عصمت گروں کی کہانی جو ایک تكون کے گرد طواف کرتی ہے۔
تکون کے تینوں کردار آپ کو اپنے اپنے حصے کی جنگ لڑتے دکھائی دیں گے۔ جنگ یا جہاد۔۔ کوشش یا مزاحمت۔۔ اسٹراگل یا سروائیول!
اپنے گناہوں کی آلودگی سے،
ماضی کے غم سے یا
مستقبل کے خوف سے۔
اِس جنگ کا انجام کیا ہوگا؟
انجام کو چھوڑیں_ آغاز پر توجہ دیں۔۔۔
“کیونکہ زندگی… اُنہی کی ہوتی ہے۔۔ جو اُس سے لڑنا جانتے ہیں!”
یہ کہانی ہے عروج سے زوال کی
محبت سے بے وفائی کی، زندگی اور موت کی
سب پا لینے کے لالچ اور دولت کی حوس کی
کسی کی بے بسی کی تو کسی کی بے حسی کی
محبت کی خاطر سب سے لڑ جانے کی
اور اپنی ہی محبت کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دینے کی۔۔۔
داستانِ عشق ایک راز، انتقام اور محبت کی داستان ہے، جہاں زایان درویش، ایک بے رحم مافیا ڈان،
اپنے ماضی کے اندھیروں میں قید ہے۔ سیہر حیات، ایک باہمت ڈاکٹر، اس کی زندگی میں روشنی بن کر آتی ہے۔
لیکن جب محبت اور بدلے کا ٹکراؤ ہوتا ہے، تو کیا زایان اپنے زخموں سے نجات پا سکے گا،
یا ماضی کا سایہ ان کی محبت کو برباد کر دے گا؟
یہ کہانی ہے فلسطین کی جہاں ایک چھوٹا بچہ جنم لیتا ہے اسکا باپ اور دادا مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرتے شہید ہو جاتے ہیں اور جب مہدی جنم لیتا ہے تو اسکی ماں اسے مسجد اقصیٰ کے بارے میں بتاتی ہے جس سے وہ ایک سپاہی بن جاتا ہے اور مسجد اقصیٰ کے لیے لڑتا ہے۔۔۔
یہ کہانی ہے لاہور کی ایک معصوم لڑکی کی جو بہترین رائٹر تھی وہ روز فلسطین پر ہونے والے ظلم کو دیکھ کر انکے لیے دعا کرتی تھی لیکن ایک دن اس نے اپنے رائٹر ہونے کا حق ادا کیا اور فلسطین کے لیے لکھنا شروع کیا۔۔۔ جس سے مہدی ہو کبھی کبھی اپنی ہمت ہارتا محسوس کرتا تھا اسے اس ارٹیکل اور ناول کو دیکھ حوصہ ملتا تھا کہ انکے ملک کے لیے کوئی ہے جو اواز اٹھائ رہا ہے۔۔۔ اور پھر یہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔۔۔ دوستی کا ایک گمنام محبت کا جہاد کا ۔۔۔
حب یعنی محبت۔۔۔کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی سے ہو ہی جاتی ہے۔اور دل۔۔۔کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی کا ٹوٹ ہی جاتا ہے
محبت کا ہونا اور دل کا ٹوٹنا ایسے ہے جیسے زندگی کا ہونا اور پھر موت آجانا،بہار کا ہونا اور پھر خزاں آجانا۔
یہ کہانی کچھ انہیں طرح کے پہلوؤں کے گرد گردش کرتی ہے۔۔۔محبت،نفرت اور انتقام۔۔۔جہاں محبت میں قرب کی طلب ہوتی ہے وہیں نفرت میں انتقام کی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس محبت،نفرت اور انتقام کی جنگ میں جیت آخر کس کی ہوتی ہے۔
یہ کہانی ہے دو ایسی روحوں کی جو دنیا میں آ کر بھٹک چکی تھیں، اپنا طے شدہ مقصد بھول کر مزین کردہ دنیا میں کھو گئیں تھیں۔ کیا وہ اپنا اصل پہچان کر مقصدِ زیست حاصل کرنے چل پڑیں گی یا دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیں گی؟