Kaali

Ask for More Information

,

Meet The Author

Kaali

اری کمو او۔۔ اری کمو کدھر مرگئی ہے ۔۔گھر کا سارا کام ابھی پڑا ہے اور یہ منحوس  مرگئی ہے ” جمیلہ بیگم نے غصے سے کمو کوآوازیں دیتے  ہوئے کہا۔۔
جمیلہ بیگم ادھیڑ عمر کی خاتون ہے اور ریاض صاحب کی دوسری بیگم۔۔
کمو ریاض صاحب کی پہلی بیوی رخشندہ بیگم کی اولاد تھی جو کمو کی پیدائش پہ اللہ کوپیاری ہوگئی۔۔
چونکہ کمو کا رنگ سانولا  تھا اس لیے رخشندہ بیگم کی موت کا قصور سارا اس بچی پہ ڈالا گیا۔۔
روزمنحوس،کالی جیسی باتیں سن کر سارا بچپن گزارا۔۔ریاض صاحب جیسے بھی تھے آخر تھے تو والد ہی اور کمو انکی ہی اولاد تھی۔۔اس کی بھلائی کی خاطر انہوں نے دوسری شادی کر لی۔۔
جمیلہ بیگم کا برتاؤ شروع شروع میں تو کمو کے ساتھ بہتر تھا لیکن جب ان کی اپنی اولاد ہوئی تو ان کا رویہ کمو کے ساتھ بدل گیا۔۔
کمو کا رنگ سانولا ضرور تھا لیکن اس کی شخصیت کے ساتھ برا نہیں لگتا تھا۔۔بھوری اور گہری آنکھیں  جو اس کے چہرے کو دلکش بناتی تھی لیکن لوگوں کو ہمیشہ خوبصورت چیز یا انسان ہی پسند آتا ہے۔۔۔کمو کو کالی کالی کہہ کر اس کے دل میں ایک بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ کالی ہے منحوس ہے اور اپنی ماں کی قاتل بھی۔۔
بچوں کا ذہن صاف کاعذ کی طرح ہوتا ہے۔۔اس پہ جیسی تصویر بنادی جائے اس کے دماغ میں بھی ویسی ہی تشکیل ہوتی ہے۔۔
ِ”میں پیاری تو ہوں ناں” کمو نے شیشے کے سامنے کھڑے خود کو دیکھ کر سوال کیا۔۔
سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہنے کی وجہ سے اس کی رنگت مزید میلی ہوگئی تھی۔۔
ابھی وہ خود سے کوئی اور سوال کرتی جمیلہ بیگم غصے سے اندر داخل ہوئی۔۔۔
“مرجانی!کب سے آوازیں دے رہی ہو ں۔۔۔سنتی نہیں ہے تو ” جمیلہ بیگم نے کمو کو بالوں سے پکڑتے ہوئے کہا۔۔
“ہائے امی!درد ہورہا ہے۔۔مجھے آواز نہیں سنائی دی امی “کمو نے کراہتے ہوئے کہا۔۔
“اس خیالی دنیا سے تو باہر آئے تو تجھے کوئی آواز سنائی دےکلموئی۔۔تو کالی ہی رہے گی ہمیشہ خود کوتسلیاں دینا چھوڑ دے” جمیلہ بیگم نے اس کے بالوں پہ گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا۔۔
“امی۔۔۔۔چھوڑدیں بہت درد ہورہا ہے۔۔۔”کمو نے روتے ہوئے کہا۔۔کالی ہونے کا  طنعہ شاید زیادہ تکلیف دہ  تھا ۔۔ایسی تکلیف جو شاید وہ بچپن سے سہتی آرہی تھی لیکن پھر بھی خود کو اس سے نکال نہیں پارہی تھی۔۔
“گھر کے سو کام پڑے ہے اور تجھے یہاں شیشہ دیکھنے سے فرصت نہیں ملتی”  جمیلہ بیگم ایک بار پھر غصے سے پھنکاری تھی۔۔
“امی قسم سے اگلی بار نہیں ہوگا ایسا  ” کمو نے التجایہ انداز میں کہا۔۔
