یہ کہانی ایسے کزنز پر ہے جن میں کچھ شوق مزاج کے مالک ہیں اور کچھ سنجیدگی کے دلدادے۔ کچھ لڑاکے سے ، کچھ محبّت بانٹنے والے۔ کچھ گھر میں رونق پھیلانے والے۔
یہ کہانی ہے ایک چنچل سی لڑکی کی جو خواب میں ڈر جایا کرتی تھی۔ ایک ایسے ہیرو کی جو ہیروئن کو پسند کرنے کے باوجود اس سے لڑنے کی چاہ میں رہتا تھا۔ اک ایسی لڑکی کی جس نے خود کے ٹھکرائے جانے کے بعد بھی کوئی گلہ نہ کیا تھا۔
مفلحون ہوتے ہیں وہ جنہیں یقین ہوتا ہے کہ حقیقی فلاح فیصلے کے دن کی فلاح ہے ۔ وہ خدا کے ہر کام میں مصلحت ڈھونڈتے ہیں ۔ انھیں کی گئی کسی چیز پر کوہ میں ہوتا ۔ وہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہوتے ہیں ۔ انھیں جو میسر ہو اسی میں خیر طلب کرتے ہیں ۔
یہ کہانی ہے انتقام اور محبت کی۔ مناہل سکندر، ایک ایسا کردار جو انتقام کی بھینٹ چڑھ کر اپنی محبت اور سب رشتوں کو کھو دیتی ہے۔ شایان خان، وہ کردار جو اپنے انتقام کی تکمیل کی خاطر اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹ کو پیروں تلے کچل دیتا ہے۔ یہ کہانی کمزور محبت اور ماضی سے جڑے رشتوں کی راز کھولے گی۔ کیا محبت ، انتقام سے جیت پاۓ گی؟ یہ جاننے کے لیۓ پڑھئیے شایان اور مناہل کی زندگی کا سفر
”نہ پھوپھو کا پتہ معلوم ہے، نہ ان کا نمبر یاد رہا اور چل پڑی تہزیب بی بی، پھوپھو کے گھر چھاپہ مارنے کاش! میرا بھی کوئی منکوحہ جہان سکندر جیسا ہوتا، جو میرا سایہ بن کر میرا پیچھا کرتا، مجھے غیر محفوظ راہوں سے بچانے اپنا فرائی پین لے کر پہنچ جاتا۔“وہ خود کو کوس رہی تھی۔ اسے کیا سوجھی کہ ماموں کے بغیر تنہا سفر کرنے نکل پڑی، جبکہ وہ جانتی تھی کہ حقیقت میں کوئی جہان سکندر اسلام آباد میں اس کا منتظر نہیں تھا۔
”تمیزدار رولر کوسٹر!“ تبھی کسی نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔ داؤد کا چہرہ اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر اس کا دل رو دینے کو چاہا۔
”تہزیب حمزہ نام ہے میرا۔“دانت پیستے ہوئے اپنا بیگ سنبھالتے وہ پیچھے مڑی۔
” رکو، کہاں جا رہی ہو، چڑیل؟“ اپنے پیچھے اسلام آباد کے شہزادے کی پکار پر وہ رکی۔
”کسی پہاڑ سے کودنے۔۔۔بتا دیجیے، کون سا سب سے بلند ہے تاکہ سہولت سے یہ کام سرانجام دے پاؤں۔“
بغیر پلٹے وہ جل کر بولی۔
”ابھی ہم اسلام آباد والے اتنے بےمروت نہیں ہوئے کہ اپنی دہلیز پر آئے مہمانوں کو یوں خودکشی کا ویزا دینے لگیں۔“وہ مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا۔