Crime / Mystery / Thriller
1
Posts
1
Users
0
Reactions
279
Views
Topic starter
15/05/2024 1:56 pm
اطیب عون اسکی زندگی میں آنے والیں بڑی کامیابیوں میں سے ایک تھا۔
ایس کامیابی جسے وہ سجا کر، چمکا کر اپنی الماری کے سب سے اوپری خانے میں رکھتی تاکہ ہر آتا جاتا اسے دیکھے اور حسد کرے۔ اطیب میں سب تھا خوبصورتی، خوب سیرتی، خاندانی پیسہ، معاشرہ میں مقام۔ وہ بہتر نہیں بہترین تھا اور مہتاب قمر کی دسترس میں ہمیشہ سے اعلی اشیاء ہی رہی ہیں۔
فرق یہ تھا کہ اطیب شے نہیں شخص تھا۔ سانس لیتا……… عقل رکھتا۔
وہ چھ سالہ ڈزنی لینڈ سے لایا مہتاب کا وہ گڈا نہیں تھا جسے وہ اترا کو سب کو دکھاتی یا وہ چودہ سالہ مہتاب کی بائک نہیں تھی جسے وہ گھر کے ملازمین کے سایہ سے بھی دور رکھتی۔ مہتاب قمر اپنے منگیتر کو اپنی خواہش کی پابند نہیں کرسکی تو سوچا کیوں نا خود کو اس کا پابند کردوں ۔ دل میں جگہ بنانے کے لیئے اک یہ راستہ ہی کیوں نہیں۔
مگر کچھ بھی ویسا نہیں ہوا جیسا اس کی چاہ تھی۔ اطیب اس کا نہیں ہو سکتا تھا پھر چاہے وہ اس کے پیچھے بھاگے، خود کو گرائے یا اس کے قریب لوگوں کو دور کرے۔
جو قسمت میں نہیں وہ قوت کا پابند نہیں۔
★…★…★
رات کا وہ پہر جب ہر جانب سناٹا اور سکوت چھایاتھا۔ راہداریوں میں لگی بتیاں جل بجھ رہی تھیں۔ پہاڑوں اور جنگلات میں مقیم جنگلی جانور اپنے شکار کے لیئے آواز لگا رہے تھے۔ وہیں ایک قرین انسان کو برائی پر اکسانے میں کوشاں تھا۔کسی اشرف المخلوق کو اپنے ارادوں کے تابوت میں آخری کھیل ٹھونکنے کا کہہ رہا تھا۔
ارادے وہ نہیں جو خیر لائے، ارادے وہ جو شر پھیلائیں۔
جس کمرے سے پچھلے گیارہ دنوں میں سوائے سسکنے، ٹپِ ٹپِ اور طبیبوں کے مشاور کے علاوہ اور کوئی آواز دیواروں کے کانوں تک نہ پہنچی تھی وہاں آج، رات کے ایک بج کر ستائیس منٹ پر لیپ ٹاپ پر ہوتی تیز ٹھک ٹھک کی آواز آرہی تھی۔
پورا کمرہ گھپ اندھیرے میں تھا۔ کھڑکی کے سامنے گرے نیلے پردے سیاہ لگے۔ باہر کاریڈور میں موجود سبز اور سفید لیمپ جھل بجھ رہا تھا۔
لگتا ہے آج چاند بھی نہیں نکلا ورنہ اسکی روشنی کمرے کی چار دیواری میں پھیل جاتی۔
چاند نکلتا بھی کیوں اتنے دن جس کو پُرامید کرنے کے لیئے وہ اسے اپنے سائے میں لیتا رہا تھا آخر کی تو اس نے اپنی مرضی ہی۔
