Waqt

Ask for More Information

Meet The Author

Waqt

“نہیں جارہا میں اب کسی بھی انٹرویو کیلئے بھاڑ میں جائے سب۔۔۔ اس ملک میں تو قدر ہی نہیں کسی بھی قابلیت کی، بیکار جاتا ہے سارا ٹیلنٹ۔۔۔ ہونہہ جاب تو خوب پیسے والوں اور تگڑی رشوت دینے والوں کو ملے گی۔۔۔ بس یہی اوقات ہے ان ڈگریوں کی ردی، کاٹھ کباڑ”  فہد نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے فائل میز پہ پٹختے سرخ چہرہ لیا دانت پیسے۔۔۔۔ نمیرہ، رملہ اور عاشر نے فرمانبرداری کے سبھی ریکارڈ توڑتے بیٹھے اسے سن رہے تھے۔۔۔۔
“بولنا مت اچھا ہے بھڑاس نکل جائے” نمیرہ نے عاشر کو کچھ بولنے کے کیے منہ کھولتے دیکھا تو اسکی بکھی میں کہنی دے ماری۔۔۔۔ عاشر نے تیکھے چتونوں سے بڑی بہن کو گھورتے ناک پھلایا۔۔۔۔
“بھائی ابھی اپکی ڈگری بھی مکمل نہیں ہوئی شاید یہی وجہ ہے ریجیکشن کی” رملہ کی زبان پہ کھجلی ہوئی جبھی اس نے فہد عالم کے سامنے منہ کھول ہی لیا جبھی فہد کے فہمائش بھری نظروں کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔
” ہاں میری بہن کیوں نہیں بجا فرمایا۔۔۔ یہاں ڈگری ہاتھ میں آئی نہیں وہاں نوکری فرشی سلام جھاڑتی میرے قدموں میں ہوگی ہونہہ” عاشر نے ابرو اٹھائے(ہاں بھئی پڑ گئی ٹھنڈ)۔۔۔
“ہوبھی سکتا” نمیرہ نے دانت نکوسے(وہ کیوں پیچھے رہتی)۔۔۔ فہد نے اسے فائل دے ماری جسے وہ اچکتی ہوئی بخوبی کیچ کرچکی تھی۔۔۔
“پہلے سے ہی بندہ منتخب کرکے بیٹھے تھے محترمہ یہ انٹرویو تو جسٹ فارمیلیٹی ہے۔۔۔ دو جگہ بسیں بدل بدل کر گیا تھا ہاتھ کیا آیا خاک سالے” پانی کی بوتل منہ سے ہٹاتے اسے نے تمتماتے چہرے کے ساتھ اپنی بڑی بہن معلومات میں اضافہ کرتے سر جھٹک دیا۔۔۔ ناامیدی مایوسی الفاظ کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔۔۔۔ عاشر نے نمیرہ کے آگے پڑی فائل اٹھی اور پچکارتے ہوئے بولا۔۔۔۔
” بھئی اپکو نہیں چاہیے تو میں رکھ لو سکین کروا کر اپنا نام لکھوا لونگا پلیجججج” کہتے ہی چٹاچٹ کاغذوں کو چوم ڈالا جیسے بچھڑی محبوبہ ہو۔۔۔۔
“لو کر لو بات، یہ قصر رہ گئی تھی۔۔۔ رکھ لو بلکہ یہ بھی رکھو” پیروں کو موزو سے آزاد کرتے اسکی طرف اچھالا تھا۔۔۔ عاشر یوں اچھلا جیسے کوئی بچھو اسکی طرف پھینکا ہو۔۔۔ رملہ نے پیٹ پہ ہاتھ رکھتے سر پیچھے گرائے ٹھٹھہ لگایا۔۔۔۔ ساشر نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا ( دیکھ لونگا تمھیں چپکلی)۔۔۔
نمیرہ نے فہد کے چہرے پہ پھیلتے تشویش کے جالے دیکھئے تو تو فورا بیچ میں کودی۔۔۔۔ “چلو اٹھو کھی کھی کرنے علاوہ پڑھ بھی لیا کرو چلو” فورا سے بیشتر سے عاشر کو ٹرکایا جبھی رملہ نے سنجیدگی طاری کی کہ کہیں توپوں کا رخ اسکی جانب نہ ہوجائے۔۔۔۔
