اس ناول کا مختصر حصہ حقیقت پر مبنی ہے جبکہ سارے کردار فرضی ہیں۔ قاری کو رائیٹر کے کچھ خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ ناول اس معاشرے کے دوغلے پن کو کھول کر سامنے لائے گا جس میں والدین کا اپنی اولاد اور دوسرے کی اولاد کے ساتھ کیا جانے والا امتیازی سلوک ہے۔ اس ناول کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے۔
یہ ایک فرضی کہانی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اسے فرضی کہانی کی طرح ہی پڑھا جائے۔۔اس میں بہت سے سینز ایسے ہوں گے جو کہ آپ کو تب تک فضول لگیں گے جب تک کہ آپ ان کو سمجھ نہ لیں۔۔اس ناول میں موجود ہر ٹاپک کو لکھنے کے پیچھے کوئی مقصد ہے اور جو وہ سمجھ جائے وہی عقل مند ہے۔۔علاوہ ازیں جب تک کہانی مکمل نہ ہو جائے اس کے بارے میں کوئی رائے اختیار نہ کریں کیونکہ آخر میں آپ کو پچھتاوا ہو سکتا ہے۔۔یہ کہانی راستوں کو پہچاننے کی ہے۔۔ان راستوں کو پہچاننے کی کہانی جہاں ہمیں جانا تھا مگر ہم بھٹک گئے تھے۔۔
یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی
جو عام شکل و صورت کی تھی
جسے اس کی آنکھیں خوبصورت بناتی تھیں
جسے اس دنیا نے جینے نہیں دیا
جس نے اس ظالم دنیا کا سامنا کیا
جو ہمت ہار بیٹھتی تھی
جس نے ہمت کا مطاہرہ کیا
ممکنات کی رسی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ نصیب پر قلم بس اسی کا چلتا ہے ۔وہ بے شمار محبت کرنے والی ذات ہے اور بے حد خوبصورت چیز ہمارے نصیب میں لکھتا ہے بس اس کو تلاش کرنا ہمارا کام ہے۔اس بات کو واضح کرنے کیلیے یہ کہانی لکھی گئی ہے
یہ میری زندگی کی پہلی کتاب ہے۔یہ ناول میرے خیالات اور کچھ خواب ہیں جنہیں میں نے الفاظوں میں ڈھلا ہے۔یہ کہانی ہے۔کہیں پہروں سے گزر نے والی خولہ جلال اور خضر جہان صالک کی۔یہ کہانی ہے بہادروں کی۔کہانی ہے شیطان سے آدم کی جنگ کی۔یہ کہانی ہے دو دنیاؤں کی یا شاید ایک ہی دنیاں میں رہنے والے مختلف لوگوں کی۔یہ کہانی ہے ماضی کی غار سے خود کو نکالنے والے بہت سے جنگجوؤں کی۔
اس ناول کا مختصر حصہ حقیقت پر مبنی ہے جبکہ سارے کردار فرضی ہیں۔ قاری کو رائیٹر کے کچھ خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ ناول اس معاشرے کے دوغلے پن کو کھول کر سامنے لائے گا جس میں والدین کا اپنی اولاد اور دوسرے کی اولاد کے ساتھ کیا جانے والا امتیازی سلوک ہے۔ اس ناول کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے ہم شکل کو دیکھنے والا پہلا انسان مارا جاتا ہے یا اسے ایسی بیماری لگ جاتی ہے جو اسے ختم کر دیتی ہے۔
عملِ زوال۔
اس سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی۔ اس بات سے لاعلم کہ وہ واقعی ایمان جاوید ہے، جیسے سب اسے کہتے ہیں، یا کوئی اور، وہ خود سے نفرت کرنے والوں کی دنیا میں ایک قدم رکھتی ہے۔
امرِ محال۔
وہ ایک بلیک میلر تھی، یا اس سے ایسا بتایا جاتا ہے۔ مغرور، پیسے کی حوس رکھنے والی لڑکی جس کا خاندان اس سے ایک ایک کر کے چھین لیا گیا۔
سیاہ کار۔
مومن ابرار ایک جھوٹا تھا، یا ایمان کو ایسا لگتا تھا۔ اپنی بہن کی موت کی وجہ کھوجتا، اپنی زندگی سے اکتایا ہوا پینٹر اور لائر، مومن اس پر بھروسہ نہیں کرتا۔ نفرت یا محبت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
قیدِ تحفظ۔
اس سب کے درمیان، ایک تیسرا شخص ہر کڑی کو ملانے اور سب ملی ہوئی کڑیوں کو گھمانے کے لیے ان دونوں کے راستے میں کھڑا ہے۔ اور وہ اس بات سے لاعلم ہیں، کجا کہ یہ شخص ان کے ساتھ ہے، یا ان کے خلاف۔
افسانوی دنیا میں ایک نیا اضافہ “محرم”، یہ کہانی ہے ڈھیروں رنگارنگ کرداروں کی، سہگلز اور انکی محبتوں کی، یہ قصہ ہے حالات سے جنگ لڑکی ہوئی مشل یوسف کا، یہ داستان ہے عشوینہ کی ضد اور عجوہ سہگل کی پاکیزگی کی..
ہمسفر جسے پاک ذات نے ہمارے لیے چن لیا ہو، اس کے جملہ حقوق ہمارے ہاں محفوظ کر دیے ہوں. زندگی کے سفر میں ہمسفر کا ہونا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی ہمراہی بھی اہمیت کی حامل ہے۔
اور پھر اس ہمسفر کا ساتھ ہم نہیـــں جانتے کہ وہ ہمارے حق میں بہتر بھی ہے کہ نہیـــں…؟
تو پھر یاد رکھو کہ جیسا مرد ہوگا ویسی عورت ملے گئی.
یہ کہانی ہے “فاطق مراد” کی جسے ایک قدم رکھنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے اور دوسری طرف بنا سوچے سمجھے زندگی کے ہر پل کو ایڈونچر سمجھ کر گزارنے والی، ضدی اور نکچڑی “حدیقہ بتول” کی۔
انسان مکمل کب ہوتا ہے۔۔؟ یہ تو ہمسفرکی ہمراہی ہے جو اس کے نامکمل کو بھی مکمل کر دیتی ہے۔
یہ ایک فرضی کہانی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اسے فرضی کہانی کی طرح ہی پڑھا جائے۔۔اس میں بہت سے سینز ایسے ہوں گے جو کہ آپ کو تب تک فضول لگیں گے جب تک کہ آپ ان کو سمجھ نہ لیں۔۔اس ناول میں موجود ہر ٹاپک کو لکھنے کے پیچھے کوئی مقصد ہے اور جو وہ سمجھ جائے وہی عقل مند ہے۔۔علاوہ ازیں جب تک کہانی مکمل نہ ہو جائے اس کے بارے میں کوئی رائے اختیار نہ کریں کیونکہ آخر میں آپ کو پچھتاوا ہو سکتا ہے۔۔یہ کہانی راستوں کو پہچاننے کی ہے۔۔ان راستوں کو پہچاننے کی کہانی جہاں ہمیں جانا تھا مگر ہم بھٹک گئے تھے۔۔
یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی
جو عام شکل و صورت کی تھی
جسے اس کی آنکھیں خوبصورت بناتی تھیں
جسے اس دنیا نے جینے نہیں دیا
جس نے اس ظالم دنیا کا سامنا کیا
جو ہمت ہار بیٹھتی تھی
جس نے ہمت کا مطاہرہ کیا