لیپ ٹاپ سے نکلتی روشنی کا راستہ اسکا چہرہ روک رہا تھا۔ نیلی روشنی میں اسکے تاثرات نمایا تھے۔ پھٹے ہوئے ہونٹوں پر غیرانسانی مسکان اور بغیر اجازت گالوں کو چھوتی لٹیں۔ آنکھوں میں چھائی شرارت……. رسائی سے دور چیز کی قربت کی وجہ سے تھی۔
یوں جیسے صدیوں کی پیاس بجھ گئی ہو۔
مہتاب کے کرسی سے ٹیک لگانے پر اگر اسکے کندھے سے جھانکو تو لیپ ٹاپ کی سکرین پر بےتحاشہ کھلے ٹیبز نظر آئیں گے۔ ایک کلک سے ان سب کو بند کرتے سکرین اب سیاہ تھی مگر اس پر رنگ برنگی لکیریں نمایا ہوئیں۔ جیسے کوئی ریکارڈر ہو۔ پلے کا بٹن دبا اور کمرے میں ایک آواز گونجی۔
”کیا تم نے انہیں بھیجا تھا؟“
”اگر بھیجا تھا۔۔۔۔۔ تو۔ “
”مطلب تمہاری نیت تھی مجھے بدنام کرنے کی؟“
اپنے منگیتر کا یہ بیان وہ نجانہ کتنی مرتبہ سن چکی تھی۔ سماعت تھی کے سیر نہ ہوتی تھی، دل تھا کے خوشی سے بھرتا نہیں۔
” میں نے تمہیں وارن کیا تو تھا! مجھ سے دور رہو، ورنہ ایسا غم دونگا پوری عمر مجھ سے نفرت کروگی۔“
اسکے ساتھ ہوئے سانحہ میں اس کے منگیتر کا کوئی قصور نہیں تھا، قصور تو ان لڑکوں کا بھی نہیں تھا۔
غیر شناسا نمبرز اور آئی ڈیز اسے الگ الگ چیٹس کو بھیجتے ، سوشل میڈیا کے ہر اکاوئنٹ پر لگاتے وہ یہ جانتی تھی یہ چیٹ اطیب کی زندگی برباد کر دے گی۔
جیسے اطیب نہ اس کی کی تھی!
کمینی سی مسکراہٹ فنا ہوتے ہوئے آنکھوں میں چھائی لالچ کو بھی مانند کرگئی۔ وہاں اب برفیلا تاثر تھا۔ انگھوٹے کی جلد کو دانتوں سے کترتے اس کی آنکھیں غیر مرائی نقطہ پر تھیں۔ پس منظر میں ریکارڈنگ چل رہی تھی، مہتاب کے رونے کی آواز، اطیب کی چلانے کا شور، تھوڑی سی ایڈیٹنگ کے بعد اب اس میں اطیب مزید ولن لگ رہا تھا۔
یہ سب تین سال پہلے چھبیس اکتوبر کو شروع ہوا تھا…….. جب، اطیب عون نامی شخص سے اسکے گھر والوں نے رشتہ تہہ کیا۔
مہتاب اکیلی اولاد تھی۔ ماں باپ کی کُل کائنات اسی سے شروع ہو کر اسے پر ہی ختم ہوتی تھی۔ بغیر مانگے ہر چیز مل جانا اس بات نے اسے باغی نہیں، حد سے زیادہ سُست اور مادہ پرست بنا دیا تھا۔
وہ لوگوں میں اخلاق نہیں وہ ان کے ظاہری خدو خال اور ان کا سٹیس دیکھتی تھی اور شاید اسی لیئے ہمیشہ تنہا رہ جاتی تھی۔
جو بھی دوست بنتا وہ مہتاب کی سٹیس کانشوئس سوچ اور اسکی کرواہٹ کے باعث چھوڑ جاتا۔ اسے لوگوں سے نفرت ہونے لگی۔ اسے روشنیاں چھبنے لگی۔ خود کو ایک خول میں قید کرتے اس کی ارد گرد کی دنیا خیالی تھی۔ جہاں ایک خوبصورت اور امیر شخص کا ساتھ، ہر لحاظ سے پرفکٹ دوست اور دنیا کی ہر نعمت اسکے پاس تھی۔