“تم بھی اٹھو میسنی” اس نے بازو سے رملہ کو کھینچ کے کھڑا کیا جبھی وہ آنکھیں سکوڑے ناک پھلاتی چیخی۔۔۔
“آپی” ہمیشہ میسنی کہے جانے پہ اسکا ردعمل۔کچھ یوں ہی ہوتا تھا جبکہ عاشر نے ایک اچھا منظر گنوا دیا۔۔۔ پیر پٹختی وہ لاونج سے ملحقہ کمرے کی جانب چل دی۔۔۔ فہد عالم ہنوز ڈائینگ ٹیبل پہ بیٹھے خالہ گلاس کو یک ٹک دیکھ رہا تھا۔۔۔
“تمھارے بھائی کسی کمپنی کا بتا دے رہے تھے تم کہو تو کرو بات” نمیرہ نے اسکے بال بکھرتے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔
“کرو بات کس چیز کا انتظار کررہی ہو بی بی” تپتا ہوا وہ  بھنویں کھینچتے پاؤں پسار کر بیٹھ گیا۔۔۔
ویسے کام کیا ہوگا کچھ پتا ہے؟” جوش تو اسے بڑا چڑھا تھا مگر تحمل کا مظاہرہ کرتے پوچھا۔۔ ویسے بھی اسکی بہن اسے سنجیدہ لیتی ہی کب  تھی۔۔۔
“کوئی اکاؤنٹیس؟ اندازہ لگایا۔۔۔۔
“اہ ہمم وہ بس آسان کام ہے۔۔۔ یہی بس باس کا ٹیبل چمکانا، چائے شائے پیش کرنا اور بس واشروم کی صف ہاہاہاہاہا” ابھی بات منہ میں ہی تھی کہ انہماک سے سنتے فہد کے گلاس اٹھا لیا جبکہ نمیرہ کیلئے قہقہہ دبانا مشکل ہوگیا۔۔۔۔
___________________________________
وہ اتنا دل برداشتہ تھا کہ انٹرویو کے لیے نمیرہ کو باقاعدہ اسے ترلے کرنے پڑے۔۔۔ رملہ نے حجابی سٹائل میں دوپٹہ اوڑھتے تسبیح مٹھی میں قید کی اور اوپر سے لے کر نیچے تک پھونک ماری۔۔۔ فہد نے منہ بنایا(ہفتے کے چھ دن چھنو کی آنکھ میں ایک نشہ ہے اور باقی کا دن الله ہو اللہ ہو)۔۔۔  عاشر اسکے ساتھ ہی بس پوائنٹ تک آیا تھا۔۔۔
“اب ٹل بھی جاؤ” سینے سے فائل لگاتے فہد نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا جبکہ عاشر سوچ کر رہ گیا۔۔۔
“بھائی اتنے کھڑوس کیوں ہیں”
موبائیل پہ موصول ہوتا کمپنی کا ایڈریس زیرلب دہرایا پھر موبائل بےدلی کےساتھ جیب میں ڈال دیا۔۔۔۔ بس آنے میں کوئی دو منٹ تھے۔۔۔ آس پاس اسے نظر دہرائی تو قریب ہی چھابڑی پہ پھل بیچنے والا کھڑا پھل پہ بیٹھتی مکھیاں کپڑا مارتے اڑا رہا تھا۔۔۔ تیس سیکنڈ رہ گئے بس آنے میں جبھی وہ وقت گزاری کے لیے  اسکے پاس کھڑے ہوتے پھلوں کے ریٹ پوچھنے لگا۔۔۔ بات ریٹس سے شروع ہوتی مہنگائی سے ہوتی حکمرانوں کی نااہلی پہ ختم ہوئک تب تک بس جاچکی تھی۔۔۔۔
پھر وہ شیڈ کے نیچے پڑی کرسی پہ ڈھیلے انداز میں بیٹھتا آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔۔۔ دو لڑکیاں فیشن پہ بحث کرتی پاس سے گزری جبکہ ایک لڑکا اپنی محبوبہ سے منتیں کرتے وہی آبیٹھا۔۔۔۔
