یہ وہ کہانی ہے جہاں راجہ اور رانی کو آپکو تلاش کرنا ہے میں نے اِن سب کو مہرے کہا ہے۔
کچھ کہانیاں صرف درد سے بھری ہوتی ہیں
اُن میں مرہم رکھنے والے کم ہوتے ہیں
اُن میں چالیں زیادہ ہوتی ہیں
اُن میں انتقام ہوتا ہے
اُن میں نفرت ہوتی ہے
اُن میں بس ہر ایک استعمال ہوتا ہے
اُن میں سب بس کلنک بن کر رہ جاتے ہیں
اور جو بچ جاتے ہیں وہ زندہ نہیں رہتے
ایسی کہانیوں کا اختتام بس موت ہے
صرف موت
یہ کہانی ہے ملاحہ عالم کی ، پرعزم ، خود اعتماد ، مستقل مزاج اور مضبوط کردار کی حامل ایک ایسی لڑکی کی جو بچپن سے زندگی کی سختیوں کو ثابت قدمی اور بہادری کے ساتھ برداشت کرتی آرہی ہے۔۔۔ یہ کہانی ہے عشارب ملک کی۔۔۔ جزباتی اور انا کے پیکر ایک ایسے نوجوان کی ۔۔۔ جس کی زندگی اسے ایک لڑکی کے آنے سے اپنا ایک نیا رخ متعارف کرواتی ہے ۔۔۔ یہ کہانی ہر رمضان المبارک کے مہینے سے دو لوگوں کی زندگیوں کے بدلنے کی ۔۔۔ وہ دو لوگ جو اپنی اپنی انا کا تاج اپنے سروں پر سجاۓ پھرتے ہیں اور پھر رب کے کن سے ٹوٹتے ہیں گرتے ہیں مگر اس خوبصورتی سے قسمت ان دونوں پر رشک کرتی ہے۔
انا کے زوال سے لے کر محبت کے خوبصورت رنگوں سے آشنائی کی ۔۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت داستان
مارسیل کی گہری پرکشش عمارتوں کی فرہنگ میں سے ایک داستان کی شروعات ہوتی ہے۔۔مارسیل کی حیرت انگیز بناوٹ دیکھنے والے کو الگ ہی دنیا میں لے جاتی ہے۔فرانس کا یہ شہر جہاں صرف ظلم و زیادتی ،گناہ اور خوف کا راج تھا ۔مارسیل ایک اسلامی اور کرائم مافیا بیسڈ ناول ہے۔ جو ایک چھ سالہ بچی “دُرِ فاحا قریشی ” کی کہانی بیان کرتا ہے، جو اپنے خاندان کے بے رحمانہ قتل کے بعد ایک سخت گیر مگر پراسرار لڑکے حنیٰ کے ساتھ زندگی کے نئے راستے پر نکلتی ہے۔ ظلم، انتقام، قربانی اور ایمان کی روشنی میں لپٹی یہ کہانی جذبات، سسپنس اور غیر متوقع موڑ سے بھرپور ہے۔ کیا فاحا اپنی کھوئی ہوئی زندگی اور خوشیاں واپس حاصل کر پائے گی؟ کیا حیان سکندر اپنی نفرت اور تلخی کے حصار سے باہر آ سکے گا؟ کیا زیان قریشی کو اس کے بچپن کی محبت مل پائے گی ؟سامنے آئے گا یتیموں پر ظلم و جبر کرنے والوں کا انجام۔۔۔!!
“یہ کہانی ہے ایک ایسے انسان کی جو کفر کی تاریکیوں سے نکل کر ہدایت کے نور میں ڈھل جاتا ہے…”
کہانی ملک کے رکھوالعوں کے گرد گھومتی ہے کہانی کسی ایک شخصیت کا تعاقب نہیں کرتی بلکہ یہ مختلف کرداروں کا مجموعہ ہے جو اپنے آپ میں اہم ہے۔ کہانی ہے کرنل جبرئیل کی سربراہی کی زارا جبرئیل کے ساتھ کی میرال خان کی شخصیت کے بھول بھلیوں کی عنصب جہانگیر کی بہادری کی شامیراسامہ کی محبت کی اروا شمس کی پاکیزگی کی ایس کے کی قید کی روپا دیوی کے عشق کی اور صدام حیدر کے انتقام کی ماضی کے دریچوں میں دوبے ان رازوں کی جو کھل کر بہت سی حقیقتیں نگل لیتے ہیں۔ دہلیز کے پار وہ کہانی ہے انصاف کی ملک کی خاطرجان دینے کی اور لڑ کر فتح یاب ہونے کی۔۔۔
“Ramadan Special Series: A Journey Within” is a heartfelt collection of stories designed to inspire self-reflection and spiritual growth during the holy month of Ramadan. Through meaningful lessons and relatable experiences, this series encourages readers to reconnect with their faith, seek forgiveness, and strive for a better version of themselves. In a world where distractions often pull us away from our purpose, these stories serve as a gentle reminder to embrace the essence of Ramadan and make the most of this sacred time.
