یہ ناول ایک سنسنی خیز کہانی ہے جس میں بچوں کی اسمگلنگ کے گھناؤنے جرائم، محبت کی طاقت، اور انتقام کی تڑپ کو مہارت سے بُنا گیا ہے۔ کہانی کے کردار اپنے زخموں اور ماضی کے دکھوں کے ساتھ ایک ایسی جنگ لڑتے ہیں جو صرف جیت یا ہار نہیں بلکہ “شہہ اور مات” کا کھیل بن جاتی ہے۔ ہر قدم پر ایک نیا راز اور ہر موڑ پر زندگی اور موت کی بازی لگی ہوتی ہے۔ محبت یہاں صرف ایک جذباتی سہارا نہیں بلکہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو ظلم کے اندھیروں کو چیر کر انصاف کی روشنی پیدا کرتا ہے، جہاں انجام قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ شہہ دینے والا کبھی مات بھی کھا سکتا ہے۔
دنیائے دو روزہ میں ‘”تصنّع “‘ حقیقت سے بالاتر ہے ،اور اِسے بالاتر بنایا ہے تصنّع برتنے والوں نے ۔۔۔۔۔
” ہر کہانی تصنّع آمیز ہے ہر احساس دکھاوا ہے “
کوئی زخمی روح والا جہاں خود کو مضبوط ظاہر کرنے کا جعلی مظاہرہ کر کے شاکر ہو جاتا ہے وہیں کوئی ہمدردیاں بٹورنے کے لیے خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم بنا دیتا ہے ۔۔۔
تصنّع سے آج تک کوئی نہیں بچ پایا ،کوئی بچنا ہی نہیں چاہتا!
کوئی اسے دنیا میں شمار کر لیتا ہے تو کوئی دینی اموار کا حصہ بنا لیتا ہے ۔۔۔۔
“صالح عمل میں ریاء نیکی نگل لیتی ہے” اور بس عمل بچ جاتا ہے بے مصرف ۔۔۔بے سود۔۔۔۔!
“بلا شبہ ربِ ذوالجلال اعمال سے بھی واقف ہے اور نیتوں کو بھی جانتا ہے “
تصنّع اصلیت کو چھپا دیتا ہے ہمیشہ کے لیے نہیں لیکن کچھ عرصہ کے لیے ۔۔۔۔۔ کیونکہ ہمیشہ کے لیے کچھ نہیں ہوتا اس جہاں میں تو بالکل بھی نہیں!
وہ عرصہ سیکنڈز پر محیط ہو یا صدیوں پر ۔۔۔۔۔جیسے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ویسے ہی اصل کبھی نہیں چھپتا ۔۔۔۔۔۔
ہر بھید کھل جاتا ہے اِس جہاں میں نہیں تو اگلے جہاں میں۔۔۔!
عذر گناہ ، عذرگناہ ایک گہر ا لفظ نہیں ہے میرا نہیں خیال کہ اس کے معنی کسی کو سمجھ نہ آئیں۔خیر!ہم جو گناہ کرتے ہیں۔ ان میں چند ہی گناہوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں ۔بعض گناہوں پر عذر پیش کردیتے ہیں۔ایسا عذر جو اگر دوسرا شخص سن لے تو اسے وہ بے مطلب لگے اور ہم کند ذہن۔
ایسے ہی عذر گناہ کے تمام کردار ہیں جن کے پاس بھی یہ عذر موجود ہے۔