Share:
Notifications
Clear all

qareen afsana by maryam muzzaffar part 2

1 Posts
1 Users
0 Likes
30 Views
maryam muzzaffar
(@bilqeesnewss)
Eminent Member Customer
Joined: 2 months ago
Posts: 11
Topic starter  

4 دسمبر

شام کے چھ بج کر سات منٹ

نصرت شہیر ہیلت کئیر، ایبٹ آباد

” اب بس بھی کردو مہتاب کب تک یونہی سوگ مناؤ گی۔“

شام کا اندھیرا پھیلنے کی دیر تھی اور یوں  کمرے میں موجود بتیوں اور روشنیوں کا اضافہ ہوگیا۔ صرف ان کا ہی نہیں کمرے میں موجود سانس لیتے زندگی کی خواہش رکھتے لوگوں کا بھی۔

”ایک ہفتہ سے یہاں بیٹھی ہو بور نہیں ہوئی؟“

ہاسپٹل  بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی اسکی دوست نے کہا۔ ہلکے پھلکے مے کپ اور  نیلی شلوار قمیض کے ساتھ اوڑھی گئی شال۔ گود میں رکھے  ڈرائے فروٹ کا  باؤل سائڈ  ٹیبل پر بیٹھی اپنی دوسری دوست تک بڑھایا۔

”ہر کوئی تمہارا پوچھ رہا ہے، سب کو جواب چاہیئے تم سے ۔ کب تک چھپنے کا ارادہ ہے؟“ ڈرائے فروٹ کے بھرئے ہوئے برتن میں سے اپنے لال ناخنوں کی مدد سے چن چن کر پسِتا نکالتی دوسری دوست کی نصیحت۔

ان دونوں سے دور صوفے پر بیٹھی بوئے کٹ والی  تیسری دوست نے انہیں گھور کر دیکھا۔ جس پر دونوں نے ناسمجھی سے بھونیں سکڑائیں۔

” جب سوشل میڈیا پر اپنی زندگی دکھاؤ گے تو یہ توہوگا۔“ پستا دانتوں سے کترنے والی لڑکی نے ایک ادا سے کہا۔

” دیکھو زندگی   ہمیشہ ہنسی خوشی تھوڑی  نا رہتی ہے کبھی غم اور بلائیں بھی آجاتی ہیں۔اسی لیئے پریشان نہ ہو اور  اس وقت   تم لوگوں سے ہمدردی کا ووٹ لو۔اگر آگے سیاست میں جانا ہی ہے تو اپنی حالت   بطور اپنی بیک سٹوری استعمال کرو۔“ ہاتھوں کے اشاروں سے اسی شال والی دوست نے سمجھانا چاہا۔

سردیوں کی شام کھڑکی کے باہر دور دور تک پھیلی تھی۔ مہتاب نے نہ انہیں جواب دیا نہ اپنی زبان کھولی۔ ایک ہفتہ سے رکھا چپ کا روزہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لےرہا تھا۔

” اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو۔“ جذبات میں بہتے وہ  نجانے کیا بول جاتی جب اپنی  قریب بیٹھی دوست کی آنکھیں  نکالنے پر سٹپٹا گئی۔ ندامت سے مسکراتے  وہ دوبارہ ڈرائے فروٹ کی جانب متوجہ ہوئی۔ بوائے کٹ والی لڑکی نے آنکھیں گھمائیں۔

”تم ان دونوں بےوقوفوں کو رہنے دو۔“ بیڈ اور سائڈ ٹیبل پر بیٹھے بےوقوفوں نےصدمے سے ایک دوسرے کو دیکھا۔”تمہارے ساتھ جو ہوا ہے وہ چھوٹی بات نہیں ( وہ اٹھی اور مہتاب کے کندھوں کو ہلکا سا دبایا) ٹیک یور ٹائم۔“ محبت اور ہمدردی اسکے اخلاص کا حصہ تھی۔

”تو ہم بھی تو دلاسہ اور حوصلہ دینے آئیں ہیں۔“لال ناخنوں سے آخروٹ چھیلتے دانے اور چھلکے کو جدا کیا۔ ”ویسے   ہوا کیا تھا مہتاب؟“اس کی پشت پر کھڑی لڑکی نے اپنی دوست کو خاموش ہونے کا کہا۔

کہانی! گوسپ! ہر کوئی مریض کے سرہانے یہی تو اکٹھا کرنے آتا ہے۔”سب اب خاموش ہوجاؤ۔“شال والی دوست نے اعلان کیا۔ ”ہم مہتاب سے ملنے آئیں ہیں، زخم ہرے کرنے نہیں۔ وہ بہتر جانتی ہے اسے آگے کیا فیصلہ لینا ہے۔ ویسے مہتاب تمہارے فادر کیا کہہ رہے ہیں؟“ بات کی ابتدا بھی وہی اور اختتام بھی وہی۔ پستا کترتے اس نے اپنی خاموش دوست کی پشت دیکھی۔

”میرا خیال ہے ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ “ باب کٹ والی نے  مڑتے ساتھ  ہی باقی دونوں دوستوں کو دروازے کی طرف  بڑھنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں تو پوری شام یہاں بیٹھ کر اس کے مہنگے ڈرائے فروٹ کا پیالہ ختم کردیتیں مگر الحمداللہ  اس میں انسانیت  ابھی زندہ تھی۔

چاروناچار ان دونوں کو اٹھنا پڑا۔ آگے آئیں مہتاب کو دلاسہ دیا اور بوئے کٹ والی لڑکی کے پیچھے ہولی۔

تینوں آئیں اور چلی گئیں اس سے اس کا  حال نہیں پوچھا البتہ اپنا ضرور سنا گئیں۔

★…★…★

6 دسمبر

صبح نو بج کر  تیس منٹ

نصرت شہیر ہیلت کئیر ، ایبٹ آباد

سورج بادلوں کی اوٹ میں چھپا تھا۔ نیلا پردہ آج ایک پٹ ڈھانپ رہا تھا اور دوسرا واضح کر رہا تھا۔

” مہتاب تم سے اطیب ملنے آیا ہے۔“

کمرے میں کھڑی اسکی ماں نے اعلان کیا۔ انداز اپنایت لیئے ، اثر خشک زدہ ۔

کمرے سے باہر نکلتی وہ ابھی دروازہ بند ہی کر رہی تھیں جب ایک درمیانے قد کا آدمی دوسری طرف سے نمودار ہوا۔ ہلکی سی مسکان معزز خاتون کی طرف اچھالتے اندر داخل ہوگیا۔

مہتاب یونہی پیٹھ کیئے بیٹھی تھی۔ اطیب کے گول موٹے ہونٹ مسکرائے، فتح کی سرشاری۔

ذرا سی گردن پھیر کر کمرہ کے کنوب پر ہاتھ رکھا اور دھیان  سے لاک کیا۔ کمرے میں کلک کی آواز گونجی۔

درمیانے قد کا مرد مسکرایا، سیاہ پینٹ کی پچھلی جیبوں میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھا۔ سیاہ گول گلے والی شرٹ پر گہری بھوری لیدڑ کی جیکٹ اسے سردی سے بچا رہی تھی اور ایک وہ تھی جس نے بس   ہاسپٹل کا لباس پہن رکھا تھا۔

ہونٹوں پر ستائشی سیٹی بجاتے جیب سے ایک ہاتھ نکالا اور سامنے لگی ایل ای ڈی کی سطح پر انگلی پھیری۔ ہلکی نیلی آنکھیں ہمیشہ ہی چالاک لگتی تھیں۔ اس کے نقوش خوبصورت تھے پچھلے ایک ہفتہ سے اس کمرے میں آنے والے  ہر شخص سے زیادہ۔ ہلکے بھورے بال جو دھوپ کی کرنوں تلے  سنہری لگے۔ سفید رنگت اور کلین شیو چہرہ  کی وجہ سے  ٹھوڑی پر لگا قدرتی کٹ  نمایا  ہورہا تھا۔

”کمرہ تو بڑا فٹ ہے۔“ بیڈ کی طرف بڑھا، جگہ جگہ گفٹ کارڈز، پھل اور  پھول  کمرہ کی زینت بنے تھے۔”  ظاہر ہے، امیر ماں باپ کی اکلوتی اولاد جو ہو۔“ لہجہ میں حسد اور حقارت دونوں تھی۔  بیڈ پر اچھل کر لیٹتے اس نے باسکٹ سے سیب اٹھایا اور ساتھ ہی ایک گفٹ کارڈ بھی۔ سیب میں دانت گاڑتے کارڈ پڑھنا شروع کیا۔

مہتاب ہونز خاموش رہی۔

کارڈ کو پڑھتے چہرہ پر کمینی سی خوشی تھی۔ گردن موڑ کر مہتاب کو دیکھا جس کی صرف   کمر اور سر کا پچھلا حصہ واضح تھا۔ کارڈ کو سلیقے سے جگہ پر رکھتے وہ  ایک جست میں بیڈ سے اٹھا۔

قدم قدم چلتا وہ بیڈ کی دوسری طرف آیا۔ نظریں ویل چئیر پر تھیں اور دانتوں سے سیب کھایا  گیا۔

” مل گیا سکون؟ ہوگئی خواہش پوری ؟“ بیڈ کے کنارے پر خود کو ٹکاتے مہتاب کو مخاطب کیا۔

 ہلکا سا جھانک کر دیکھو تو ویل چئیر والے وجود نے کرب سے آنکھیں بند کیں۔ اس پورے ہفتے میں چہرے پر ابھرنے والا پہلا تاثر۔

”کہا تھا میں نے مت آؤ   میرے پیچھے مگر نہیں……تمہیں ہی مسزز فیوچر اطیب عون بننے کا شوق چڑھا تھا۔“مہتاب نے آنکھیں بند کی تو ایک آنسو چہرے پر پھسلتا ٹھوڑی تک گیا۔ وہ بے آواز رو رہی تھی۔

سیب کا آخری نوالہ لیتے  اطیب نے اسکا درمیانی حصہ  کمرے کے کونے میں موجود ڈسٹ بن کی طرف اچھالا۔ سیدھا نشانہ پر!  چہرے پر آنے والی مسکراہٹ قدرتی تھی ۔ سستی سے آہ  بھرتے دوبارہ کہنا شروع کیا، ”خیر……… ایک رشتہ کا اختتام بھی ہوگیا۔ پڑسوں آئیں گے ہم تمہاری طرف۔ مل بیٹھ کر اپنی عرضی پیش کرے گیں تاکہ تم کسی خوش فہمی میں نہ رہو کے یہ تعلق اب بھی قائم ہے۔“ اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے اس نے جمائی روکی۔  ”میں اتنا عزیم نہیں ہوا کے ایسے ماضی کے ساتھ کسی عورت کو اپنی بیوی بناؤ۔“

”تم ان تینوں کو جانتے تھے نا؟“ ایک ہفتہ اور  چار دن  بعد بالاآخر  اسکا چپ کا روزہ ٹوٹا۔ ویل چئیر کا لیور کھینچنے کی آواز آئی۔ کھڑکی کے سامنے آہستہ سے ہٹتی مہتاب اب مکمل رخ  کیئے اطیب کی طرف مُڑ چکی تھی۔ جہاں اس مرد کے خوبصورت نقوش میں گھلنے والی ناگواری اسے بدصورت بنا رہی تھی وہیں مہتاب کی لال انگارہ آنکھوں میں اترنے والی نمی اسے کسی بھوکی شیرنی سے کم کا ظاہر نہیں کر رہی تھیں۔

”میرے دوست ہیں وہ۔“ رعب میں ڈالتے اس نے ہونہہ کہتے گردن پھیری۔

”ہیں؟“ مہتاب کی بیٹھی آواز میں دل ٹوٹنے سے زیادہ اعتبار ٹوٹنے کا درد تھا۔”مطلب تمہاری منگیتر  کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد بھی وہ تمہارے دوست ہیں؟ تھے نہیں۔ “

”انہوں نے جو کیا صحیح کیا، تم اسی قابل ہو!“ مہتاب کو زرہ برابر بھی حیرت نہ ہوئی۔ وہ جانتی تھی تین سال پہلے اسکی زندگی میں آنے والایہ منگیتر اس سے کس حد تک نفرت کرتا تھا ۔

دروازے میں موجود گول شیشے سے اندر جھانکو تو  نظر آئے گا کہ ایک  اجلی حالت والی لڑکی نے سختی سے ہونٹوں کو پتلی لکیر میں کھینچ رکھا تھا۔ اسکے سامنے بیٹھا مرد ڈھٹائی سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے  چہرہ ادھر ادھر گھما کر کمرے کا جائزہ لینے میں  دلچسپی رکھتا تھا۔

”کیا تم نے انہیں بھیجا تھا؟“ سوال پر سیٹی بجاتے ہونٹ رکے، ارد گرد دیکھتی نظریں ٹھہریں۔ مہتاب  براہِ راست اطیب کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔

”اگر بھیجا تھا۔۔۔۔۔ تو!“ وہ جتا رہا تھا۔ واللہ وہ مہتاب کو اپنی برتری جتا رہا تھا۔

”مطلب تمہاری نیت تھی مجھے بدنام کرنے کی؟“ پچھلے دنوں سے جن کانٹوں پر وہ اکیلی چل  رہی تھی اب اس سفر کے ختم ہونے کا وقت تھا۔ اپنی منزل کے اختتام پر اسے اطیب کٹہرے میں کھڑا دکھا جہاں وہ سیاہ کوٹ پہنے اس کے عین سامنے تھی۔ ان تین سالوں کی محرومیوں کے تمام جوابات مہتاب قمر آج اطیب عون سے مانگے گی۔

” میں نے تمہیں وارن کیا تو تھا!“ جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے وہ قدرے جھکا۔” مجھ سے دور رہو، ورنہ ایسا  غم دونگا پوری عمر  مجھ سے نفرت کروگی۔“ سرگوشی جو کمرے کی دیواریں کان لگا کر سن رہی تھی۔ سرگوشی جس میں مردہ دل سے نکلتی بدبو تھی۔  مہتاب کی نم مگر مضبوط نگاہوں میں جھانکتے کہا۔ وہ ٹوٹ چکی تھی، وہ جیت چکا تھا۔

موٹے ہونٹوں  کا کنارا اوپر کرتے مسکرایا اور سیدھا کھڑا ہوا۔

” تمہیں اگر مجھ سے اتنی ہی نفرت تھی تو رشتہ سے انکار کیوں نہیں کیا؟“ چلاتے ہوئے اسکی آواز کانپ اٹھی۔

” تمہیں کیا لگتا ہے ،نہیں کیا تھا انکار؟“ مہتاب سے بھی زیادہ اونچی آواز میں کہا۔ باہر ہوتے شور میں کسی نے ان دونوں پر توجہ نہ دی۔” ایک بار نہیں، دو بار نہیں، سو بار منع کیا تھا۔ نہیں کرنی تھی تم جیسی مصیبت سے شادی۔۔۔ مگر کسی نے میری سنی ہی  نہیں۔ “ کمر پر ہاتھ رکھے وہ کمرے کے بیچ میں کھڑا تھا۔ چیخنے کے باعث سفید رنگت لال ہو چکی تھی۔ مہتاب کا ضبط ہاتھ سے چھوٹا اور وہ  آنسو تواتر بہنے لگے۔ چہرے کی خشکی میں گھلتے آنسو عجیب  بےبس سا منظر تھا۔

”تو اس میں میرا کیا قصور تھا؟ “ویل چئیر پر ہی بیٹھے  اس نے دہائی دی۔ بے بسی، بچتاوا، ملال یہ تین الفاظ اس کا وجود حفظ کر چکا تھا۔ اطیب کا دماغ ہر گزرتے لمحے خراب سے خراب تر  ہو رہا تھا۔ آنکھوں میں بے پناہ طیش لیئے وہ اسکی طرف بڑھا۔

”تمہارا ہی تو قصور تھا۔“ طنزیا انداز ، آہستہ آواز۔” تم میرے ساتھ مل کر انکار کرتی تو میری جان چھوٹ جاتی تم سے۔ ویسے بھی تمہاری فیملی ہی فورس کر رہی تھی جلدی شادی کرو، جلدی شادی کرو۔“  اسکے جھکے سر سے ایک انچ دور کڑھے ہاتھوں کو ہلا کر مہتاب کے گھر والوں کی نقل اتاری۔

ہاری ہوئی لڑکی نے سر نہ اٹھایا۔ معلوم تھا حالت قابلِ ترس ہے  اور یہ بھی معلوم تھا سامنے والا شخص  ترس کھانے کی ہر صلاحیت سے ناپید ہے۔ صرف تب تک……… جب سامنے مہتاب قمر موجود ہو۔

”میں نے ہمیشہ کہا تھا مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں۔“ بہت دیر تک جب کمرے میں صرف مہتاب کے رونے کی آواز آتی رہی تو اطیب بےسہارا تھکے  ہوئے لہجے میں بولا۔” کبھی آئینہ میں خود کو دیکھا بھی ہے۔ مہنگے کپڑے اور پرفیوم لگا لینے سے انسان کے نین نقش نہیں بدلتے۔“  مہتاب  کی آنکھ سے نکلتے  آنسو اسکی گود میں گر رہے تھے۔

 ”میں نے تم سے وفا نبھائی تھی اطیب۔“کانپتا لہجہ اور  بھیگا دامن۔  ” میں نے تم سے محبت بھی کی تھی۔“نیلی آنکھوں والے مرد نے تھک کر منہ پر ہاتھ پھیرا۔ آواز میں حد درجہ بیزاری تھی۔

”تم نے محبت نہیں، خواہش کی تھی ۔“چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ ”میرے ساتھ کی  نہیں، میرے وجود کی ۔“

زہر اسکے کانوں میں انڈیلتے وہ  زیادہ دیررکا نہیں۔ مگر جب تک اس کی موجودگی رہی  مہتاب اندر ہی اندر اپنے دل کو کوستی نہ تھکی۔ اطیب آگے آیا اور دروازے کے ذریعہ  باہر نکل گیا۔ سر جھکائے وہ  اب ہچکیاں لے رہی تھی۔ چہرے پر گرتی لٹیں  جھول  رہی تھیں۔

کتنی ہی بےہنگم دھڑکنیں یونہی  زار و قطار رو کر اس نے گزار دی۔ کمرے میں موجود ہچکیوں کی رفتار میں فاصلہ آیا۔ آہستہ سے ہاتھ میں لگی آئی وی لائن کی ڈرپ کھینچ کر اتاری، حیرت انگیز تور   پر خون کی ایک بوندبھی  نہ نکلی۔

ہاتھ کا الٹا رخ  آنکھوں کے سامنے کیا۔ چہرہ ابھی بھی جھکا تھا مگر ہاتھ کی پشت  پر ایک نشان  نمایا   تھا۔ نیلی اور سرخ رگوں کے بیچ   بنا راستہ باقی ہاتھ کے مقابلہ رنگت میں ہلکا اور کھال بیٹھی ہوئی۔ یوں جیسے خون کی کمی ہو۔  پچھلے ایک ہفتہ سے زائد اس نے پٹیوں کی مدد سے ہاتھ  پر  ڈرپ جو چپکا  رکھی تھی۔

ہچکیاں آہستہ آہستہ تھمی، پہلے تین آئیں……. ( ہاتھ کی مدد سے چہرے پر آئے بال ہٹائے۔)

 پھر دو…………( گردن سیدھی کی اور بھیگا ہوا چہرہ دیکھا، آنکھیں لال، ناک سرخ، ماتھے کی رگ نمایا۔)

 پھر ایک آئی  جب کمفرٹر احتیاط سے گود میں سے اٹھایا۔ پاؤں میں پہنے ہلکے غلابی ملائم جوتے ہاسپٹل کے تازہ  دھلے فرش پر رکھے۔

