آزمائشوں کے شوریدہ طوفانوں میں ڈولتی محبت کی ناؤ جو بدگمانی اور سازش کی تیز لہروں سے لڑکھڑاتی دکھوں کے گہرے پانیوں میں غوطے کھاتی عشق کے جزیرے پہ اترتی ہے۔۔۔ تاحدہ نگاہ چھائی مشکبار جذبوں کی ہریالی جن کے بل کھاتے رستوں پہ لوگ ملتے بچھڑتے اپنی شناخت پاتے ہیں۔۔۔ جزیرے کے بیچوں بیچ شہر آباد ہے “شہر جاناں، جس میں اہلِ دل لوگ اپنے مسکن میں بسے محبت کے گیت گاتے عشق کی معراج کو چھوتے ہیں اور آنے والے بنجراؤں کےلیے بانہیں وا کردیتے ہیں آؤ “کہ آباد شہرِ جاناں ہو”۔۔
یہ ایک کرائم فیکشن اسٹوری ہے، جسمیں ہمارے معاشرے میں دو خاموش اور گمنام پہلوؤں کا ذکر ہے، ٹاکسک پیرنٹنگ اور سائیکوپیتھی. کہانی ہے کرداروں کے بھولے ماضی اور ناگہانی مستقبل کی. کہانی کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ کردار کیسے روپ بدلیں گے یہ جاننے کے لیے آپکو کہانی بھی اُن کرداروں کے ساتھ ساتھ پڑھنا ہوگی
یہ ایک فرضی کہانی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اسے فرضی کہانی کی طرح ہی پڑھا جائے۔۔اس میں بہت سے سینز ایسے ہوں گے جو کہ آپ کو تب تک فضول لگیں گے جب تک کہ آپ ان کو سمجھ نہ لیں۔۔اس ناول میں موجود ہر ٹاپک کو لکھنے کے پیچھے کوئی مقصد ہے اور جو وہ سمجھ جائے وہی عقل مند ہے۔۔علاوہ ازیں جب تک کہانی مکمل نہ ہو جائے اس کے بارے میں کوئی رائے اختیار نہ کریں کیونکہ آخر میں آپ کو پچھتاوا ہو سکتا ہے۔۔یہ کہانی راستوں کو پہچاننے کی ہے۔۔ان راستوں کو پہچاننے کی کہانی جہاں ہمیں جانا تھا مگر ہم بھٹک گئے تھے۔۔
آزمائشوں کے شوریدہ طوفانوں میں ڈولتی محبت کی ناؤ جو بدگمانی اور سازش کی تیز لہروں سے لڑکھڑاتی دکھوں کے گہرے پانیوں میں غوطے کھاتی عشق کے جزیرے پہ اترتی ہے۔۔۔ تاحدہ نگاہ چھائی مشکبار جذبوں کی ہریالی جن کے بل کھاتے رستوں پہ لوگ ملتے بچھڑتے اپنی شناخت پاتے ہیں۔۔۔ جزیرے کے بیچوں بیچ شہر آباد ہے “شہر جاناں، جس میں اہلِ دل لوگ اپنے مسکن میں بسے محبت کے گیت گاتے عشق کی معراج کو چھوتے ہیں اور آنے والے بنجراؤں کےلیے بانہیں وا کردیتے ہیں آؤ “کہ آباد شہرِ جاناں ہو”۔۔
خواب۔۔۔ یہ تتلیوں کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔۔ بے اختیار اپنے پیچھے بھاگنے پہ مجبور کردیتے ہیں۔۔۔۔انسان گرتا ہے اس راستے کی مشقتوں کو سہتے ہوئے بہت سی آزمائشوں سے گزرتا ہے مگر اپنا سفر نہیں روکتا اور آخرکار ایک دن وہ اس راستے پہ چلتے چلتے دوڑنا اور دوڑ کر منزل کو پالینا سیکھ جاتا ہے۔۔۔۔اس کہانی میں بہت سے کردار ہیں مرکزی بھی اور ثانوی بھی مگر اس کہانی کا ایک کردار اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے آزمائشوں سے بھرے سفر پہ نکلنے والا وہ شخص ہے جو اس کہانی کو ایک ہی نام دیتا ہے۔۔۔۔