“اچھا چل یہ ٹسوے بہانا   بند کر اور جلدی سے باہر آ۔۔ماریہ (جمیلہ بیگم کی بیٹی) کو دیکھنے والےآرہے ہیں  تو بہت کام پڑے ہیں  ابھی ” جمیلہ بیگم نے باہر جاتے ہوئے کہا۔۔
“جی امی۔۔”آنسو صاف کرتے ہوئے کمو جلدی سے باہر نکلی اور  کیچن میں گھس گئی۔۔
روز روز کی باتوں سے اب اسے عادت ہوچکی تھی ان سب کی۔۔دن بھر کے کام کرنے کے باوجود بھی اس  کوکسی نے آج تک کبھی پیار کے دولفظ نہیں بولے تھے۔
ریاض صاحب کی نوکری دوسرے شہر میں تھی اس لیے عموماَوہ گھر کم ہی آتے تھے۔۔ریاض صاحب کے سامنے جمیلہ بیگم اتنی میٹھی تھی کہ ان سے میٹھا اور نیک تو اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہے۔۔
“امی!یار میرا کوئی سوٹ ہی نہیں ہے ۔۔مہمانوں کے سامنے ایسے کپڑوں میں جاؤں گی ” ماریہ نے منہ بنا کر کہا۔۔
کمرے کا سارا سامان پھیلایا ہوا تھا اور ایک طرف منہ کر ماریہ بیٹھی تھی۔۔
گھر اتنا بڑا نہیں تھا۔ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں باآسانی آواز جاسکتی تھی۔۔کیچن میں کمو کھڑی کام کرتی ساری گفتگو سن رہی تھی۔۔
“اتنے تو سوٹ ہیں کوئی بھی پہن لے اب۔۔اگلی دفعہ لے دونگی جب تیرا باپ آئے گا تب پیسے لونگی اس سے ” جمیلہ بیگم نے ماریہ کوسمجھاتے ہوئے کہا۔۔
“مجھے نہیں پتہ کچھ بھی۔۔مجھے ابھی نیا سوٹ چاہیے” ماریہ نے  کہا۔۔
ماریہ کی بات سن کر کمو نے اپنے پرانے اور بوسیدہ سے سوٹ کو دیکھا۔۔
کمو کے پاس  بچے ہوئے تین چار سوٹ ہی تھے وہ بھی ریاض صاحب اس کے لیے لےکرآتے تھے ۔۔اس میں سے بھی کئی سوٹ ماریہ نے لے لیے تھے اور اب بھی اس کے پاس کوئی سوٹ نہیں تھا۔۔
جب انسان کے پاس چیز وافرمقدار میں موجود ہو تو وہ ناشکراہوجاتا ہے۔۔
کمو نے مہمانوں کے لیے کھانا تیار کیا اور خود باہر برآمدہ میں آگئی۔۔
مزید انکی باتیں سننے کی اس میں  سکت نہیں تھی۔۔اس نے اوپر نیلے آسمان کود یکھا جہاں پرندے اڑ رہے تھے۔۔
ہم بھی کیسے انسان ہیں؟ہم اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں ہی نقص نکالنے لگ جاتے ہیں۔۔یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس کائنات کی ہر چیز کا مالک اللہ ہے اور ہم اس کی ہی چیزوں میں نقص نکال کر گناہگار بن جاتے ہیں جب کہ ہمارا یہ کام تو نہیں ہے کمو نے دل میں سوچا۔۔
کاش!میں گوری ہوتی تو شاید لوگ مجھے عز ت کی نگاہ سے دیکھتے اللہ تعالیٰ۔۔تب شاید وہ مجھے انسان سمجھتے کیونکہ اب تو میں انسان نہیں ہو میں تو منحوس ہوں  آنسو ؤں کا گولہ آنکھوں میں ایک بار پھر اکٹھا ہوگیا تھا۔۔
کمو” ماریہ نے کمو کو آواز دی تو اس کا ددھیان ہٹا۔۔
آئی کمو آنسو صاف کرتی اندر کی طرف بھاگی۔۔
جی۔۔کمو نے اندر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔۔
تہمارا وہ سوٹ ہے ناں جو آخری دفعہ ابو تہمیں دے کر گئے تھے۔۔تم وہ مجھے دے دو ماریہ نے روٹھے انداز میں کہا۔۔
