ہمارا ماضی ایک ایسی چٹان ہوتا ہے کہ جس کو بدلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے مگر ہم اپنے حال میں رہتے ہوئے اس چٹان کو مسلسل تراش رہے ہوتے ہیں زرا سی غلطی ہمارے مستقبل کو جھلسا دیتی ہے مگر حال میں ہمیں آنے والے مستقبل کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور جہاں ہم سے غلطی سر انجام ہوتی ہے وہاں ہم سے گہرا اور چھوٹا سا سراخ بن جاتا ہے جو وقت کی ساتھ ساتھ ہمارے اپنوں کو ہم سے کہی دور جا کھڑا کرتا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ اپنے ماضی کو بھول جانا چاہیئے مگر میں پوچھنا چاہوں گی کہ اگر کسی کتاب کو دیمک لگ جائے تو کیا اس کتاب کے لفظ بدل جاتے ہیں یا پھر ہم کسی کتاب کو ایک جگہ رکھ کر سو سال بعد اُٹھائے تو کیا اس کتاب میں فرق پڑتا ہے
!!نہیں
دیمک زدہ کتاب بھی کہیں نہ کہیں اپنی مکمل کہانی کو ادھورا چھوڑ دیتی ہے
اشفاق احمد اپنی ایک کتاب “حاکم بدہن” میں اپنے ایک دوست کا قول لکھتے ہیں کہ
“فحش کتاب میں دیمک نہیں لگ سکتی کیونکہ دیمک ایسا کاغذ کھا کر افزائش نسل کے قابل نہیں رہتی”
تو مجھے آپ بتائے کہ کیا آپ کسی ایسے بندہ کو چنو گے کہ جس کا ماضی دیمک زدہ ہوں؟
نہیں! بلکل نہیں
جی بلکل ایسے ہی کوئی آپ کو نہیں چنے گا اگر آپ کا ماضی دیمک زدہ ہوا تو
آپ اپنا ماضی خوبصورت بنا سکتے ہیں اپنے حال کو خوبصورت بنا کر
میں بلکل نہیں کہوں گی کہ آپ اپنا ماضی بھلا دیں کیونکہ اگر آپ اپنا ماضی بھلا دیں گے تو آپ ایک نامکمل کتاب بن جائے گے اور نا مکمل جینے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے مگر مرنے سے پہلے وہ یہ کوشش نہیں کرتا کہ کسی طرح وہ اپنی ذات کی محرومیوں کو دور نہ کرے چاہئے اس ساری کوشش میں وہ ناکام ہی کیوں نہ ہو اور اس سارے کام کے دوران وہ الله پر کامل یقین رکھے اور پہلی نا کامی کے بعد اگر وہ دوسری راہ نہیں دیکھتا کہ اپنی محرومیوں کو ختم کرنے کے لیئے تو اُس شرم آنی چاہئے کہ وہ “اشرف لمخلوقات” کا لقب پانے والوں میں سے ہیں۔۔
انسان نے فرشتوں پر برتری حاصل کہ ہےعقل کی وجہ سے نہ کہ عبادت کی وجہ سے۔۔
افسانہ جھانجھر اور جنجیر معاشرے میں پھیلے ان شوگر کوٹڈ ناسوروں سے متعلق ہے کہ جب انکی کوٹنگ اترتی ہے تو کڑواہٹ ساری زندگی پہ محیط ہوجاتی ہے۔ ان کریہہ گدھوں کے بارے میں ہے کہ جن کی سرابی محبت کے دھوکے میں بھولی بھالی لڑکیاں خالص رشتوں کو کھو دیتی ہیں۔
Reviews
There are no reviews yet.