یہ کہانی ہے ملاحہ عالم کی ، پرعزم ، خود اعتماد ، مستقل مزاج اور مضبوط کردار کی حامل ایک ایسی لڑکی کی جو بچپن سے زندگی کی سختیوں کو ثابت قدمی اور بہادری کے ساتھ برداشت کرتی آرہی ہے۔۔۔ یہ کہانی ہے عشارب ملک کی۔۔۔ جزباتی اور انا کے پیکر ایک ایسے نوجوان کی ۔۔۔ جس کی زندگی اسے ایک لڑکی کے آنے سے اپنا ایک نیا رخ متعارف کرواتی ہے ۔۔۔ یہ کہانی ہر رمضان المبارک کے مہینے سے دو لوگوں کی زندگیوں کے بدلنے کی ۔۔۔ وہ دو لوگ جو اپنی اپنی انا کا تاج اپنے سروں پر سجاۓ پھرتے ہیں اور پھر رب کے کن سے ٹوٹتے ہیں گرتے ہیں مگر اس خوبصورتی سے قسمت ان دونوں پر رشک کرتی ہے۔
انا کے زوال سے لے کر محبت کے خوبصورت رنگوں سے آشنائی کی ۔۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت داستان
یہ کہانی ہے ملاحہ عالم کی ، پرعزم ، خود اعتماد ، مستقل مزاج اور مضبوط کردار کی حامل ایک ایسی لڑکی کی جو بچپن سے زندگی کی سختیوں کو ثابت قدمی اور بہادری کے ساتھ برداشت کرتی آرہی ہے۔۔۔ یہ کہانی ہے عشارب ملک کی۔۔۔ جزباتی اور انا کے پیکر ایک ایسے نوجوان کی ۔۔۔ جس کی زندگی اسے ایک لڑکی کے آنے سے اپنا ایک نیا رخ متعارف کرواتی ہے ۔۔۔ یہ کہانی ہر رمضان المبارک کے مہینے سے دو لوگوں کی زندگیوں کے بدلنے کی ۔۔۔ وہ دو لوگ جو اپنی اپنی انا کا تاج اپنے سروں پر سجاۓ پھرتے ہیں اور پھر رب کے کن سے ٹوٹتے ہیں گرتے ہیں مگر اس خوبصورتی سے قسمت ان دونوں پر رشک کرتی ہے۔
انا کے زوال سے لے کر محبت کے خوبصورت رنگوں سے آشنائی کی ۔۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت داستان
“سرحد پار” ایک دل کو چھو لینے والی پاکستانی-ہندوستانی رومانوی کہانی ہے، جو محبت، قربانی اور جدوجہد کے پیچیدہ اور گہرے جذباتی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ کہانی ایک کراچی کی صحافی اور دہلی کے ایک سائبر سیکیورٹی ماہر کی ہے، جن کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہے، مگر وہ ثقافتی، مذہبی اور سماجی رکاوٹوں کے بیچ میں اپنی محبت کو تلاش کرتے ہیں۔ دونوں کا رشتہ ایک طویل اور کٹھن سفر پر گامزن ہے، جہاں محبت کے جذبے کے باوجود، دونوں کو اپنی اقدار، خوابوں اور خاندانوں کی توقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی محبت کی راہ میں مشکلات ہیں، مگر یہ انہیں ایک نئی زندگی اور خود شناسی کی طرف لے جاتی ہے۔
یہ کہانی ہر اُس شخص کی ہے جس نے کبھی دل سے محبت کی، اور پھر ناکامیوں کا سامنا کیا۔ یہ اُن کے لیے ہے جو خود کو کھو کر دوبارہ کھڑا ہونے کی طاقت تلاش کرتے ہیں، اور اُن کے لیے بھی جو اپنی تقدیر کے فیصلوں کا سامنا کرتے ہوئے محبت کی اصل حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ “سرحد پار” ایک سفر ہے جو دلوں کی سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور زندگی کی پیچیدگیوں میں سے سچی محبت کا راہ تلاش کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے ہم شکل کو دیکھنے والا پہلا انسان مارا جاتا ہے یا اسے ایسی بیماری لگ جاتی ہے جو اسے ختم کر دیتی ہے۔
عملِ زوال۔