حب یعنی محبت۔۔۔کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی سے ہو ہی جاتی ہے۔اور دل۔۔۔کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی کا ٹوٹ ہی جاتا ہے۔
محبت کا ہونا اور دل کا ٹوٹنا ایسے ہے جیسے زندگی کا ہونا اور پھر موت آجانا،بہار کا ہونا اور پھر خزاں آجانا۔
یہ کہانی کچھ انہیں طرح کے پہلوؤں کے گرد گردش کرتی ہے۔۔۔محبت،نفرت اور انتقام۔۔۔جہاں محبت میں قرب کی طلب ہوتی ہے وہیں نفرت میں انتقام کی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس محبت،نفرت اور انتقام کی جنگ میں جیت آخر کس کی ہوتی ہے۔
“سرحد پار” ایک دل کو چھو لینے والی پاکستانی-ہندوستانی رومانوی کہانی ہے، جو محبت، قربانی اور جدوجہد کے پیچیدہ اور گہرے جذباتی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ کہانی ایک کراچی کی صحافی اور دہلی کے ایک سائبر سیکیورٹی ماہر کی ہے، جن کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہے، مگر وہ ثقافتی، مذہبی اور سماجی رکاوٹوں کے بیچ میں اپنی محبت کو تلاش کرتے ہیں۔ دونوں کا رشتہ ایک طویل اور کٹھن سفر پر گامزن ہے، جہاں محبت کے جذبے کے باوجود، دونوں کو اپنی اقدار، خوابوں اور خاندانوں کی توقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی محبت کی راہ میں مشکلات ہیں، مگر یہ انہیں ایک نئی زندگی اور خود شناسی کی طرف لے جاتی ہے۔
یہ کہانی ہر اُس شخص کی ہے جس نے کبھی دل سے محبت کی، اور پھر ناکامیوں کا سامنا کیا۔ یہ اُن کے لیے ہے جو خود کو کھو کر دوبارہ کھڑا ہونے کی طاقت تلاش کرتے ہیں، اور اُن کے لیے بھی جو اپنی تقدیر کے فیصلوں کا سامنا کرتے ہوئے محبت کی اصل حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ “سرحد پار” ایک سفر ہے جو دلوں کی سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور زندگی کی پیچیدگیوں میں سے سچی محبت کا راہ تلاش کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے ہم شکل کو دیکھنے والا پہلا انسان مارا جاتا ہے یا اسے ایسی بیماری لگ جاتی ہے جو اسے ختم کر دیتی ہے۔
عملِ زوال۔
اس سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی۔ اس بات سے لاعلم کہ وہ واقعی ایمان جاوید ہے، جیسے سب اسے کہتے ہیں، یا کوئی اور، وہ خود سے نفرت کرنے والوں کی دنیا میں ایک قدم رکھتی ہے۔
امرِ محال۔
وہ ایک بلیک میلر تھی، یا اس سے ایسا بتایا جاتا ہے۔ مغرور، پیسے کی حوس رکھنے والی لڑکی جس کا خاندان اس سے ایک ایک کر کے چھین لیا گیا۔
سیاہ کار۔
مومن ابرار ایک جھوٹا تھا، یا ایمان کو ایسا لگتا تھا۔ اپنی بہن کی موت کی وجہ کھوجتا، اپنی زندگی سے اکتایا ہوا پینٹر اور لائر، مومن اس پر بھروسہ نہیں کرتا۔ نفرت یا محبت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
قیدِ تحفظ۔
اس سب کے درمیان، ایک تیسرا شخص ہر کڑی کو ملانے اور سب ملی ہوئی کڑیوں کو گھمانے کے لیے ان دونوں کے راستے میں کھڑا ہے۔ اور وہ اس بات سے لاعلم ہیں، کجا کہ یہ شخص ان کے ساتھ ہے، یا ان کے خلاف۔