تب تک، جب اطیب اسکی زندگی میں نہیں آیا تھا۔
اسکے وہ خیالوں والا ہر لحاظ سے خوبصورت اور دولت سے لیس آدمی سچ میں اسے مل جائے گا اگر یہ خواب تھاتو مہتاب پوری عمر اس خواب میں جینا چاہتی تھی۔
مگر شاید اطیب کے لیئے وہ ایسی نہ تھی۔وہ اطیب پر جی جان سے مرتی اور اطیب اسے ہی جان سے مارنے کی خواہش رکھتا۔
ان تین سالوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا تھا جس میں اطیب نے اس سے جان چڑھوانے کی کوشش نہ کی ہو۔ مہتاب صبح شام اس کو ٹیکسٹ کرتی، فضول بے تکے سوالات۔
تمہیں لال رنگ پسند ہے یا نیلا؟
تمہارے پاس سب سے مہنگی ترین گھڑی کونسی ہے؟
کیا تم رات کو کافی پیتے ہو؟
اطیب نے اسے میوٹ لسٹ میں ڈالا تھا اور اس نے اطیب کا کانٹیکٹ پِن کیا ہوا۔
قصہ مختصر اطیب عون اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ وہ خود کو بدلتی، سنوارتی، سجتی مگر وہ پھر بھی اسکی طرف صرف ایک زہر الود جبری نگاہ مجبوراً ڈالتا۔
اسکے ہر کڑوے جملے، ہر اجنبی ادا اور ہر طعنہ وہ آرام سے پی جاتی۔
محبت؟ اونہوں محبت نہیں تھی اسے اطیب سے۔
کشش تھی! اسے اطیب سے نہیں صرف اسکی شکل سے، اسکی خوبصورتی سے، اسکے خدوخال سے۔ ہیں نا عجیب ایک مرد کی خوبصورتی کی خاطر وہ سب برداشت کرنے کو تیار تھی۔
اسکی ایک ہی گرل فرینڈ تھی۔ مہتاب جانتی تھی مگر مہتاب یہ نہیں جانتی تھی کے وہ لڑکی اطیب کے نکاح میں بھی ہے۔ تین سال پہلے شام میں جس دن اسکی منگنی ہوئی تھی اسی دن اطیب عون دوپہر میں اپنی پسند سے خوفیا نکاح کر چکا تھا۔
سچ جاننے کے بعد مہتاب ایک ہفتہ نیم بیہوشی کے عالم میں رہی۔ اسے لگا یہ تین سال کبھی آئے ہی نہیں، وہ کبھی تھی ہی نہیں کیونکہ وہ دوسری عورت تھی۔
اس نے خود کو کتنا بدلا اور آخر میں کیا ملا؟
آج سے تقریباً ایک ماہ پہلے نحیف حالت میں بستر پر لیٹی لڑکی نے ایک بساط بچھائی، بدلہ کی بساط!
خون کی ایک پتلی سی لکیر جلد پر نمایا ہوئی۔ دانتوں سے کترتے وہ رکی اور انگھوٹے کو دیکھا۔ مسکراتے ہوئے سر جھٹکا اور لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوئی۔ مختلف تصاویر کو آگے کرتے اس کی انگلی ایک وڈیو پر رکی۔ پچھلے ماہ اطیب اور اسکی فیملی مالدیوز گئے تھے۔ سمندر کے کنارے کھڑے اسکے ماں باپ کی طرف اس نے کیمرہ کر رکھا تھا۔ اسکی آواز میں کتنی خوشی تھی!