لیکن وہ تو۔۔۔۔کمو کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔۔وہ سوٹ اس نے ایک دفعہ بھی نہیں پہنا تھا۔۔
کیا وہ تو؟تم تو ویسے ہی کالی ہو تم سے کس نے شادی کرنی ماریہ نے کہا۔۔
ماریہ کی بات سن کر کمو کا دل کیا کہ وہ یہاں سے ابھی بھاگ جائے  اور پلٹ کر واپس کبھی نہ آئے لیکن جائے گی کہاں وہ؟اس دنیا میں کالے لوگوں کو رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔
تم سن رہی ہو میری بات کمو؟ ماریہ نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔۔
ہاں۔۔کمو ایک دم سے چونکی۔۔
جاؤ سوٹ لے کر آؤ ویسے بھی وہ رنگ تم پراچھا نہیں لگے گا ماریہ کہتے ہوئے شیشے کے سامنے کھڑی ہوکر اپنی صاف رنگت کو کریم سےنکھارنے لگی۔۔
کمو ٹوٹے دل کے ساتھ وہاں سے چلی گئی اور سوٹ لاکر ماریہ کو دے دیا اور واپس سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔
کیونکہ ہر بارایسا ہی ہوتا تھا جب بھی ماریہ کو دیکھنے والے لڑکے والے آتے تو کمو غائب ہوجاتی جیسے اس کا کوئی وجود تھا ہی نہیں۔۔
اور اگر لڑکے والے رشتے کے لیے منع کرجاتے تو بھی قصوروار کمو ہی ہوتی کیونکہ وہ منحو س ہے بقول جمیلہ بیگم کے اس کی وجہ سے ماریہ کا رشتہ نہیں ہوتا۔۔۔
کمو دروازہ بند کر ایک طرف بیٹھ گئی شایدوہ تھک چکی تھی اب  سہتے سہتے۔۔
آنسو بھی نہیں نکل رہے تھے۔۔تکلیف شاید اتنی تھی کہ لفظوں یا آنسوؤں میں بیان نہیں ہوسکتی تھی۔۔
پتہ نہیں کب تک کمو جیسی ہزاروں لڑکیاں یہ سب سہیں گی۔۔یہ ہمارا معاشرہ ہے جہاں کالی صورت والوں کو اس نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ جیسے شاید وہ غلطی سے اس دنیا میں آگئے تھے۔۔جہاں ہم بہت ترقی کررہے ہیں وہی پر کچھ لوگوں کی سوچ ایسی بھی ہے جن کا قصوروار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو یا تو کمزور ہوتے ہیں یا شاید خوش شکل نہیں ہوتے۔۔ہم سے زیادہ لوگوں کو ہماری پروا ہوتی ہے اور معاشرہ بنانے والے بھی ہم ہی ہے۔۔میں یہاں صرف لڑکیوں کی بات نہیں کررہی۔۔بہت سے لڑکے بھی ایسے ہیں جن کو ہمارا معاشرہ نیچا دیکھانے کی کوشش کرتا ہے۔۔کمو جیسی لڑکیوں کے لیے کوئی شہزادہ یا ناول کا ہیرو نہیں آئے گا۔۔معاشرے کی تلخ حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم ترقی ضرور کررہے ہیں لیکن ذہنی بیمار ہم آج بھی ہے۔۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رَاہ راست پہ آنے کی توفیق دے۔۔آمین۔۔
                                                                  ختم شد

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Kaali”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?