قَلَق ایک سفر ہے ؛ محبت پا لینے سے کھو دینے تک کا سفر۔ اس میں پانچ مرکزی کردار ہیں داؤد محمود ، اُس کا خالہ زاد بھائی ریّان قاسم ، اَمر فاطمہ ، امر کا ساتھی حسن اور ریّان کی منگیتر مناہل مصطفیٰ۔ تمام کزنز ایک دوسرے کے ساتھ بہت گھلے مِلے ہوتے ہیں۔ اُن میں کسی شے کا پردہ نہیں۔ داؤد امر کو پسند کرتا ہے لیکن اُسے اِس بات کا احساس نہیں ہوتا اور جب یہ محسوس کرتا ہے کہ امر کے بغیر اُس کا کوئی وجود نہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔خوشیوں سے زندگی گزارتے اِس خاندا میں ایک طوفان سب کو ہِلا کر رکھ دے گا۔
بڑوں کی مرضی سے ریِّان اور مناہل کا رشتہ ہوتا ہے لیکن اُن کے نکاح والے دن امر غائب ہو جاتی ہے جس پر داؤد اُس کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ہر شخص بے چین و بے سکون ہو گا اور بے سکونی ہی قَلَق ہے۔ کہانی میں ایسا سسپنس اور پیچیدگیاں ہیں کہ اِسی وقت کے ساتھ ساتھ ہم پر امر اور حسن کی زندگی کے متعلق بہت سے انکشاف ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر گُتھی سلجھتی جاۓ گی اور یہ سفر اپنی منزل کو پہنچ جاۓ گا۔ یہ منزل سب کا انتظار تو ختم کر دے گی لیکن کیا سب کے اندر کا قَلَق ختم کر پاۓ گی؟ قَلَق صرف دو لوگوں کی داستان نہیں بلکہ یہ ہر اُس شخص کی کہانی ہے جو اپنی محبت کی جنگ لڑتے لڑتے اپنی منزل پا لیتا ہے خواہ پھر وہ شہید ہو یا غازی۔
قَلَق ایک سفر ہے ؛ محبت پا لینے سے کھو دینے تک کا سفر۔ اس میں پانچ مرکزی کردار ہیں داؤد محمود ، اُس کا خالہ زاد بھائی ریّان قاسم ، اَمر فاطمہ ، امر کا ساتھی حسن اور ریّان کی منگیتر مناہل مصطفیٰ۔ تمام کزنز ایک دوسرے کے ساتھ بہت گھلے مِلے ہوتے ہیں۔ اُن میں کسی شے کا پردہ نہیں۔ داؤد امر کو پسند کرتا ہے لیکن اُسے اِس بات کا احساس نہیں ہوتا اور جب یہ محسوس کرتا ہے کہ امر کے بغیر اُس کا کوئی وجود نہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔خوشیوں سے زندگی گزارتے اِس خاندا میں ایک طوفان سب کو ہِلا کر رکھ دے گا۔
بڑوں کی مرضی سے ریِّان اور مناہل کا رشتہ ہوتا ہے لیکن اُن کے نکاح والے دن امر غائب ہو جاتی ہے جس پر داؤد اُس کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ہر شخص بے چین و بے سکون ہو گا اور بے سکونی ہی قَلَق ہے۔ کہانی میں ایسا سسپنس اور پیچیدگیاں ہیں کہ اِسی وقت کے ساتھ ساتھ ہم پر امر اور حسن کی زندگی کے متعلق بہت سے انکشاف ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر گُتھی سلجھتی جاۓ گی اور یہ سفر اپنی منزل کو پہنچ جاۓ گا۔ یہ منزل سب کا انتظار تو ختم کر دے گی لیکن کیا سب کے اندر کا قَلَق ختم کر پاۓ گی؟ قَلَق صرف دو لوگوں کی داستان نہیں بلکہ یہ ہر اُس شخص کی کہانی ہے جو اپنی محبت کی جنگ لڑتے لڑتے اپنی منزل پا لیتا ہے خواہ پھر وہ شہید ہو یا غازی۔
یہ ان لڑکیوں کے لیے ہے جن کو لگتا ہے محبت اور محبت کی شادی کے بعد زندگی میں کوئی غم نہیں رہتا۔ کم عمر لڑکی اور لڑکے کی دوستی سے محبت اور محبت سے ملن تک کی کہانی جس میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ ان لڑکیوں کے لیے ہے جن کو لگتا ہے محبت اور محبت کی شادی کے بعد زندگی میں کوئی غم نہیں رہتا۔ کم عمر لڑکی اور لڑکے کی دوستی سے محبت اور محبت سے ملن تک کی کہانی جس میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