اس سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی۔ اس بات سے لاعلم کہ وہ واقعی ایمان جاوید ہے، جیسے سب اسے کہتے ہیں، یا کوئی اور، وہ خود سے نفرت کرنے والوں کی دنیا میں ایک قدم رکھتی ہے۔
امرِ محال۔
وہ ایک بلیک میلر تھی، یا اس سے ایسا بتایا جاتا ہے۔ مغرور، پیسے کی حوس رکھنے والی لڑکی جس کا خاندان اس سے ایک ایک کر کے چھین لیا گیا۔
سیاہ کار۔
مومن ابرار ایک جھوٹا تھا، یا ایمان کو ایسا لگتا تھا۔ اپنی بہن کی موت کی وجہ کھوجتا، اپنی زندگی سے اکتایا ہوا پینٹر اور لائر، مومن اس پر بھروسہ نہیں کرتا۔ نفرت یا محبت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
قیدِ تحفظ۔
اس سب کے درمیان، ایک تیسرا شخص ہر کڑی کو ملانے اور سب ملی ہوئی کڑیوں کو گھمانے کے لیے ان دونوں کے راستے میں کھڑا ہے۔ اور وہ اس بات سے لاعلم ہیں، کجا کہ یہ شخص ان کے ساتھ ہے، یا ان کے خلاف۔
شجرِ ندامت کے مرکزی کردار ہیں حمدان عالم٫ سندس جہانگیر اور انکے چار بچے:
زوبیہ حمدان ( ایکٹریس)
زاویار حمدان ( بزنس مین)
زنیرہ حمدان( بزنس ویمن)
ذید حمدان( سٹوڈنٹ )
حمدان عالم اور اُنکی اہلیہ سندس جہانگیر کا شمار ملک کے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست میں ہوتا ہے جنہوں نے بزنس کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ذہانت میں دونوں بےمثال ہیں مگر فطرتاً دونوں انا پرست، مغرور اور غصے کے تیز ہے۔ طاقت کے نشے نے اُنکی فطرت میں تکبر کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ اپنے سامنے کسی دوسرے کی بات سنے جانا اُنکو توہین لگتا ہے یہاں تک کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی بات سے بھی وقت بے وقت اختلاف کرتے رہتے ہیں۔ ایک جیسی فطرت کے لوگ اگر ساتھ رہنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو انکا گھر جنت نہیں بن پاتا کُچھ یہی حال حمدان اور سندس کے گھر کا بھی ہے ۔ بات بات پر اختلاف اور لڑائی جھگڑے نے اُنکے بچوں کو بھی گھمنڈی اور فطرتاً بدتمیز بنا دیا ہے۔ عالمز فیملی دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی ہونے کا ناٹک کمیابی سے کرتی ہے مگر درحقیقت ہر ایک فرد اندر سے کھوکھلا ہے۔
دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی نظر آنے والے عالمز کا تختہ اُس وقت الٹ جائےگا جب کہانی کے ولن کی کامیاب چال کے نتیجے میں ہونے والے جھگڑے میں حمدان عالم غصے میں سندس جہانگیر کو طلاق دے دینگے۔ یہ خبر میڈیا پر آتے ہی اُنکے اسٹاک مارکیٹ میں گر جائینگے۔ عالمز کی شناخت کو اس اسکینڈل سے بہت نقصان پہنچے گا۔ طلاق اور پھر حلالہ کی کوشش حمدان عالم اور سندس جہانگیر کے بچوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دے گی۔ دنیا کو ٹھوکر پر رکھنے والے دنیا کا سامنا کرنے سے گریز کریں گے۔ حمدان عالم اور سندس جہانگیر دونوں کی دوسری شادی کے بعد اُنکے بچےکس طرح خود کو سنبھالیں گے اور کیسے مختلف حالات کا مقابلہ کرینگے یہ ناول اُس سفر کے گرد گھومے گا جس میں بہت سے مختلف کردار آئینگے، ماضی کے اوراق بھی کھولے جائیں گے اور اس سفر میں سب اپنا کردار ادا کریں گے۔
