Share:
Notifications
Clear all

qareen afsana by maryam muzzaffar part 4

1 Posts
1 Users
0 Likes
18 Views
maryam muzzaffar
(@bilqeesnewss)
Eminent Member Customer
Joined: 2 months ago
Posts: 11
Topic starter  

ہیل کی ٹھک ٹھک بند دروازوں سے بھی اندر جاتی تھی۔ وہ فرش پر چلتی ،وار دل پر ہوتے۔

دروازے پر لگے گول شیشے کے سامنے ایک ہیولہ سا نظر آیا۔ مہتاب نے ہلکی سی گردن گھما کر دیکھا اور پھر پرسکون سا  مسکرائی۔

وہ ہیولہ دروازہ کھول کر اندر آیا۔ لال بوٹ اب کمرے کی سیاہی میں واحد روشن چیز لگ رہے تھے۔ اپنے پیچھے سے کمرہ لاک کرتی وہ انہیں مضبوط قدموں سے چلتی مہتاب کے پیچھے آکھڑی ہوئی۔

” میری امانت!“ اپنے لمبے لال کوٹ کی جیب سے ہاتھ نکالا اور ہتھیلی مہتاب کے چہرے کے سامنے پھیلائی۔ ہاسپٹل کے لباس والی لڑکی نے انہیں کمزور ہاتھوں سے میز پر رکھے تمام مائکس اٹھا کر اس سانولے ہاتھ پر رکھ دیئے۔

ناخن سلیقہ سے تراش کر  مہندی سے سجائے تھے۔  انہیں  انگلیوں  سے ایک مائک اٹھایا اور کھڑکی کے سامنے آگئی۔ دروازے کے باہر  ہوتی روشنی اور اجالے کی بحث میں بھی وہ ہیولہ سیاہ تھا سوائے اپنے لال کوٹ، لال جوتوں، لال نیل پالش اور جیسے ہی وہ کھڑکی کے سامنے  ٹھہری، تو مسکراتے لال ہونٹ بھی۔

”اس میں آڈیو کلپ ہے نا؟“ مائک کو جانچتی بھوری نگاہیں محتاب کی طرف مڑیں۔ اس لڑکی کے لب و لہجہ میں علاقائی تاثر تھا۔

”بالکل! جیسے ہمارا ڈیل ہوا تھا۔ “ لیپ ٹاپ پر کام کرتی اس نے دفاع میں ہاتھ اٹھائے۔ آنے والے مہمان نے تنے  ہوئے اعصاب ڈھیلے چھوڑ دیئے، تینوں مائکس کو اپنی کوٹ کی جیب میں ڈالا۔

”آج کل کے زمانے میں کوئی مفت میں کسی کو بخار نہ دے۔ پھرتم نے  مفت میں میری  مدد کیوں کی ہے ؟“کرسی پر جھولتے اس کی بھوری آنکھیں شک سے چھوٹی ہوئیں۔

”ہر مدد   کاغذ کے  ہرے پنے نہیں مانگتی ۔“ جیب میں ہاتھ ڈالے وہ لڑکی سیاہ اور سرخ کا ملاؤ تھی۔    بند پردے دیکھ کر اس نے ناک چڑھائی۔ اسے یہ بند کھڑکیاں، پردے، دروازے گٹھن دیتے تھے۔

” ویسے اب  کچھ کچھ اندازہ ہو رہا ہے تم کیوں اس ملک کی پسندیدہ تھریپسٹ  بنتی جا رہی ہو………ڈاکٹر مرجان شہیر۔ “

کھڑکی کے پردے جھٹکے سے ہٹا ئے، بادلوں کی اوٹھ میں چھپا چاند راستہ بناتا اس تک آیا۔ سانولے چہرے پر موجود گول بڑی بھوری آنکھیں جن کی پلکیں لمبی اور سیدھی تھیں آدھے حلال کو دیکھتے مسکرائیں۔ ناک میں موجود گول نتھ سے روشنی ٹکرائی۔

