Novelettes

Koi Hai Jo Hamen Bachaye by Areeba Nisar

یہ کہانی ہے سکون سے ظلم تک کے سفر کی….کہی لوگوں کی آہ کی، جس میں کہی آہیں، کہی چیخیں دب گئیں….اس کہانی میں کئی معصوم بچے، مرد اور عورتیں اسی آس میں مار گئے کہ کوئی ہے جو انہیں بچائے….یہ کہانی ہے ان لوگوں کی جنہوں نے صبر سے کام لیا، اس امید میں جئے کہ کوئی تو ہو گا جو انہیں ظالموں کے ظلم سے بچائے گا… یہ کہانی صرف ایک لڑکی کی نہیں، ان تمام لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے مسلم بھائی بہنوں کا انتظار کیا، اس یقین سے کہ وہ ان کے لیے کچھ کریں گے…

Death Certificate by Eraj Swalaheen

یہ کہانی ہے ایک ایسی موٹیویشنل اسپیکر کی جو کینسر کے مرض میں مبتلا ہے۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے ڈاکٹر کی جو اپنی لیب میں کائنات کے قانون میں دخل اندازی کر رہا ہے مگر کوئی ہے جسے یہ سب پسند نہیں آیا اور اس نے کیا پھر کچھ ایسا جو آپ کو چونکا دے گا۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ ایک سائنس فکشن اور موٹویشنل ناول ہے۔

Sirat e Mustaqeem by Taisha Shabbir

“یہ کہانی ایک ایسے لڑکے کی جو اپنے مذہب سے دور تھا۔ وہ شاید اس خوبصورت مزہب کی خوبصورتی کو جاننا نہیں چاہتا تھا۔
کہانی ہے ارزم درانی کی جس نے ایک لڑکی سے بے پناہ محبت کی۔
کہانی ہے حیا فاطمہ کی جو ایک لڑکے کی بے پناہ محبت بن گئی۔

Bakht e Muflis by Kainat Jameel Abbasi

کوئی زخموں پر مرہم رکھتا تھا…
کوئی تحریروں سے امیدیں جگاتا تھا…
کوئی سچ کی آنکھ بنا ہوا تھا…
وہ ایک امید تھے، ایک آواز تھے…
ایک روشنی، ایک انقلاب تھے وہ…
مگر امیدیں ٹوٹ گئیں، آوازیں دفن ہو گئیں…
روشنی پر اندھیرے نے راج کر لیا…
اور انقلاب… کبھی آ نہ سکا…
وجہ؟
وہ لوگ… جن کے دلوں میں دل نہیں، پتھر تھے…
جن کے ضمیر مر چکے تھے…
جو لاپرواہ، بےحس، اور خاموش تماشائی بنے رہے…
سب مٹی ہو گئے…
اور جو باقی رہ گئے۔۔
ان کو بچانے بھی کوئی آگے نہیں بڑھا۔
وہ… تنہا رہ گئی…
نم آنکھیں، لرزتے لب،
بہتے آنسو، اور کچھ دعائیں۔۔
چاروں طرف آگ کا طواف…
جس کی تپش اس تک پہنچ رہی تھی۔
اور اس کی آہیں، اس کی پکار…
بس ایک رب سن رہا تھا…
کیا اس کا سننا کافی نہیں؟
کہیں میں اور آپ بھی تکلیف کی شدت میں زبان سے ادا ہونے والی ان بددعائوں میں شامل تو نہیں؟
کیا ہم خاموش تماشائیوں پر عذاب نہیں آئے گا؟

Muhabbat Border Paar by Abeera Babar

یہ افسانہ 1947 کی تقسیم کے بعد بچھڑنے والے رشتوں، یادوں اور خوابوں کا نوحہ ہے۔ یہ اُن چھوٹی ریاستوں اور بستیوں کو خراج ہے جنہوں نے ہجرت کا دکھ دل میں بسائے رکھا۔ لکیر نے صرف زمین نہیں، دلوں، رشتوں اور بچپن کی یادوں کو بھی جدا کیا۔ کہانی اُن بچھڑے چہروں اور کھوئے خوابوں کی ہے جو وقت کی گرد میں دب گئے، مگر امید اب بھی زندہ ہے کہ شاید ایک دن سب کچھ پھر سے جُڑ جائے، اور ہم کہہ سکیں: “ہم صرف بچھڑے تھے، بھولے نہیں”۔
1 2 25
Open chat
Hello 👋
How can we help you?