ہمسفر جسے پاک ذات نے ہمارے لیے چن لیا ہو، اس کے جملہ حقوق ہمارے ہاں محفوظ کر دیے ہوں. زندگی کے سفر میں ہمسفر کا ہونا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی ہمراہی بھی اہمیت کی حامل ہے۔
اور پھر اس ہمسفر کا ساتھ ہم نہیـــں جانتے کہ وہ ہمارے حق میں بہتر بھی ہے کہ نہیـــں…؟
تو پھر یاد رکھو کہ جیسا مرد ہوگا ویسی عورت ملے گئی.
یہ کہانی ہے “فاطق مراد” کی جسے ایک قدم رکھنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے اور دوسری طرف بنا سوچے سمجھے زندگی کے ہر پل کو ایڈونچر سمجھ کر گزارنے والی، ضدی اور نکچڑی “حدیقہ بتول” کی۔
انسان مکمل کب ہوتا ہے۔۔؟ یہ تو ہمسفرکی ہمراہی ہے جو اس کے نامکمل کو بھی مکمل کر دیتی ہے۔
’ وہ ایک دن ‘ سفر کا دن ہے۔ سفر بدگمانی سے یقین کا، غصے سے خود شناسی تک کا اور اجنبیت سےاپنائیت کا۔
اب تک مخفی رکھا گیا راز جاننے کے بعد غصے میں اپنوں کی تلاش میں گھر سے نکلی شبیع کی ملاقات راستے میں جہان سے ہوتی ہے جو خود بھی اپنی دوست کی شادی میں شرکت کے لیے جا رہا ہے۔ ایک دن کی ہمسفری میں دونوں کو احساس ہوتا ہے کہ کچھ تعلقات کے اہم اور عزیز ہونے کے لیے خون کا رشتہ یا لمبی قرابت ضروری نہیں ہوتی لیکن کیا ایک دن کا سفر ساتھ کرنے والے ساری زندگی کے لیے ہم سفر بن پائیں گے؟