یہ کہانی امیر طبقے کے اُس حصے پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہے جہاں کے والدین اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کردیتے ہیں مگر انکی بہترین تربیت کرنا بھول جاتے ہیں۔ کہانی کا اختمام بتائے گا کہ زمین پر اکڑ کر چلنے والوں کو وقت کیسے انکساری سے پیش آنا سکھاتا ہے اور کس طرح حمدان عالم اور سندس جہانگیر دوسرا موقع ملنے پر اپنی اپنی غلطیوں کو سدھاریں گے۔ اس کے علاوہ یہ ناول فرسودہ رسم جس میں عورت کا نکاح قران سے پڑھا دیا جاتا تھا اور حلالہ کا کنسیپٹ جس کو بہت غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے، پر بھی روشنی ڈالے گا۔
یہ کہانی ہے محبتوں کی مُختلِف کیفیات میں مقید کرداروں کی کئی ایسی صورتوں پے مبنی ہے جس میں آپ غلط سہی کا فیصلہ کرنے سے کاصر ہوتے ہیں اور کچھ جذباتوں کی جو آپ کو بے اختیار کر دیتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کے قسمت کی جو آپ کو کئی ایسے ادوار سے گزارتی ہے جِس کا آپ کو گُماں بھی نہیں ہوتا
یہ داستان ہے اس کی خاتون کی جس اعتبار کو محبت پر فوقیت دی،اس مرد کی جس نے قربانی کو اعتبار پر فوقیت دی،انصاف کی، معاشرے سے جنگ کی اور پاکیزہ سفرِ عشق کی۔۔قصة حقيقية۔۔۔۔
یہ کہانی ہے محبتوں کی مُختلِف کیفیات میں مقید کرداروں کی کئی ایسی صورتوں پے مبنی ہے جس میں آپ غلط سہی کا فیصلہ کرنے سے کاصر ہوتے ہیں اور کچھ جذباتوں کی جو آپ کو بے اختیار کر دیتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کے قسمت کی جو آپ کو کئی ایسے ادوار سے گزارتی ہے جِس کا آپ کو گُماں بھی نہیں ہوتا
یہ داستان ہے اس کی خاتون کی جس اعتبار کو محبت پر فوقیت دی،اس مرد کی جس نے قربانی کو اعتبار پر فوقیت دی،انصاف کی، معاشرے سے جنگ کی اور پاکیزہ سفرِ عشق کی۔۔قصة حقيقية۔۔۔۔
یہ کہانی ہے شیطانوں کی۔ شیطان جو ہمارے ارد گرد ہیں، اور شیطان جو ہمارے اندر بسیرا کیۓ ہوۓ ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت سے مراد تخت و تاج کا حصول ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ طاقت اپنے اندر موجود شیطان کو شکست دینے کا نام ہے، اور اس کہانی کے کردار اسی کشمکش میں مبتلا رہیں گے۔ اس کہانی کے ذریعے میں بتانا چاہتی ہوں کہ وقت میں پیچھے یا آگے نہیں جا سکنا اصل میں ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور اس نعمت سے اس کہانی کے بہت سے کردار محروم رہیں گے کیونکہ آپ دیکھیں گے کہ کیسے وہ وقت کو بدلنے کی جستجو میں خود بدل جائینگے-
عمر گزشتہ 1815 کے بر صغیر کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سازش، سیاست اور طاقت کی بو گھلی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا لڑائی کس کے خلاف ہے لیکن فاتح صرف وہی ہوگا جس کی نیت صاف ہو۔ عمومی طور پر ہر سیاسی جنگ کو شطرنج کی بساط سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھی ویسی ہی ہے لیکن اس بساط پر ہر مہرہ چلنے سے پہلے کرداروں کو سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلنا ہوگا۔ اٹھ کر گرنا ہوگا، گر کر اٹھنا ہوگا۔