان کے بڑوں کی مرضی سے کروایا جاتا ہے کچھ مسائل کی وجہ سے دنوں الگ الگ ملکوں میں بڑے ہوتے ہیں یہ کہانی عارض کے اس کو یونیورسٹی میں ملی ایک لڑکی سے محبت سے لے کر اس کے اس انکشاف تک ہی ہے کہ وہ لڑکی ہی اس کی بیوی ہے۔ بہت سی مشکلات اور مصائب کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے زندگی بسر کریں گے اس کہانی میں سب بیان کیا گیا ہے۔
اس کے بعد کہانی میں افشاں ندیم اور محمد عالیان خالد کی کہانی آتی ہے ان کا سفر بچپن میں ایک کیس سے شروع ہوا تھا۔ پچپن کی نوک جھونک سے لے کر ایک دوسرے سے نفرت اور محبت تک یہ کی کہانی ہے۔ تیسری نمر پر زہرہ ناصر اور زین العابدین ہیں دونوں ہی اپنے دوستوں کی جان شرارت اور معصومیت کے شاہکار ان کی کہانی دوستی ایک دوسرے کی محبت سے انجانیت، غصے، پشتاوے سے لے کر ایک دوسرے کو پا لینے اور کھو دینے تک کی ہے۔
چوتھے نمبر پر ارمان جاوید مغل اور نور العین کی ہے ان کی کہانی میں نور ایک جذباتی لڑکی اور ارمان اس کے معاملے میں سنجیدہ لڑکا ہے ہر وقت کی لڑائی نوک جھونک اور غلط فہمی سے لے کر ایک دوسرے کو معاف کرنے اور اپنانے کی ہے
”نہ پھوپھو کا پتہ معلوم ہے، نہ ان کا نمبر یاد رہا اور چل پڑی تہزیب بی بی، پھوپھو کے گھر چھاپہ مارنے کاش! میرا بھی کوئی منکوحہ جہان سکندر جیسا ہوتا، جو میرا سایہ بن کر میرا پیچھا کرتا، مجھے غیر محفوظ راہوں سے بچانے اپنا فرائی پین لے کر پہنچ جاتا۔“وہ خود کو کوس رہی تھی۔ اسے کیا سوجھی کہ ماموں کے بغیر تنہا سفر کرنے نکل پڑی، جبکہ وہ جانتی تھی کہ حقیقت میں کوئی جہان سکندر اسلام آباد میں اس کا منتظر نہیں تھا۔
”تمیزدار رولر کوسٹر!“ تبھی کسی نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔ داؤد کا چہرہ اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر اس کا دل رو دینے کو چاہا۔
”تہزیب حمزہ نام ہے میرا۔“دانت پیستے ہوئے اپنا بیگ سنبھالتے وہ پیچھے مڑی۔
” رکو، کہاں جا رہی ہو، چڑیل؟“ اپنے پیچھے اسلام آباد کے شہزادے کی پکار پر وہ رکی۔
”کسی پہاڑ سے کودنے۔۔۔بتا دیجیے، کون سا سب سے بلند ہے تاکہ سہولت سے یہ کام سرانجام دے پاؤں۔“
بغیر پلٹے وہ جل کر بولی۔
”ابھی ہم اسلام آباد والے اتنے بےمروت نہیں ہوئے کہ اپنی دہلیز پر آئے مہمانوں کو یوں خودکشی کا ویزا دینے لگیں۔“وہ مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا۔
یہ کہانی ہے ایک آزاد ملک میں رہے کر خود کو قید سمجھے والوں کی یہ کہانی ہے ایک معصوم بچی کی یہ کہانی ہے آزادی کی قیمت کی. میں مانتی ہوں پاکستان میں ہم ویسے آزاد نہیں ہے جیسے ہونا چاہیے مگر یہ کہنا کہ ہم سرے سے آزاد ہے ہی نہیں غلط ہے کیونکہ ہمیں آزادی کا اصل مطلب ہی نہیں پتا اس افسانے میں آزادی کا اصل مطلب ہے آزادی کی قیمت ہے اور یہ سبق ہے کہ اگر ہم ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا