ماں باپ اور بیٹی سے منسوب اک سچی کہانی۔
معاشرے میں بڑھتے ذہنی امراض سے آگاہی کی اک چھوٹی سی کاوش۔ اک ایسی کہانی جس کے ہر کردار میں اک الگ کہانی ہے مگر کہانی کا مرکزی کردار مقدس فاران ہے۔ دینی و دنیاوی زندگی ساتھ لیکر چلتی مقدس فاران۔ خوشحال زندگی کی متلاشی مقدس فاران۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی بیٹی کیلئے جان گنوانے والی ماں کی کہانی جو آپ کی آنکھوں میں بھی آنسو لائے گی۔
مینہ کو نہیں پتا تھا کہ زندگی اُس کے غلے پر جائیں گی اور اس کے جینے کے لیے قیمت اُسکے اپنوں کو چکانی پڑے گی۔ وہ بیزار ہوگئی تھی اس بوجھ کے ساتھ جیتے جیتے کہ اُسکی اپنے ہی اُسکی وجہ سے نہیں رہے گے۔
کیا کوئی ہوگا ایسا جو مینہ کو اس کھول سے نکال کر اُسکی زندگی سوار دے گا یا اُسکی بے رنگ زندگی ککو بھر دے گا
مینہ کو نہیں پتا تھا کہ زندگی اُس کے غلے پر جائیں گی اور اس کے جینے کے لیے قیمت اُسکے اپنوں کو چکانی پڑے گی۔ وہ بیزار ہوگئی تھی اس بوجھ کے ساتھ جیتے جیتے کہ اُسکی اپنے ہی اُسکی وجہ سے نہیں رہے گے۔
کیا کوئی ہوگا ایسا جو مینہ کو اس کھول سے نکال کر اُسکی زندگی سوار دے گا یا اُسکی بے رنگ زندگی ککو بھر دے گا
یہ کہانی بچپن کے دو دوستوں کی ہے۔جن کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی تھی۔قسمت نے ایسا کھیل کھیلا دونوں کو الگ ہونا پڑا۔12 سال بعد قسمت نے دونوں کا سامنا دوبارہ کروایا۔مگر وقت بدل چکا تھا۔قسمت بدل چکی تھی۔زوہان مصطفی کی محبت نفرت میں تبدیل ہو گئی تھی۔اور نایاب فہیم عباسی زوہان مصطفی کی محبت کا سامنا کرتے کرتے اپنے اخری حد تک پہنچ گئی تھی۔قسمت نے اگے کیا کیا وہ تو کہانی میں پتہ چلے گا۔مگر وقت مرہم بھی ہوتا ہے اور زخم بھی دیتا ہے