”ملک کی؟“ آئبرو اچکائے۔ بھورے کھلے بال  سیدھی  مانگ نکال کر اطراف میں پھیلائے تھے۔

”سوری میں بھول گئی صرف ایلیٹز کی۔“کرسی مرجان  کی جانب موڑ لی۔ ” ویسے تم صرف ایلیٹز کا ہی کیوں علاج کرتی ہو؟ مطلب تمہارا پیشہ  تو انسانیت سے جڑا ہے۔“

”ایلیٹز کیا انسان نہیں ہوتے ؟“ مہتاب کی بات کاٹتے وہ اسکے بیڈ تک آئی۔ مرجان شہیر اسے یوں ہی لاجواب کر دیتی تھی۔ وہ گردن جھکا کر مسکرانے لگی۔

”کیا ہو جو ان سب لوگوں کو پتہ چل جائے کہ جس کو وہ اتنا نیک، پارسا اور اپنا مسیحا سمجھتے ہیں وہ صرف اور صرف مشہور ہونے کے لیئے اس فیلڈ میں ہے۔“ مہتاب کہنی کے بل کرسی پر جھکی۔

”انہیں الفاظ مل رہے ہیں، مجھے مقام! وِن وِن سیچویشن۔“ سر داد دینے والے انداز میں ہلاتے اس نے کرسی کا رخ دوبارہ لیپ ٹاپ کی جانب کر لیا۔ سکرین اب بجھ چکی تھی۔ چاندنی کمرے کے ایک حصہ میں پھیلی تھی۔

ٹانگ پر ٹانگ چڑہا کر بیٹھی مرجان شہیر نے گردن ادھر ادھر گھما کر دیکھا۔ مشینی چیزیں خاموش تھیں۔  مہتاب کے اندر ہوتی خلشقار سے بالکل انجان۔

”ڈاکٹر!“ کشمکش  میں ڈوبا لہجہ لیئے وہ لیپ ٹاپ پر لگے windows کے سٹکر کو کتررہی تھی۔

”کیا میں صحیح کر رہی ہوں؟“ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی گردن پھیر کر پیچھے بیٹھے مسیحا کو دیکھتی۔ کمرے میں پھیلی سازش کی بو میں اچانک دل کی بےترتیب ہوتی دھڑکن کی آواز گونجی۔

”یہ فیصلہ تمہارا ہے ( مرجان نے گہری سانس لیتے کندھے ڈھیلے چھوڑ دیئے) ہر انسان کے ساتھ دو ان دیکھی طاقتیں ہوتیں ہیں۔“ مرجان اپنے ”گوُرو موڈ “ میں آچکی تھی۔ مہتاب کو بڑا نہیں لگا اسے اپنی تھرپیسٹ  کی باتیں با آسانی   سمجھ آتی تھیں۔

”ایک اُس کا نفس جو مسلسل اسے برائی سے روکتا ہے۔ دوسرا( وقفہ لیا) اسکا قرین جو مسلسل اسے برائی کی طرف اکساتا ہے۔ نفس کو سلا دو تو یہ قرین تم پر حاوی ہو جاتا ہے۔“ بیڈ کے ایک کونے پر جبراً ٹکی اسکے ہاتھ ابھی بھی کوٹ کے جیبوں میں تھے۔