“میری بات تو سنو یار، میری جان ہو یار،ارے نہیں یار، میں بات کرونگا نا یار، ابا مان جائے گے یار، میرا تم سے وعدہ ہے یار،سب ٹھیک ہوجائے گا یار، ہاں ہاں وہی برائیڈل جوڑا دلواؤ گا یار، لو یو یار، چلو بس آنے والی ہے یار،رکھتا ہوں یار” اسی یار یار کی تکرار میں پچاس منٹ گزرے اور ڈھولتی ہوئی  بس انکے سامنے جھٹکے سے آکھڑی ہوئی۔۔۔ اندر بیٹھے لوگوں کا کلیجہ منہ کو آگیا تھا فہد نے تھوک نگلا۔۔۔
اگلا پڑاؤ اسکا کسی چائے کے ڈھابے پہ تھا۔۔۔ گھڑی نکال کر دیکھا ابھی بھی انٹرویو ختم ہونے میں گھنٹہ پڑا تھا اور ان لوگوں نے پہلے ہی اسے رلنے کے لیے گھر سے دھکادے دیا
“ہونہہ کہی لیٹ نہ ہوجانا” منہ بنا کر نمیرہ کی نقل اتاری۔۔۔ جی کڑا کر کے وہ وہی تخت پہ چڑھ کر بیٹھ گیا۔۔۔ چھوٹا چائے کے ساتھ اخبار بھی ہاتھ میں تھاما گیا جبھی اس نےسکون سے چائے کی چسکی لیتے اخبار کی شہہ سرخیوں سے لے کر فیشن پھر ادبی تحریروں سے لے کر ضرورت رشتہ تک کے کالم کنگال ڈالے۔۔۔ کچھ وقت ادھر ادھر کے لوگوں سے ہانکتے گزار دیا تبھی ایک اور بس چھک چھک کرتی دھچکے سے روکی اور پہلے کی طرح ہی فہد نے تھوک نگلی اور زیرلب کلمہ دہراتے سٹینڈ پکڑ کر چڑھ گیا۔۔۔۔ وقت بھرپور ضائع ہوچکا تھا جبھی وہ مطمئن سا دکھتا۔۔۔ یہاں تک کہ آج اسے کنڈیکڑ کے پسینے سے ابتر حالت پہ ابکائی بھی نہیں آئی نا ہی اتنا چھکاچھک بھری بس کے اندرونی حصے کو دیکھتے اسے کوفت ہوئی۔۔۔ جس سمے بس روکی کنڈیکڑ نے اس سے پیسے لیے اور اس نے بازو پہ بندھی گھڑی پہ وقت دیکھنا چاہا۔۔۔
“افففففف کیا مصیبت ہے ابھی بھی بیس منٹ پڑے ہیں” زمین پہ پڑے پتھر کو لات مارتے ہوا میں اچھالا اور ہاتھ کا سایہ بناتے بلال ڈویلپرز  کی اونچی عمارت دیکھی۔۔۔۔
ویٹنگ لاونج میں بیٹھے اس نے خود کے جلدی پہنچنے پہ جی بھر کے کوسنے دیئے خود کو پھر ان کوسنوں کے دائرہ میں چائے والا بس والا اور پھل والا بھی آگیا۔۔۔۔ آخر میں خود کے سر پہ چپت لگائی گویا عقل پہ ماتم
“کیا ہوتا پیدل چل پڑتا گھر سے”
مگر اب کیا ہوسکتا تھا انٹرویو دینا ہی پڑے گا بچو۔۔۔
“ہونہہ  ایسے ایسے جواب دونگا کہ خود باہر پھینکے گے مجھے پھر خس کم جہاں پاک” دل میں عزم کیا۔۔۔۔۔
_______________________________________
“فہد عالم” ریسپشینٹ نے کوئی تیسری بار اسکا نام پکارا مگر وہ گونگو کا گڑ کھائے ٹانگ پہ ٹانگ ٹکاتے جھلائے جاتا۔۔۔۔ انداز ایسا کہ گویا کسی تفریحی مقام پہ آیا ہو۔۔۔
” آپ ہیں فہد عالم” اب کے اسکے سر پہ ایک بندہ کھڑا پوچھ رہا تھا۔۔۔ سب جا چکے تھے اسکے سوا۔۔۔ فہد نے یہاں وہاں نظر دوڑائی۔۔۔
“نہیں یہاں بیٹھے ہیں کوئی بیسوں لوگ ان سے پوچھ لو” تنک کو بولا۔۔۔
“کیوں مخول کرتے ہیں سر” لڑکے نے دانت نکالتے کہا۔۔۔ فہد نے اچٹتی نگاہ اس پہ پھر گھڑی پہ ڈالی آخری چار منٹ رہ گئے تھے۔۔۔ایک بار تاؤ چڑھا۔۔۔
