محبت کرنے والوں کو دکھ دیتے ہوئے اس نے گمان بھی نہ کیا تھا کہ مکافات عمل کا وقت بھی آئے گا۔پورے راستے اس کے اندر جھکڑ چلتے رہے۔ غصہ نفرت جوش اور تاسف اس کے اندر سر پٹختارہا تھا مگر جس لمحے وہ اندر داخل ہوا سارا شور ایک سکوت کے زیر اثر آگیا
کچھ لوگ اپنی بے سکونی کا علاج دوسروں کو بے سکون کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ہر بار قسمت یاوری نہیں کرتی کبھی کبھی وہ کچھ بھی ہوجاتا ہے جس کا انسان گمان بھی نہیں کرسکتا
وقت کا سیل رواں یونہی گزر رہا تھا کبھی کوئی لہر انہیں قریب لے آتی اور کبھی کوئی موج دور پٹخ دیتی ۔دونوں ہی ضدی تھے ایک کی مانگنے کی خو نہیں تھی تو دوسرا بن مانگے دینے کا عادی نہیں تھا
محبتوں کی پرکھ نہیں کی جاتی نہ ہی رشتے آزمانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہر شخص ہمارے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا اس لیے اسے آزمائش میں ڈالنا زیادتی ہے مگر عشیر نے اس کی وفا کو امتحان میں ڈال دیا تھا جس نے محبت کا گھروندہ ابھی بنایا بھی نہیں تھا
زندگی میں کچھ خواہشیں کچھ چاہتیں چند واقعات کی نظر ہو کر حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔۔کہانی کرداروں کی جستجو اور چاہتوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، جو کسی نہ کسی مقام پر پوری ہوتی ہیں یا دل میں دبی حسرت ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔
جب انسان کو ہر چیز میسر ہو تمام تر آساٸشیں ملی ہوٸی ہوں تو انسان کبھی اپنے اصل مقصد تک پہنچ ہی نہیں سکتا،جب تک در در کی ٹھوکریں نا لگیں جب تک انسان سنبھل ہی نہیں سکتا ، اور جب تک روح پر گہرا زخم نا لگے انسان رب کے سجود جھک ہی نہیں سکتا۔۔۔“
یہ ایک خودسر لڑکی کی کہانی ہے جو دنیا کی رنگینیوں میں گم اپنا گھر ،ماں باپ سب چھوڑ آتی ہے یہ کہانی ہے اپنی تلاش کے سفر کی جو شروع ہوا گمراہی سے اور ختم ہوا اپنی تلاش پر راہِ ہدایت پر۔۔۔
کہانی میں آپ ملیں گے کچھ ایسے چلبلے کرداروں سے جو آپکے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دے گے ،
اس کہانی میں آپ ملے گے تین دوستوں سے جو کچھ زیادہ ہی پاگل ہیں اور ان کو سدھارنے والے بھی ان سے کم نہیں ہیں،
اس کہانی میں آپ ملیں گے ایک بدتمیز شاگردہ اور انکے سلجھے ہوئے پروفیسر سے،ایک حکم چلانے والے باس اور انکی نافرمان سیکرٹری سے ،ایک کھڑوس ہیرو اور ان پر مرنے والی ڈبل کھڑوس ہیروئن سے اب انکی زندگی آپس میں کیسے الجھتی ہے یہ جاننے کے لئے ناول سے جڑے رہیئے۔
آزمائشوں کے شوریدہ طوفانوں میں ڈولتی محبت کی ناؤ جو بدگمانی اور سازش کی تیز لہروں سے لڑکھڑاتی دکھوں کے گہرے پانیوں میں غوطے کھاتی عشق کے جزیرے پہ اترتی ہے۔۔۔ تاحدہ نگاہ چھائی مشکبار جذبوں کی ہریالی جن کے بل کھاتے رستوں پہ لوگ ملتے بچھڑتے اپنی شناخت پاتے ہیں۔۔۔ جزیرے کے بیچوں بیچ شہر آباد ہے “شہر جاناں، جس میں اہلِ دل لوگ اپنے مسکن میں بسے محبت کے گیت گاتے عشق کی معراج کو چھوتے ہیں اور آنے والے بنجراؤں کےلیے بانہیں وا کردیتے ہیں آؤ “کہ آباد شہرِ جاناں ہو”۔۔