کیمرہ موڑ کر ساتھ سے آتے اطیب پر غور کیا۔ یک دم اسکے منگیتر کے چہرے پر بیزاری اتر آئی اور اس نے رخ موڑ لیا۔
حالیہ مہتاب کی آنکھوں میں جھلکتی خوشی اطیب کو دیکھتے ساتھ سپاٹ ہوگئی۔ محبت تو کبھی نہیں تھی۔ ہاں! کشش آج بھی تھی اور یہ کشش وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے گی جب اطیب کے چہرے پر جھڑیاں اور سنہرے بالوں کے کنارے سفید پڑنے لگے گیں۔
ایک اور بٹن دبایا تو دوسری وڈیو پلے ہوئی۔ اب سپاٹ چہرے پر اطمینان اتر آیا۔
” بچاؤ۔۔۔ کوئی بچاؤ!“ یہ چھبیس نومبر کی رات تھی۔
” خدارا بچاؤ!“ راولپنڈی میں واقع یہ ایک پرانا اور قدیم پُل تھا۔ گندگی اور دھول سے لپٹا جس کے نیچے سبز ہریالی میں جاتی ریل کی پٹریاں تھیں۔ رات کے اس پہر میں وہاں دور دور تک کسی ٹرین کا بھی نشان نہیں تھا۔ پُل ویران مگر کہیں دور سے کسی لڑکی کی آواز آرہی تھی جیسے کوئی غار ہو۔
” خدارا بچاؤ!“ مگر وہ غار نہیں تھی۔ اگر پُل پر کھڑے ہو تو میٹل کی موٹی جالی میں سے گھاس پر ایک وجود نظر آئے گا۔ رینگتے ہوائے اسکی پکار میں ایک اور آواز بھی گھلی تھی۔
بھاری شے کو گھسیٹنے کی آواز۔
پاؤں کے ساتھ بندھی موٹی چین جس کے اختتام پر ایک بھاری گولا تھا ویسا جسے قیدیوں کے پاؤں میں ہوتا ہے۔
” بچاؤ! بچاؤ! بچاؤ!“ مشقت کے باعث ماتھے پر پسینہ تھا۔ چہرہ دھول میں لپٹا تھا۔ مہتاب کی بھوری آنکھیں سپاٹ تھیں۔ چہرہ اٹھانے پر وہ ہنسی۔ اس پر کوئی پاگل ہونے کا گمان گزرتا تھا۔
چہرہ پر موجود داغ اور زخم، قابلِ ترس حالت، بازوؤں سے رستہ خون۔ پُل پر کھڑے دو لوگ اسکی وڈیو بنا رہے تھے۔ مہتاب نے گردن اٹھا کر انہیں دیکھا جواباً انہوں نے انگھوٹا دکھا کر اسے داد تھی۔ ہنستی روتی کیفیت میں وہ دوبارہ رینگنے لگی۔ پُل پر کھڑے ایک مرد نے جیب سے فون نکالا۔ دونوں مکمل سیاہی میں موجود تھے۔ اسکی فون سکرین پر جھانکو تو چار ہندسے نظر آئیں گیں۔
1122
ماضی سے حال میں واپس آتے ہیں۔ کلپ رکی توکمرے میں چھائی خاموش وحشت واپس لوٹ آئی۔ باہر جھانکو تو کاریڈور کی بتی ابھی بھی جل بجھ رہی تھی۔ اسی جلتی بجھتی بتی میں کبھی فرش سیاہ ہوتا کبھی سبز۔ لال لمبے چمکتے بوٹوں میں قید دو پاؤں روشنیوں کی اس جنگ میں چلے آرہے تھے۔
ہیل کی ٹھک ٹھک بند دروازوں سے بھی اندر جاتی تھی۔ وہ فرش پر چلتی ،وار دل پر ہوتے۔
دروازے پر لگے گول شیشے کے سامنے ایک ہیولہ سا نظر آیا۔ مہتاب نے ہلکی سی گردن گھما کر دیکھا اور پھر پرسکون سا مسکرائی۔
وہ ہیولہ دروازہ کھول کر اندر آیا۔ لال بوٹ اب کمرے کی سیاہی میں واحد روشن چیز لگ رہے تھے۔ اپنے پیچھے سے کمرہ لاک کرتی وہ انہیں مضبوط قدموں سے چلتی مہتاب کے پیچھے آکھڑی ہوئی۔
” میری امانت!“ اپنے لمبے لال کوٹ کی جیب سے ہاتھ نکالا اور ہتھیلی مہتاب کے چہرے کے سامنے پھیلائی۔ ہاسپٹل کے لباس والی لڑکی نے انہیں کمزور ہاتھوں سے میز پر رکھے تمام مائکس اٹھا کر اس سانولے ہاتھ پر رکھ دیئے۔