Mikael
“سنو! مجھے کافی بنا کر دو۔”
وہ ریوالونگ چیئر کو گھماتے ہوئے بولا۔
“سوری____آپ نے مجھ سے کہا؟”
عنوہ جاتے جاتے پلٹ کر نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
“جی بالکل محترمہ____غالباً آپ کے علاوہ یہاں اور کوئی نہیں ہے؟”
اس نے شان بے نیازی سے کندھے اچکائے۔
“میں یہاں کافی بنانے کی جاب نہیں کرتی۔”
عنوہ بمشکل اپنے غصے پر قابو پاتے متوازن لہجے میں بولی۔
“بابا کو بھی تو دیتی ہو تو کیا ان کی چاپلوسی کرتی ہو؟”
میکائیل نے کہنیاں ٹیبل پر رکھ کر دونوں ہاتھوں پر چہرہ ٹکائے استہزائیہ انداز میں کہہ کر اسے زچ کرنا چاہا اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب ٹھہرا تھا۔
“دیکھیں اب آپ حد سے بڑھ رہے ہیں۔ آپ مجھے مجبور نہ کریں میں سر کو آپ کی شکایت کر دوں گی۔”
اس کے وارننگ دیتے لہجے پر میکائیل کاردار کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا۔
“سیریسلی تمھیں لگتا ہے میں اپنے باپ سے ڈر جاؤں گا، شٹل کاک کہیں کی ہونہہ۔”
ہنستے ہنستے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
عنوہ نے لب بھینچے اس کی ہنسی دیکھی جب سے یہ بندہ آفس آنے لگا تھا تب سے اس کا سکون برباد ہو کر رہ گیا تھا جانے کس بات کا بدلہ لے رہا تھا؟
My Kharoos Mr.
“اس بلے کو کتنی جلدی غصہ آ جاتا ہے ہر وقت غصہ غصہ جیسے آیا ہی دنیا میں غصہ کرنے کے لیے ہے!!”
بڑبڑا کر وہ سینے پر ہاتھ بندھتی پیر جھلانے لگی۔ بدر نے ناگواری سے کال کاٹ کر نمبر ڈیلیٹ کر دیا۔
“ویسے تمہیں اتنا غصہ آتا کہاں سے ہے؟”
ہتھیلی پر گال ٹکا کر اس نے آنکھیں بار بار جھپک کر معصومیت سے بولنے کی کوشش کی وہ الگ بات ہے معصومیت سے دور دور تک تعلق نہ ہونے کی وجہ سے یہ کوشش بےکار گئی۔۔
“بچپن سے ایسا ہوں!!!”
کوٹ اٹھا کر پہنتے وہ بےنیازی سے بولا۔ یہ جنگلی بلی کچھ زیادہ فری نہیں ہورہی تھی؟ وہ شرارت سے مسکرائی اسکی نیلی آنکھوں کے کانچ چمک اٹھے تھے۔۔
“پھر تو تمہیں اپنے پیدا ہونے پر بھی غصہ آیا ہوگا جب پہلی بار آنکھ کھلی ہوگی نواب کی۔۔ دنیا میں!!!”
وہ گردن پیچھے پهینکتی ہنس پڑی اس نے جیسے اپنی بات کو انجوائے کیا تھا اب جو کچھ اس کے ذہن میں آ رہا تھا وہ کہہ نہیں سکتی تھی لیکن اسے ہنسی شدید والی آ رہی تھی۔
اسے یوں پاگلوں کی طرح ہنستے دیکھ کر بھی وہ سڑے تاثرات سجائے کھڑا رہا سرمئی آنکھیں البتہ اس کے ہنسی سے سرخ ہوتے چہرے پر گڑھی تھیں۔۔
انہیں دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ وہ اس سے ایک سال دو ماہ بڑی تھی۔ اس کے کسرتی جسم اور چھ فٹ سے نکلتی ہائیٹ کی وجہ سے وہ اس کے سامنے بچی لگتی تھی۔
“اچھا ایک آخری بات! اوکے؟ تمہیں سب سے زیادہ غصہ کس پر آتا ہے مطلب سب سے زیادہ!!!” ۔۔
بال کھول کر پھر سے جوڑے میں باندھتے ہوئے وہ سیدھی ہو کر بیٹھی اس کے پیر ہیلز سے کچھ دور ہی تھے۔۔
“تم پر ۔۔۔ اس کے بعد تمہاری ہیلز پر!!”
وہ کٹیلی نظر اس پر پھر زمین پر پڑی ہیلز پر ڈالتا دانت پیس کر بولا۔ اس کا بس چلتا دنیا کی ساری ہیلز کو آگ لگا دیتا سب سے پہلے اس جنگلی گھنگھریالے بالوں والی چڑیل کی جس نے اپنی ہیلز سے گلاس ڈور پر کئی بار ڈیزائن چھاپے تھے۔۔!