Poetry Collection by Farheen Abrar

Ask for More Information

     Poetry Collection by Farheen Abrar

بیتی باتیں یاد کرنا اب  مشغلہ ہے روز کا
کرتے ہیں باتیں آپ ہی یادوں کے سنگ
گزر جاتی ہے رات یونہی پلک جھپکتے ہوۓ
تنہاٸی بھی کیا اکیلے میں کاٹتے ہیں بھلا؟
مسکراتے بھی نہیں گنگناتے بھی نہیں
کچھ لوگ بچھڑے اس طرح
ہم خود کو تلاشتے بھی نہیں
کہتے تھے جو سنبھل جاٶ ابھی وقت بگڑا نہیں
ہم ہنس کے ٹال دیتے تھے
ان کا  ہر ایک حرف
اب نا وہ لوگ رہے اور رہا نا  وقت  وہ
رہ گیا  اک کاش اور رہ گٸے تنہا ہم
آساں نہیں ہوتا ہر بار ٹوٹ کے جڑ جانا
ہر بار ٹھوکر کھا کر  کھڑے ہوجانا
یہ بستی انا پرستوں کی
یہاں کوٸی کسی کا اپنا نہیں
چپ رہ لوں تو ہو قیامت
بول اٹھوں تو ہو بغاوت
آساں نہیں ہوتا ایسی بستی میں گھر بس جانا۔۔۔
 لہجہ بھی سرد تھا کچھ انداز بھی تھا بدلا ہوا
سرِ بزم جو رہتے تھے قافلہ بھی ساتھ تھا
پسِ پردہ  ہوۓ مراسم بھی ہوۓ مختصر سب
گزر رہی ہے خارزار میں اب روز و شب
سنہری ٹھنڈی شام کے ساۓ جب پر پھیلاۓ
مجھے اپنی آغوش میں بلاۓ
دل بے دھڑک یہی گُنگُناۓ
آ لوٹ چلیں اس نگر
دلفریب تھی جہاں شام و سحر
کبھی خوش ہوۓ کبھی رو دیۓ
کبھی کہہ گۓ کبھی سہہ گۓ
اس دنیا میں رہنے کے لیۓ
جتن کرنے پڑے کیسے کیسے
مختصر یہ ہے کہ کوٸی اپنا نہیں
 جو ہوا اپنا وہ مخلص نہیں
کسے کہتے سنو ہماری داستان
 چند ایک جو ملے وہ بھی بے زار  ملے
بے سکوں ہیں دن میرے
بے سکوں ہیں راتیں میری
ہے روگ کیسا یہ لگا
دن کٹتے نہیں راتیں گزرتی نہیں
ہیں بوجھل آنکھیں نیند سے
گر سونا چاہیں جو ہم
نیند ہم پہ مہرباں نہیں
اس قدر الجھے کہ پھر سلجھ نا پاۓ
گزرا ایسا سانحہ کہ پھر سنبھل نا پاۓ
ان بَسَراَوقات میں بیتی ہے ہم پہ کیا  کیا
اور کہتا ہے یہ زمانہ ہوۓ ہم ہی بد مزاج
کچھ تو بھرم رکھا ہوتا  ہماری خوش مزاجی کا
                        تعلاقات تو دل سے منسوب ہوتے ہیں مزاج سے نہیں۔۔۔
حرف با حرف اتار رہے ہیں
زندگی کے اوراق پر
اگر جو کہہ اٹھیں تو سوچو
فسانے بنیں کیسے کیسے
فلسفہ زندگی آیا سمجھ کچھ اس طرح
شناسا ہوا کرتے تھے جو مراسم  سبھی  اجنبی ٹھہرے
اداس شام لبِ ساحل تنہاٸی اور میں
ڈھلتا سورج بڑھتا سایہ موجِ رواں اور میں
جی لو کہ  باقی ہے ابھی زندگانی
مٹ جاٸیں گے اک دن سب نشاں وقت کے ساتھ
مسکراہٹیں بکھیرنا تھا جن کا فن
عرصہ ہوا ان مہرباں سے بچھڑے ہوۓ
کوٸی ملتا ہی نہیں سناٸیں جسے
داستانِ  تنہاٸی
چند لوگ جو میسر تھے
ہوۓ وہ بھی لا پرواہی کی نظر
قطرہ قطرہ گِررہا ہے فلک سے
نکھر رہی ہے زمیں
ہو میسر ہمیں اِک قطرہ ایسا
جو باعث شِفا ہو۔۔
تُم چیزوں کو کھونے سے ڈرتے ہو
ہم نے تو بیچ سفر میں منزل کھوٸی ہے
  تھے مکان کچّے پر ارادوں کے تھے پکّے
سُنو اہلِ زمانہ دیکھیں ہیں ہم نے وہ مخلص لوگ
ہر عکس کے پیچھے چھپا ہے اک فریب
کون جانے پسِ پردہ  ہیں کتنے چہرے
بھیڑ میں رہ کر بھی نا منوا پاۓ  اپنا آپ
اب جو اکیلے رہتے ہیں کیا خوب سہتے ہیں
اس رات کی تاریکی میں کہیں کھو جاٶں
 دل کرتا ہے میں آسمان کی بلندیوں کو چھو جاٶں
کچھ تو بھرم رکھا ہوتا اُن بَسر اَوقات کا
تعلقات دل سے منسوب ہوتے ہیں مزاج سے نہیں
آنکھیں لوٹ آٸیں تھک ہار کر واپس
رنگ رنگ کے لوگوں میں ملا نا کوٸی ہم رنگ
ہے ملال اب کہ ہم لوٹ جاٸیں پرانی یادوں میں
بن جاٸیں ننھی کلیاں رہیں ماں باپ کی آغوش میں
میری خاموشی بے سبب تو نہیں
صبر چاہیے اس دور سے گزرنے کے لیۓ
اس دور میں موجود ہر چیز ہے لیکن
کہاں سے ڈھونڈ کے لاٶں وہ مخلص لوگ
دل بیزار ہے زندگی کے ان جھمیلوں سے
کوٸی تو ہوتا جو ہمیں سُن کر دلاسے دیتا
تاریخ رَقَم ہے جو سہہ جاتے ہیں  وہ رُلا دیۓ جاتے ہیں۔۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Poetry Collection by Farheen Abrar”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?