زخرف اعجاز کے دل کی گہرائی میں کون کون سے راز چھپے ہوئے ہیں یہ جاننا منصور کے لیے سہل نہ تھا۔اس کے لیے تو وہ خود ایک سربستہ راز تھی جواپنوں کی خاطر ایک کڑی مسافت طےکر رہی تھی۔ جسےعلم نہ تھا کہ منزل کی تلاش میں وہ ایک سراب کا تعاقب کر رہی ہے
شرافت کے شجرے کسی کے ماتھے پر سجے نہیں ہوتے نہ ہی نجابت کسی کی میراث ہے مگر عمر کی محبت کو نجیب الطرفین ہونے کی کسوٹی پر پورا اترنا تھا جسے کیچڑ میں کھلے ایک کنول نے اسیر کر لیا تھا
کہتےہیں جتنا چھانو گے اتنا ہی کرکرا نکلے گا-بعض اوقات خوب سے خوب تر کی تلاش میں انسان اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت بھی گنوا دیتا ہے لیکن آذر کے ایک فیصلے نے بہت سوں کا نقصان ہونے سے بچا لیا تھا
اکثر اوقات انسانی نفسیات کے سرے کچھ منفی رویوں کے باعث یوں الجھ جاتے ہیں کہ پھر رشتوں کو نبھانے کا ہنر تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے ایسے میں کسی پر خلوص انسان کا ساتھ ہی ان الجھی ڈوریوں کو سلجھا سکتا ہے
یہ کہانی ہے صرف ایک کردار کی۔ ایک لڑکی جس کا نام شوال فاطمہ ہے۔ وہ ایک ایسی زندگی کی تلاش میں ہے، جہاں آسائشیں ہوں، سکون ہو۔ قدرت اُسے دو راستے دیتی ہے۔۔۔ چُناؤ اُسکے ہاتھ میں ہے۔ مگر کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ ہمارا چُنا ہوا راستہ ہی ٹھیک راستہ ہو؟ ہاں یہ ضروری ہے کہ ہر بُرا راستہ پچھتاوے کے نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے۔
ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے محبت کی خاطر اپنا گھر اور والدین چھوڑ دیے اپنے لیے خود رسوائی کا رستہ چُن لیا محبت کرنا جرم نہیں لیکن نامحرم کی محبت میں ماں باپ کو رسوا کر دینا انسان کو زندگی بھر کی رسوائی کا سامنہ کرواتا ہے۔۔
یہ کہانی چار کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ چار کردار آپ کو یہ بتائیں گے کہ کس طرح اپنے آپکو قبول کرکے آگے بڑھا جاتا ہے۔ اس کہانی کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا کہ کوئی شخص پرفیکٹ نہیں بنایا گیا۔ ہم سب مختلف کمزوریوں کے ساتھ بنائے گئے ہیں۔ اور یہی زندگی کی خوبصورتی ہے۔
یہ عید اسپیشل ناول آپ کے لیے لکھا گیا ہے جس میں خوشی اور غمی کے پہلو دیکھاۓ گئے ہیں عید پر ہونے والے حادثے کے حوالے سے ایک خوبصورت سبق بھی موجود ہے امید ہے قارئین کو بھروسہ اور اعتبار کے رشتوں پر مبنی میرا یہ ناول پسند آئے گا ۔
یہ کہانی ہے سانولی اور اس کی ماڈرن دادی پروین بیگم عرف ایم ڈی کی۔ جن کا بقول انکے اس دنیا میں صرف ایک ہی مقصد ہے۔ سانولی اور اس کا رشتہ!! اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بیل کس منڈھے چڑھتی ہے۔
یہ کہانی بہت عام ہے. ہر دوسرے خاندان میں یہ مسائل مل جاتے ہیں. افسوس کے ساتھ ہمارے معاشرے میں کئی عرشیہ موجود ہیں جو بیٹی ہونے کے جرم میں سزا سہتی ہیں. کئی افنان ہیں جنھیں ماں باپ کی شفقت نہیں مل رہی. سب اپنے خول میں بند ہوتے دنیا سے دور ہو رہے ہیں .معاشرے کے فرسودہ خیالات لوگوں کی زندگیوں سے خوشیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں