کبھی کچھ کہانیاں ہمیشہ کے لیے ادھوری رہ جاتی ہیں کہ انکا اختتام مرتے دم تک نہ ممکن ہو جاتا ہے اور کبھی کچھ کہانیاں اپنے اختتام پر پہنچ کر ایک نئی کہانی کو جنم دیتی ہے ۔یونہی نئی کہانی کا آغاز پچھلی کہانی کے اختتام کو ایک خوبصورت انداز سے مکمل کرتا ہے ایسی ہی کچھ کہانی ” عالیہ ، زوریز۔۔۔ اور ارمینہ“ کی کہانی تھی جو اپنے اختتام کے باوجود ادهوری رہ گئی تھی۔ جھبی کہانی کے اس موڑ پر حنظلہ اور نیہان کی کھٹی میٹھی نوک جھوک سے بھر پور کہانی کا آغاز ہوا۔ ان دونوں کہانیوں کا آغاز جدا جدا ہے جبکہ اختتام ایک دوسرے سے جوڑا ہوا ہے۔
اس کہانی میں زندگی کے عجب رنگ ، تنہائی کا عذاب ، اولاد کی تڑپ ،محبوب سے جدائی کا کرب ،محبت کی تقسیم، روحانی تسکین ،عشق کی سزا ، موت کی لذت ، آزمائشوں سے راحت تک کا سفر، انسان کا اپنے اصل کی طرف لوٹنا اس دن کی طرف جب اللہ نے تمام روحوں سے اپنی اطاعت کا وعدہ لیا۔۔ دراصل اس پوری کہانی کا مرکز ومحور محبوبِ حقیقی یعنی اللہ کی ذات ہے بیشک جسکو فنا نہیں
دو لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا راز…کیا کردے گا ان کو جدا…یا لے آئے گا اور بھی قریب‘ عشق کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی آہلہ اور غلط فہمی میں جکڑے عائث کی کہانی
ناول “میں کندن ہوں مجھے جلنے دو” حرا طاہر کا ایک اردو ناول ہے جو گھریلو تشدد، خاندانی راز، اور غیر متوقع تعلقات کے گرد گھومتا ہے۔ کہانی نورین کی جدوجہد پر مرکوز ہے جو اپنے ظالم شوہر بہلول احمد کے ستم کا شکار ہے، جو اپنی بیٹی ہالہ کی تعلیم اور شادی کے معاملے میں اس پر ظلم ڈھاتا ہے۔ ہالہ اپنی نانی سیدانی بی کے گھر پناہ لیتی ہے، جہاں اس کا سامنا ابراہیم درانی سے ہوتا ہے، جو بعد میں فاروقی خاندان کے مسٹر فاروقی کا گُمشدہ بیٹا ثابت ہوتا ہے۔ ناول میں فاروقی خاندان کے اندرونی جھگڑے، وراثت کے تنازعات، اور کرداروں کی اپنی پہچان اور انصاف کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ کہانی رشتے، معافی، اور ماضی کے اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔
جو تقدر میں لکھا ہو اسے ہم نہیں بدل سکتے۔چاہے ہمارے آنسوؤں میں تاثیر ہو یا خلوص میں۔۔سیاہ کاریوں کی بھیڑ میں لاپتا اس انسان کی داستان جسے اندھیروں نے پہلے ہی چن لیا تھا۔
میں مسلمان ہوں روشن پروین کا ایک دل کو چھو لینے والا ناولٹ ہے، جو ایک ننھے سے بچے عمر کی آنکھوں سے اُمتِ مسلمہ کے جاگنے کی داستان سناتا ہے۔ فلسطین پر ظلم و ستم کی خبروں سے متاثر ہو کر عمر اپنے ایمان کی روشنی میں بیداری کی مہم چلاتا ہے۔ ایک سادہ سی تین لفظی تحریر سے شروع ہونے والی اس جدوجہد میں وہ اپنے عزم، دعا، اور اخلاص کے ذریعے بڑوں کو بھی جھنجھوڑ ڈالتا ہے۔
یہ کہانی معصوم جذبوں، دینی غیرت، خلوص، اور ایمان کی طاقت کا ایسا سفر ہے جو قاری کے دل میں جگنو کی طرح امید کی روشنی بکھیر دیتا ہے۔
یہ ناولٹ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک سچے مسلمان کے لیے عمر، طاقت یا وسائل نہیں، بلکہ نیت اور حوصلہ سب سے بڑی طاقت ہے۔
جہانداد خان اور اُدٸیانا کی بے مثال دوستی ، عریز علوی کی احترام بھری محبت کی داستان اور کچھ زندگی کےمزاحیہ رنگ کہ زندگی کے زندہ ہونے کا گمان ہو۔کسی بکھرے وجود کی کرچیاں سمیٹنے والے مہربان کی کہانی۔
ایسے دو پیار کرنے والوں کی کہانی جس کے درمیان چھوٹی سی غلطفہمی کی وجہ سے دوری آجاتی ہے پر پیار کم نہیں ہوتا دل کے کسی کونے میں محبت کا پودا کِھلا ہوا ہوتا ہے۔