وہ وجود آہستہ سے کھڑا ہوا۔ ایک پل کو لڑکھڑایا ضرور مگر ساتھ ہی سنبھل گیا۔ ہاتھ میں جکڑا کمفرٹر آہستہ سے  بیڈ پر اچھالا۔

اس کا قد کافی لمبا تھا۔ کم از کم پانچ فٹ نو انچ سے تو اوپر ہی ہوگا۔

مہتاب قمر اب اپنے ہی قدموں پر کھڑی تھی۔ گردن ایک مرتبہ بائیں گھمائیں پھر ایک بار دائیں۔ پچھلے ایک ہفتہ سے ایک ہی پوزیشن میں  بیٹھ کر اکڑ چکی تھی۔

ریڑھ کی ہڈی  پر ہاتھ رکھتے سیدھی  ہوئی ۔ بیچاری کی ہڈیاں    ہر جگہ  سے جامد تھی۔

ایک ہفتہ چار دن ۔تقریباً………… گیارہ دن وہ اسی ویل چئیر پر بیٹھی رہی ہے۔

ہاسپٹل کا لباس جھاڑتے اب وہ ٹی وی کی جانب آئی۔ جہاں کچھ دیر پہلے اس  کے  منگیتر نے ہاتھ ماڑا تھا وہاں سے ایک ننھا مائک نکالا۔ سیاہ چھوٹے  میٹل پیس کو ہاتھ میں ہی بلند کیا۔ لال بتی جل رہی تھی مطلب اس میں ریکارڈنگ بس گئی تھی۔  پرفکٹ!

(یہ منظر پھولوں سے سجاے ہال کا تھا جہاں نفیس صوفہ پر لڑکی لڑکا بیٹھے ایک دوسرے کو انگھوٹی پہنا رہے تھے۔ مہتاب نامی لڑکی انگھوٹی پہنا کر خوشی سے  شرمائی، اطیب نامی لڑکا انگھوٹی پہن کر ناگواری سے  بڑبڑایا۔)

اسی طرح خاموشی سے وہ سائڈ میز کی جانب آئی، جہاں سے اطیب نے تھوڑی دیر پہلے سیب اٹھایا تھا ۔اس سے زرا فاصلہ پر ایک اور مائک موجود تھا۔

(یونی ورسٹی کیفے ٹیریا میں  ایک طرف بیٹھی مہتاب آنکھوں میں چاہت کے جگنو لیئے دور لوگوں کی بھیڑ  میں مصروف  اپنے منگیتر کو دیکھ رہی تھی۔ سامنے رکھی آئس کریم مکمل پگھل  چکی تھی بس ایک اطیب کا دل نہیں پگھلتا تھا۔)

موٹے جوتوں کے باعث نہ فرش پر ان کا واضح نشان بن رہا تھا نہ اسکے قدم اٹھانے کی آواز پرشور تھی۔ سپاٹ چہرہ لیئے  وہ کمرے کے کونے میں آئی  جہاں وہ ڈسٹ بن رکھی تھی۔

اندر جھانکا۔ اطیب کے پھینکے سیب سے زرا فاصلہ پر میٹل کے ساتھ ایک اور مائک جڑا تھا۔

(رات کے وقت جہاں سارا شہر سویا تھا وہاں ایک پچیس سالہ لڑکی بڑی آس سے فون سکرین گھور رہی تھی۔ چہرہ نوٹیفیکیشن کی آواز پر ایک دم کھل کر گلاب کی طرح سرخ ہوا۔ اسکے 36 میسیجز کے جواب میں اطیب نے ایک ”اوکے“  لکھ کر بھیجا تھا۔ مہتاب بھی ڈھیٹ تھی بےعزتی پر مسکرائی اور ایک مرتبہ پھر ٹائپنگ کرنے لگی۔)

خالی چہرہ لیئے وہ جھکی اور کھینچ کر نکالا۔

تینوں کو ہتھیلی پر پھلایا۔

تینوں کی لال بتیاں وقفہ وقفہ سے روشن ہو رہی تھیں۔

تینوں میں اس کے منگیتر کا بیان قید ہو چکا تھا۔

پرفکٹ!

★…★…★


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?