”تو اس کا مطلب میرا قرین مجھ پر حاوی ہو گیا ہے؟“ کنکھیوں سے دیکھا۔

”قرین بھی تو تمہارا ہے، اسے حاوی بھی تو تم ہی ہونے دو گی نا!“ بہت ہی میٹھے لہجے میں دھماکہ کر چکی تھی۔ مریضہ کے ذہن میں پلتے سوالات کم نہیں تعداد میں زیادہ ہوگئے۔” وہ انسان بے وقوف ہے جو اپنے کیئے غلط کاموں کا الزام قدرت، نفس، شیاطین ان سب پر ڈالتا ہے۔ خدا نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہمیں دی ہے۔ ہمارے ارد گرد کے خناس ہمیں صرف ورغلا سکتے ہیں۔ ہاتھ پکڑ کر قتل کرنا ………یا کسی کی زندگی برباد کرنا انسان کا خود کا لیا فیصلہ ہے۔ ایسے فیصلے ہر چیز کو مدِ نظر رکھ کر کیئے جاتے ہیں۔ نفس کیا کہتا ہے، دماغ کیا اشارہ کر رہا ہے اور سب سے بڑھ کر ہم کیا چاہ رہے ہیں؟“ مرجان کا ہر نکلتا لفظ اسکے سوالات کی گھتی کو مزید الجھا رہا تھا۔ ہلکی سی گردن پھیر کر پیچھے دیکھا۔ وہ لڑکی واقعی میں بول بول کر نہیں تھکتی تھی۔

” اگر تم میری جگہ ہوتی ۔۔۔تو کیا کرتی؟“ وہ اپنی کیفیت  ظاہر تو نہیں کرنا چاہ رہی تھی مگر فلحال اس کا خود  پر اختیار نہیں تھا۔

”اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو…….“ سوال دہراتے جوتے کی نوک کو کچھ دیر دیکھتی رہی۔ مرجان کے پاس الفاظ کبھی ختم نہیں ہوتے تھے۔” میں کبھی بدلہ نہ لیتی ( مہتاب کی ماتھوں کی شکنوں میں کمی آئی) یہ سب، یہ پیٹھ پر وار کرنا یہ مجھے نہیں پسند۔ بزدل لوگ پیٹھ پر وار کرتے ہیں۔ اصل مزہ تو حریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹرگر دبانے میں ہے۔“ مہتاب کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ اس کے قدم ڈگمگائے  کیونکہ شاید اب اسے اپنی جذباتیت کا احساس ہو چکا تھا۔

اپنی جگہ سے اٹھتے مرجان دروازے کی جانب بڑھنے لگی تھی جب پیچھے بیٹھی لڑکی  گھبرا کو بولی۔

”مگر تم اس جرم میں میرے ساتھ  برابر کی شریک ہو۔“ لب چباتے، ناک کے نیچے جمع ہوتے پسینے کو صاف کیا۔ اچانک سے کمرے میں گرمی بڑھ گئی۔

”کس نے کہا؟“ بھونیں سوالیہ انداز میں جڑیں۔ چھوٹے قد والی لڑکی ( اتنی اونچی ہیل تبھی  پہنتی تھی)  وہ چاندنی کے آدھے رخ پر تھی۔اندھیرے میں چھپے وجود کے  بال پتلی لکیروں کی مانند چہرے پر چپک رہے تھے۔ آنکھوں میں ہلکا سا خوف بھی تھا۔

”تم۔۔۔ تمہاری مدد سے میں اتنے دن ہاسپٹل میں رہی ہوں۔ اگر تم میرے ڈاکٹر کو رشوت نہ دیتی تو۔۔“

”کیسی رشوت؟ کیا تم مجھے رشوت خور کہہ رہی ہو؟“ دل کی دھک دھک، کانوں میں پڑتی کاریڈور کی جلتی بجھتی بتی کی آواز، باہر سے آتے کسی جنگلی جانور کی پکار سب رک گیا۔ مدھم ہوتی بیپ کی آواز دونوں کانوں میں سوئیوں کی طرح لگ رہی تھی۔

”تم۔۔تم۔۔ میں تمہارے۔۔“ اسے ہچکی آئی، منظر دھندھلا ہو رہا تھا۔”میں اس دن تمہارے پاس اسی لیئے آئی تھی۔“

فاصلے پر کھڑی سرخ لپ سٹک والی لڑکی کی آنکھوں میں جھانکو۔

اس دن۔۔۔ یہ بیس اکتوبر کی روشن نرم گرم سی صبح تھی۔ ڈاکٹر مرجان اپنے کلینک میں موجود سامنے بیٹھی اپنی  پرانی  پیشنٹ  کو دیکھ رہی تھی۔