“شروع کس نے کیا تھا بے” گھورتے دانت پیسے۔۔۔
“جائے سر بلا رہے ہیں آپ آخری رہ گئے ہیں” سر کھجاتے وہ اسے رستہ دیتے حجل سا بولا۔۔۔
____________________________________
فہد نے شاہانہ چال شاہانہ کمرے میں نظریں گھمائی۔۔۔ انٹیریر قابل تحسین تھا۔۔ اسکی آنکھوں میں نا چاہتے ہوئے بھی ستائش کا واضح تاثر ابھرا جبکہ آرام دہ کرسی پہ بیٹھے ادھیڑ عمر مگر فٹ فاٹ سے باس نے سر تا پیر اسکا جائزہ لیا پھر کنکھارے۔۔۔۔
“بیٹھیئے فہد عالم” گھمبیر آواز پہ وہ اپنی گھبراہٹ پہ قابو پاتے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔۔۔ انکے سامنے بولے جانے والے ساری یاد کیے اقتاسبات انکی چھاتی ہوئی رعب دار شخصیت دیکھ کر ہی اڑن چھو ہوگئے۔۔۔۔ پھر اپنے یاد کیے ایک سبق پہ عمل کرتے اس نے بآوازِ بلند انھیں سلام کیا۔۔۔ انھوں نے چونک کر اسکی جانب دیکھا پھر سر کو جنبش دیتے سلامتی قبول کی۔۔۔۔۔ انداز ایسا تھا گویا باور کروانا چاہا “میں نے آنے کو کسی بھی رعب میں”
اردگرد کا جائزہ لیتے اسکی نظریں انکی نظروں سے ٹکرائی تو وہ اسکی جانب متوجہ تھے۔۔۔ فہد نے حجل سا ہوکر ٹائی کی ناٹ کسی۔۔۔
“کام کی بات کرے اگر اپکا معانئہ مکمل ہوگیا ہوں” لہجہ چھبتا تھا نہ مگر پھر بھی فہد کو چبھا۔۔۔۔
“جی بالکل” اس نے تھوک نگلا۔۔۔
“ہمم تعلیمی ریکارڈ اپکا بہت اچھا مسٹر فہد ایسا آپکی سی وی  کہتی ہے۔۔۔۔ اوریجینل ڈاکومنٹس لائے ہیں؟” انہوں نے اسکی طرف دیکھتے بات جاری رکھی۔۔۔۔
” سی وی نہیں بول سکتی سوہنیو۔۔۔ یہ اپکا خیال ہے” دل میں ہی جواب دینے پہ گزارا کیا۔۔۔
پھر فائل کے اندر دیگر ڈاکومنٹس کی الٹ پلٹ میں سرگراداں ہوگئے۔۔۔ فہد عالم کو بے چینی نے آن گھیرا جبھی وہ ٹانگ جھلانے لگا۔۔۔۔
“بابا جی کیرا قارون دا خزانہ مل گیا اے” وہ سوچ کر رہ گیا۔۔۔
“میٹرک میں کتنے مارکس آئے تھے” انہوں نے اسکی طرف دیکھا۔۔۔۔
“جی” حیرت کے مارے فہد کا منہ کھول گیا مگر جلد ہی اسے اپنے آپے میں آنا پڑا۔۔۔۔ ( نہیں تو اتنی دیر سے آپ واقعی کوئی قارون کا خزانہ ڈھونڈ رہے تھے حد ہے) اس نے منہ بنایا۔۔۔۔
“نوے فیصد سر”
“گریڈ کونسا تھا؟”
“میرا خیال ہے بابا جی پہلے بار اس پینل میں شامل ہورہے ہیں” (سوچ)
“اے ون” سکون سے جواب دیا۔۔۔
” سرکار یہ کاغذات جو آپ اوپر نیچے رول رہے ہیں ان پہ سب لکھا ہے” (سوچ)
“والد صاحب کا نام؟” ایک اور سوال اور اسکی حیرت دیدنی۔۔۔
” نوکری کے لیے بلایا ہے یا بیٹی کا رشتہ دینا ہے سوہنیو” (سوچ)