یہ ایک فرضی کہانی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اسے فرضی کہانی کی طرح ہی پڑھا جائے۔۔اس میں بہت سے سینز ایسے ہوں گے جو کہ آپ کو تب تک فضول لگیں گے جب تک کہ آپ ان کو سمجھ نہ لیں۔۔اس ناول میں موجود ہر ٹاپک کو لکھنے کے پیچھے کوئی مقصد ہے اور جو وہ سمجھ جائے وہی عقل مند ہے۔۔علاوہ ازیں جب تک کہانی مکمل نہ ہو جائے اس کے بارے میں کوئی رائے اختیار نہ کریں کیونکہ آخر میں آپ کو پچھتاوا ہو سکتا ہے۔۔یہ کہانی راستوں کو پہچاننے کی ہے۔۔ان راستوں کو پہچاننے کی کہانی جہاں ہمیں جانا تھا مگر ہم بھٹک گئے تھے۔۔
یہ ایک فرضی کہانی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اسے فرضی کہانی کی طرح ہی پڑھا جائے۔۔اس میں بہت سے سینز ایسے ہوں گے جو کہ آپ کو تب تک فضول لگیں گے جب تک کہ آپ ان کو سمجھ نہ لیں۔۔اس ناول میں موجود ہر ٹاپک کو لکھنے کے پیچھے کوئی مقصد ہے اور جو وہ سمجھ جائے وہی عقل مند ہے۔۔علاوہ ازیں جب تک کہانی مکمل نہ ہو جائے اس کے بارے میں کوئی رائے اختیار نہ کریں کیونکہ آخر میں آپ کو پچھتاوا ہو سکتا ہے۔۔یہ کہانی راستوں کو پہچاننے کی ہے۔۔ان راستوں کو پہچاننے کی کہانی جہاں ہمیں جانا تھا مگر ہم بھٹک گئے تھے۔۔
یہ ایک فرضی کہانی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اسے فرضی کہانی کی طرح ہی پڑھا جائے۔۔اس میں بہت سے سینز ایسے ہوں گے جو کہ آپ کو تب تک فضول لگیں گے جب تک کہ آپ ان کو سمجھ نہ لیں۔۔اس ناول میں موجود ہر ٹاپک کو لکھنے کے پیچھے کوئی مقصد ہے اور جو وہ سمجھ جائے وہی عقل مند ہے۔۔علاوہ ازیں جب تک کہانی مکمل نہ ہو جائے اس کے بارے میں کوئی رائے اختیار نہ کریں کیونکہ آخر میں آپ کو پچھتاوا ہو سکتا ہے۔۔یہ کہانی راستوں کو پہچاننے کی ہے۔۔ان راستوں کو پہچاننے کی کہانی جہاں ہمیں جانا تھا مگر ہم بھٹک گئے تھے۔۔
خواب۔۔۔ یہ تتلیوں کی طرع ہوتے ہیں۔۔۔۔ بے اختیار اپنے پیچھے بھاگنے پہ مجبور کردیتے ہیں۔۔۔۔انسان گرتا ہے اس راستے کی مشقتوں کو سہتے ہوئے بہت سی آزمائشوں سے گزرتا ہے مگر اپنا سفر نہیں روکتا اور آخرکار ایک دن وہ اس راستے پہ چلتے چلتے دوڑنا اور دوڑ کر منزل کو پالینا سیکھ جاتا ہے۔۔۔۔اس کہانی میں بہت سے کردار ہیں مرکزی بھی اور ثانوی بھی مگر اس کہانی کا ایک کردار اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے آزمائشوں سے بھرے سفر پہ نکلنے والا وہ شخص ہے جو اس کہانی کو ایک ہی نام دیتا ہے۔۔۔۔
یہ کہانی ہے اس لڑکی کی جو خواہشات کی غلام ہے، جس کے دل میں زندگی کا مقصد تلاش کرنے کی چنگاری ہے، یہ کہانی ہے اس لڑکی کی جو اپنی ذات کے درمیان حائل دھوکے کے پردے کو ہٹا کر خود کا سامنا کرتی ہے، یہ کہانی ہے یشفا عجاز کی۔
خواب۔۔۔ یہ تتلیوں کی طرع ہوتے ہیں۔۔۔۔ بے اختیار اپنے پیچھے بھاگنے پہ مجبور کردیتے ہیں۔۔۔۔انسان گرتا ہے اس راستے کی مشقتوں کو سہتے ہوئے بہت سی آزمائشوں سے گزرتا ہے مگر اپنا سفر نہیں روکتا اور آخرکار ایک دن وہ اس راستے پہ چلتے چلتے دوڑنا اور دوڑ کر منزل کو پالینا سیکھ جاتا ہے۔۔۔۔اس کہانی میں بہت سے کردار ہیں مرکزی بھی اور ثانوی بھی مگر اس کہانی کا ایک کردار اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے آزمائشوں سے بھرے سفر پہ نکلنے والا وہ شخص ہے جو اس کہانی کو ایک ہی نام دیتا ہے۔۔۔۔