”میں جانتی ہوں وہ مجھ سے پیچھا چھرانا چاہتا ہے۔ جب اسے پتہ چلے گا اس لڑکی کا ریپ ہوا ہے وہ اسی بات کو بہانہ بنا کر مجھ سے رشتہ توڑ دے گا۔“ اس لڑکی کے چہرے پر چھائی تاریکی مگر نفرت کی آگ دونوں مرجان کی زیرک نگاہوں سے چھپی نہیں تھیں۔ ” وہ چاہے گا میں بھی اس سے نفرت کروں اسی لیئے وہ میرے سامنے قبول کر لے گا۔ اس بےوقوف کو لگتا ہے میں اس کے پیار میں پاگل ہوں منہ سے بھاپ نہیں نکالونگی۔ لیکن یہی وہ غلطی کر بیٹھے گا۔ ریپ وکٹم بن کر مجھے ہمدردی مل جائے گی اور assaultor بن کر اسکا سارا سوشل سرکل تباہ ہوجائے گا۔“

”تمہیں کیسے یقین ہے یہ سب کام کرے گا؟“ گالوں پر انگلیاں ٹکائے تھریپسٹ کے سوال پر مہتاب ایک لمحہ کو سوچ میں پڑ گئی مگر جب بولی تو اسکی آواز میں پہاڑوں جتنی پختگی تھی۔

”کیونکہ مجھ سے بہتر اسے کوئی نہیں جانتا۔“ مرجان نے اس لڑکی کو یہ نہیں کہا تمہارے پلین میں جھول ہے؟ یہ نہیں بتایا کے اگر اس لڑکے نے کیس کر دیا، تو؟ منع نہیں کیا کے تم پوری عمر ایک جھوٹ پر نہیں گزار سکتی۔ سمجھایا نہیں کے یہ ایک وکٹم کی توہین ہے۔

مرجان شہیر  اپنے مشورے صرف خاص لوگوں کو دیتی تھی اور مہتاب قمر کہیں سے بھی اسکے لیئے اہم  نہ تھی۔

بھوری آنکھوں میں آج  بھی وہی تاثر تھا جو اس دن تھا، وہ تاثر جسے مرجان کا سب سے قریبی دوست “code red”  کہتا ہے۔

”تم اس دن میرے پاس خود آئی تھی۔ بتاؤ کیا یہ جھوٹ ہے؟“مہتاب کے دماغ میں پلتے ہزار  سوالات اور جوابات کیا تھے؟ کچھ بھی نہیں۔

”میں لوگوں کو ان کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرتی۔“ مرجان جب مسکراتی تھی تو اسکے اوپر والے مسورے ہلکے سے نظر آتے تھے۔ آنکھیں خالص خوشی سے چمک اٹھتی تھیں۔

”تم اس دن جب میرے پاس آئی میں نے صرف ایک سوال پوچھا تھا۔“ مہتاب کی پھیلتی نگاہوں میں ایک منظر ابھرا۔

واپس اسی دن پر چلو۔ درمیان میں چوڑا میز، دو اطراف عورتیں اور روشن صبح۔

”میں تمہاری مدد کو تیار ہوں۔ مگر، اس سے مجھے کیا ملے گا؟“ سانولی رنگت والی لڑکی پیچھے ہوئی۔

”میں پیسے دونگی نا۔“

”میرے پاس تم سے ڈبل پیسہ ہے۔“ ہاتھوں کو باہم ملاتے ٹھوڑی کے نیچے ٹکا دیئے۔

”پھر! کیا چاہیئے؟“ بھورے بال اور پینٹ شرٹ والی لڑکی نے سوال اٹھایا۔مرجان کے لال ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔

”شہرت۔ “

حال میں بیٹھی لڑکی کانپ رہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں سوال تھا کہ شہرت! یہ کیسے ملے گی تمہیں؟

گہرے سانس لیتے اس نے ناک کی  ہڈی مسلی۔

” وہ ڈاکٹر، میں نے اس سے تمہاری کوئی سفارش نہیں کی میں نے تو بس۔۔۔( فرش کو دیکھا) تمہاری رپورٹس تبدیل کر دی تھیں۔“

”تم نے کیا؟“ مہتاب کی چیخ فطری تھی۔ ”ہماری ایک ڈیل ہوئی تھی، تم  مجھے یہاں رکھنے کے لییے میرا ساتھ دوگی، اپنے کانٹیکٹس استعمال کرو گی ۔ تمہیں شہرت چاہیئے تھی، میں نے تم سے پیسے کا وعدہ کیا تھا۔“

”میرے پاس تم سے ڈبل پیسہ ہے۔“

”اوہ خدایا!“ بالوں کی مٹھیوں میں جکڑتے اسکا دماغ  سائیں سائیں کر رہا تھا۔”مطلب ان سب کو یہ لگتا رہا ہے میری واقعی آواز چلی گئی تھی۔ میں واقعی کچھ عرصے کے لیئے مفلوج ہو چکی ہوں۔ اس کا مطلب یہ دوائی۔۔“ اور یہاں سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ تمام انجکشن، دوائیاں سب کچھ اسے لگتا تھا خالی خولی پانی یا طاقت کی گولیاں  ہیں۔

”میں نے احسان کیا ہے تم پر۔ اب میرے تمہارے اور اس کمرے کے علاوہ کوئی نہیں جانتا سچ کیا ہے۔ یہاں کے سٹاف کو بھی یقین ہے تم واقعی زیادتی کا شکار ہو۔“ بےہنگم سانسوں کے درمیاں  دور کھڑی مرجان کو دیکھا۔

”میں تمہیں جان سے مار دونگی مرجان شہیر!“ یک دم چیختے وہ اپنی کرسی سے اٹھی۔”میں تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑو۔۔“ سامنے  کی طرف بڑھاتے قدم خود بخود رکے جیسے ٹانگوں میں سے سکت ختم ہوگئی ہو۔ جیسے وہ چلنا بھول گئی ہو۔ یا جیسے نچلا دھڑ موجود ہی نہ ہو۔

 منہ کے بل وہ سیدھا مرجان کے قدموں میں گری۔ آنکھوں میں بےیقینی اتر آئی۔ چہرہ اٹھا کر مرجان کو دیکھا اور پھر دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی۔ وہ اٹھ کیوں نہیں پا رہی تھی۔ اسکی ٹانگوں پر اچانک سے یہ بوجھ کہاں سے آگیا تھا؟ اس نے دوبارہ اٹھنا چاہا۔ اس بار ہتھیلیاں چھل گئی تو بے بسی کے عالم میں اس نے فرش پر ہاتھ ماڑے۔

سپاٹ نظروں سے  اسے دیکھتے  مرجان  نے اپنا کوٹ سمیٹا اور ایک گٹھنے کے بل جھکی۔

” کہا نا وہ فیصلہ تمہارا تھا کہ کیا    تم صحیح کر رہی ہو یا غلط۔“ اسکے لمبے بال فرش سے ٹکرا ئے۔”مگر یہ فیصلہ میرا  ہے اور میں۔۔۔( زرا سا آگے جھکی) اپنے فیصلہ میں بالکل درست ہوں۔“ زمین پر گری لڑکی کے لب اور آنکھیں ابھی بھی وا تھیں۔ آنسوؤں کی پتلی  لکیر آنکھوں  کے کنارے    جمع ہو رہی تھی۔

” تم نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟“خوف کی جس منزل پر وہ کھڑی تھی اسے ڈھانپنے کی خاطر لفظ سختی سے ادا کیئے۔ آنکھیں انگارہ اور سانس طوق زدہ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?