یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہمارے معاشرے کے مختلف منفی پہلوؤں کے گرد گھومتی ہے ۔کہانی کے سب کرداروں سے ہمیں ایک سبق ملتا ہے۔یہ کہانی ہم سب کی زندگی میں آنے والے اس موڑ کے لیے ہے جب روشنی اور تاریکی کے انتخاب کا فیصلہ ہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے ہم چاہے تو روشنی کی طرف قدم بڑھائیں چاہے تو تاریکی میں داخل ہو جائیں۔
بے شک رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن انہیں ملانے کا ذریعہ خدا نے ہم انسانوں کو بنایا ہے. کوشش کیا کریں جب کبھی کوئی نیا رشتہ قائم کرنے لگیں تو وہ مفاد پرستی سے بالاتر ہو کیونکہ ملاوٹ تو خدا کو بھی ناپسند ہے
کہانی میں آپ ملیں گے کچھ ایسے چلبلے کرداروں سے جو آپکے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دے گے ،
اس کہانی میں آپ ملے گے تین دوستوں سے جو کچھ زیادہ ہی پاگل ہیں اور ان کو سدھارنے والے بھی ان سے کم نہیں ہیں،
اس کہانی میں آپ ملیں گے ایک بدتمیز شاگردہ اور انکے سلجھے ہوئے پروفیسر سے،ایک حکم چلانے والے باس اور انکی نافرمان سیکرٹری سے ،ایک کھڑوس ہیرو اور ان پر مرنے والی ڈبل کھڑوس ہیروئن سے اب انکی زندگی آپس میں کیسے الجھتی ہے یہ جاننے کے لئے ناول سے جڑے رہیئے۔
ٹین ایج یعنی 13 سے 19 سال کی عمر۔۔یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں جو کام یا جو عمل ہم کرتے ہیں وہ ساری زندگی ہمارے ساتھ رہتا ہے۔۔اگر ہم کچھ برا کر رہے ہیں اور اس کے عادی ہو چکے ہیں تو آگے زندگی میں بھی ہم برے ہی رہیں گے۔۔لیکن اگر کچھ اچھا کرتے ہیں تو ہم آگے جا کر ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔۔ٹین ایج کی جو باتیں ہوتی ہیں وہ ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔۔جیسے کہ اگر ہم نے کچھ اچھا کام کیا یا برا کیا تو ہمیں وہ یاد رہتا ہے۔۔۔اور اصل زندگی تو شاید ٹین ایج سے ہی شروع ہوتی ہے۔۔ کیونکہ اس میں ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں بہت کچھ پا لیتے ہیں اور کچھ کھو بھی دیتے ہیں۔۔۔اگر اس عمر میں آپ صبر اور برداشت کرنا سیکھ لیں تو آپ کی آگے کی زندگی پر سکون رہتی ہے۔۔۔جو عادتیں اس عمر میں پکی ہو جائیں وہ کبھی نہیں چھوٹتی۔۔اسی لیے کوشش کیجیے کہ اگر آپ بھی ٹین ایج میں ہیں تو اچھی عادتیں اپنائیں۔۔
مکافاتِ عمل کہانی ہے کسی کےبے انتہا صبر کی،یہ کہانی ہے اپنوں کی ذیادتی کی ،حالات سے لڑتی لڑکیوں کی ، دو بہنوں کی آزمائش کی ،معاشرے کے ظالم قانونوں کی ، دو بہادر بھائیوں کی جو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے لگا رہے ہیں جان کی بازی،کھولے گئے ماضی کے راز ،کسی کے گناہ کی ملے گی اسے سزا اور پہنچ جاۓ گے مجرم اپنے انجام تک ،مکافاتِ عمل تک۔
ٹین ایج یعنی 13 سے 19 سال کی عمر۔۔یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں جو کام یا جو عمل ہم کرتے ہیں وہ ساری زندگی ہمارے ساتھ رہتا ہے۔۔اگر ہم کچھ برا کر رہے ہیں اور اس کے عادی ہو چکے ہیں تو آگے زندگی میں بھی ہم برے ہی رہیں گے۔۔لیکن اگر کچھ اچھا کرتے ہیں تو ہم آگے جا کر ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔۔ٹین ایج کی جو باتیں ہوتی ہیں وہ ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔۔جیسے کہ اگر ہم نے کچھ اچھا کام کیا یا برا کیا تو ہمیں وہ یاد رہتا ہے۔۔۔اور اصل زندگی تو شاید ٹین ایج سے ہی شروع ہوتی ہے۔۔ کیونکہ اس میں ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں بہت کچھ پا لیتے ہیں اور کچھ کھو بھی دیتے ہیں۔۔۔اگر اس عمر میں آپ صبر اور برداشت کرنا سیکھ لیں تو آپ کی آگے کی زندگی پر سکون رہتی ہے۔۔۔جو عادتیں اس عمر میں پکی ہو جائیں وہ کبھی نہیں چھوٹتی۔۔اسی لیے کوشش کیجیے کہ اگر آپ بھی ٹین ایج میں ہیں تو اچھی عادتیں اپنائیں۔۔
انجانے ہیں سلسلے کہانی ہے جس کی شروعات ہوتی ہے ظلم جبر اور زیادتی سے اور جو آگے جاکر بدل جاتی ہےمحبت جیسے انمول اور خوبصورت احساس میں لیکن محض ایک فریق کے لئے تو کیا اس کا اختتام بھی ہوگا محبت پہ۔۔۔ یہ کہانی جو ایک فریق کے لئے سفر ہے انا گھمنڈ اور تکبر کی بنا پر ظلم زیادتی اور جبر سے لے کر محبت تک کا جب کہ دوسرے فریق کے لئے دکھ تکلیف اور آزمائش سے لے کر بےیقینی اور بدگمانی تک کا تو کیا ایک کی محبت ختم کر پاۓ گی دوسرے کی بدگمانی اور بےاعتباری۔ کیا ملے گی ان دونوں کو ملے گی اپنی منزل آیئے جانتے ہیں انجانے ہیں سلسلے سے۔
آزمائشوں کے شوریدہ طوفانوں میں ڈولتی محبت کی ناؤ جو بدگمانی اور سازش کی تیز لہروں سے لڑکھڑاتی دکھوں کے گہرے پانیوں میں غوطے کھاتی عشق کے جزیرے پہ اترتی ہے۔۔۔ تاحدہ نگاہ چھائی مشکبار جذبوں کی ہریالی جن کے بل کھاتے رستوں پہ لوگ ملتے بچھڑتے اپنی شناخت پاتے ہیں۔۔۔ جزیرے کے بیچوں بیچ شہر آباد ہے “شہر جاناں، جس میں اہلِ دل لوگ اپنے مسکن میں بسے محبت کے گیت گاتے عشق کی معراج کو چھوتے ہیں اور آنے والے بنجراؤں کےلیے بانہیں وا کردیتے ہیں آؤ “کہ آباد شہرِ جاناں ہو”۔۔