کوئی زخموں پر مرہم رکھتا تھا…
کوئی تحریروں سے امیدیں جگاتا تھا…
کوئی سچ کی آنکھ بنا ہوا تھا…
وہ ایک امید تھے، ایک آواز تھے…
ایک روشنی، ایک انقلاب تھے وہ…
مگر امیدیں ٹوٹ گئیں، آوازیں دفن ہو گئیں…
روشنی پر اندھیرے نے راج کر لیا…
اور انقلاب… کبھی آ نہ سکا…
وجہ؟
وہ لوگ… جن کے دلوں میں دل نہیں، پتھر تھے…
جن کے ضمیر مر چکے تھے…
جو لاپرواہ، بےحس، اور خاموش تماشائی بنے رہے…
سب مٹی ہو گئے…
اور جو باقی رہ گئے۔۔
ان کو بچانے بھی کوئی آگے نہیں بڑھا۔
وہ… تنہا رہ گئی…
نم آنکھیں، لرزتے لب،
بہتے آنسو، اور کچھ دعائیں۔۔
چاروں طرف آگ کا طواف…
جس کی تپش اس تک پہنچ رہی تھی۔
اور اس کی آہیں، اس کی پکار…
بس ایک رب سن رہا تھا…
کیا اس کا سننا کافی نہیں؟
کہیں میں اور آپ بھی تکلیف کی شدت میں زبان سے ادا ہونے والی ان بددعائوں میں شامل تو نہیں؟
کیا ہم خاموش تماشائیوں پر عذاب نہیں آئے گا؟
یہ افسانہ 1947 کی تقسیم کے بعد بچھڑنے والے رشتوں، یادوں اور خوابوں کا نوحہ ہے۔ یہ اُن چھوٹی ریاستوں اور بستیوں کو خراج ہے جنہوں نے ہجرت کا دکھ دل میں بسائے رکھا۔ لکیر نے صرف زمین نہیں، دلوں، رشتوں اور بچپن کی یادوں کو بھی جدا کیا۔ کہانی اُن بچھڑے چہروں اور کھوئے خوابوں کی ہے جو وقت کی گرد میں دب گئے، مگر امید اب بھی زندہ ہے کہ شاید ایک دن سب کچھ پھر سے جُڑ جائے، اور ہم کہہ سکیں: “ہم صرف بچھڑے تھے، بھولے نہیں”۔
لوگ کہتے ہیں مرد مجبور نہیں ہوتا لیکن میں کہتی ہوں مرد مجبور ہوتا ہے کبھی گھریلو حالات کے آگے تو کبھی اپنے والدین کے آگے اور ایسی ہی کچھ کہانی احسن اور عائشہ کی ادھوری داستان کی تھی۔۔۔
کہانی ایسے شادی شدہ جوڑے کی ہے جن کی شادی بہت ہی ناسازگار حالت میں ہوتی ہے جس میں دونوں کو بھی سماجی طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر بھی یہ دونوں اپنی خوشی سے زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں
کہانی ایک ایسی لڑکی کی جس نے اپنے پردہ کے لیے اپنوں کی ناراضگی مول لی،اس کا رشتہ ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا تھا،جس کے اپنوں نے ہی اس کا دل دکھایا،کہانی حکم خدا ماننے والی لڑکی کی وہ کہتی تھی اس کے لیے شہزادہ آئے گا اور اللہ نے مرحا حسن کے لیے حماد وسیم کو شہزادہ بنا کر بھیجا جس نے مرحا کے پردے کی عزت کی اور اس سے محبت کی،مرحا حسن کو اپنے دل کی روشنی کہنے والا