“فرہاد عالم” انہوں نے مطمئن انداز میں سرہلاہا۔۔۔ اب فائل ٹیبل پہ دھر کر کرسی سے ٹیک لگائی۔۔۔ فہد قدرے لاپرواہ بیٹھا تھا(میں نے کونسا یہاں نوکری کرنی ہے)۔۔۔ عینک اتار اور نگاہیں اسکے چہرے پہ گھاڑ دیں۔۔۔۔
“فہد عالم” پکارا گیا جیسے کسی قید کی سزا سنانی ہو۔۔۔۔
“جی” وہ متجسس ہوا۔۔۔۔
“فہد یہ انٹرویو جاب کے لیے نہیں تھا” فہد نے اچھنبے سے انھیں دیکھا۔۔۔۔
“مطلب واقعی بیٹی کا رشتہ دینا ہے”نخوت سے سوچا۔۔۔۔
“یہ انٹرویو محض یہ چیک کرنے کے لیے تھا کہ آیا یہ اسناد اپکی ہیں یا نہیں۔۔۔ سی وی پہ لکھی معلومات درست ہے کہ نہیں۔۔۔ ان ڈگریوں کے ساتھ کویی جعلی ڈگری تو نہیں ساتھ” وہ انکی بات حیرانی سے سن رہا تھا۔۔۔
“میں سمجھا نہیں سر” وہ سمجھ نہیں پایا جبھی اظہار کیا۔۔۔۔
” ہمارت ہاں بے ایمانی اور دونمبری اتنی عام ہوچکی فہد عالم کہ ہم نے شرمندہ ہونا بھی چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔ لوگ دوسروں کی ڈگری لے کر اسے سکین کرواتے ہیں اور اپنا نام لکھ لیتے ہیں۔۔۔۔ ایسے کہ اصل نقل میں فرق نہ رہے جعلی ڈگری کا۔۔۔ جب انٹرویو کے دوران پوچھا جائے تو آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔۔۔۔ لوگوں سے کسی ڈگری سرٹیفیکیٹ کا نمبر پوچھ لو وہ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔۔۔ بتا نہیں پاتے۔۔۔۔ تاریخ پیدائش میں غلطی کربیٹھتے ہیں اور مضامین بحی صحیح سے بتا نہیں پاتے۔۔۔۔۔ جھوٹ تو جھوٹ ہوتا ہے بچے کہی نہ کہی پکڑا ہی جاتا ہے۔۔۔ صبح سے میں ایسے جھوٹ پکڑ رہا ہوں یہاں بیٹھ کر۔۔۔۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ کامیاب ہوپائے اور یہ سب ڈاکومنٹس آپکے اصلی اور اپنے ہیں” وہ مسکرائے۔۔۔۔
” گو کہ آپ کے پاس ابھی تجربہ نہیں ہے مگر ہم قابل نئے لوگوں کو موقع فراہم کرنے پہ یقین رکھتے ہیں سو اگلے ہفتے اپکا انٹرویو ہوگا جسکی اپکو بھرپور تیاری کرنی ہے۔۔۔ ریسیپشن سے ضروری معلومات مل جائے گی۔۔۔۔ مجھے امید ہے آپ ہماری توقعات پہ پورا اترے گے جزاک الله۔۔۔۔۔ نائس ٹو میٹ یو” فائل اسکی جانب بڑھاتے اسکے ہاتھ پہ دباؤں ڈالا۔۔۔۔ فہد جو یقین اور بے یقینی کے درمیان ڈول رہا تھا مبہم سا مسکراتا سر کو جنبش دیتے کرسی سے اٹھا۔۔۔۔۔۔
“اتنی بڑی کمپنی میں جاب واہ بے تیرے تو وارے نیارے ہوگئے” اسکے پاؤں زمین پہ نہیں ٹک رہے تھے۔۔۔۔۔۔
بس چلتا وہی کھڑے کھڑے بھنگرے ڈالنے لگتا مگر آس پاس گزرتے ہجوم کو دیکھتے اس نے مٹھی ہونٹوں پہ جما کر امڈ امڈ کر آنے والی ہنسی کو بمشکل روکا تھا۔۔۔ مٹھائی کا ڈبہ گھر لے کر جانے کا مبہم ارادہ کیے وہ بس سٹینڈ کی جانب چل دیا۔۔۔۔‎

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Waqt”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?