یہ کہانی ہے ایک ایسے لڑکے کی جو مایوسی کے دلدل میں پھنسے ہوۓ تھا پھر خدا نے اسے ہدایت دی یہ کہانی ہے دوستوں کی یہ کہانی حسین یوسف کی یہ کہانی ہے یوسف کی نور کی یہ کہانی ہے یوسف اور نور کی ۔
یہ کہانی ہے محبت کی محبت سے عشق کی اور عشق سے کہیں آگے کی یہ کہانی ہے ادریس رحمان احمد اور صالحہ بشارت عیسیٰ مجیب احمد اور ذیشاں بشارت اور یوسف سعد اور سدرہ رحمان احمد کی
یہ کہانی ہے دو خود مختار انسانوں کی خود آگہی کی۔ جن کو ان کی تقدیر ایک ساتھ لے آئی۔ جب کہ ان کے خواب کچھ اور تھے۔ آگہی کے سفر کی مشکلیں ان کو ایک دوسرے کے قریب لے آئیں۔ اور انہوں نے جانا کہ بعض دفعہ سکون تو ہمیں پہلے ہی عطا کر دیا گیا ہوتا ہے جبکہ ہم اس کو ڈھونڈنے میں خود کو تھکا رہے ہوتے ہیں ۔
رامین سکندر نامی ایک لڑکی جو لے پالک ہے لیکن اسے معلوم نہیں بعد میں اس کی منگنی کے دن اسے پتہ چلا اور اس کے منگیتر نے اسے صرف جائیداد کے لیے چھوڑ دیا جس کے بعد وہ بہت دکھی تھی پھر وہ اور اس کی دوست ملیحہ بیچلرز کے لیے لاہور چلی گئیں۔ اور جہاں وہ اپنی دوست ملیحہ کے بھائی یزدان ملک کے بارے میں سوچنے لگتی ہے
لاہور میں ایک نامعلوم شخص نے اسے بہت سے خطوط بھیجے پھر بیچلر کے بعد وہ واپس اسلام آباد چلی گئی جہاں اس کی شادی اس کے دوست کے بھائی کے ساتھ ہو گئی اسے لگتا ہے کہ وہ اس کی دوست کا دوسرا بھائی معید ہے یزدان نہیں بلکہ نکاح پر اس کی دوست ملیحہ اسے بتاتی ہے کہ یزدان وہ شخص تھا جس نے اسے خطوط لکھے اور نکاح کے بعد جب وہ اس سے ملی تو پتہ چلا کہ وہ یزدان ہے معید نہیں
اگر کوئی کہانی اور اُس کے موضوع پر غور کرے گا تو حقیقتا ًمیرے بات کی تہہ تک رسائی حاصل کر لے گا۔ ہمارے معاشرے میں کئی جگاہوں پر آج بھی غیرت کے نام پر قتل،بلی چڑھ جانا،خودکشی جیسے مسائل عام ہیں اور اس میں بھی کثیر تعداد عورتوں کی ہوتی ہےفقط صرف ایک چیزوں کی کمی کی بدولت اور وہ ہے بھروسہ۔ اب شاید اکثر لوگ میری اوپر کی گئی بات سے اختلاف رکھیں گیں مگر آپ اگر توجہ دیں تو یہ سب کچھ آج بھی بہت عام ہے۔ اب لوگ بولیں گیں کہ ہر بار عورت ٹھیک نہیں ہوتی پر میں یہاں اقلیت کی نہیں بلکہ اکثریت کی بات کر رہی ہوں ایک بار کھلے دماغ سے غور و فکر ضرور کیجئے گا۔ برحال کہانی کے دو کردار ہیں عون اسحاق اور زینہ بتول۔میرے نزدیک سب سے مضبوط کردار عون اسحاق کا ہے کیونکہ اصل میں کہانی میں درست اقدام لینے والا،صحیح اور غلط کا تعین کرنے والا، اپنے فیصلوں میں اٹل اور سب سے بڑھ کر متضاد صنف پر اعتماد کرکے ایک بار پھر زینہ کو بےاعتباری سے اعتبار کے سفر تک پہنچانے والا وہی تھا۔وہ تھا جس نے معاشرے کا دستور العلوم توڑا جہاں عورت کی وضاحت اور دلیلیں محض منہ زبانی سن کر رد کردی جاتی ہیں اور اکثر جگاہوں پر تو صفائی کا موقع دیے بغیر اُس کی ذات سے منسلک فیصلے خود لے لیے جاتے ہیں
یہ کہانی ہے اپنی شناخت کھو دینے والی اس لڑکی کی۔۔
یہ کہانی ہے اپنی شناخت کو چھپا کر رکھنا والے اس درندے کی۔۔
اپنوں کے راز جان کر ۔۔اپنی معصومیت کو کھو دینے والوں کی۔۔
محبت سے نفرت کرنے والوں کی۔۔۔
یہ کہانی ہے ایک قتل کے راز کی۔۔۔
اعتبار سے اعتبار اٹھانے والوں کی۔۔۔
یہ کہانی ہے عشق کے دو مکینوں کی۔۔۔۔
یہ کہانی ہے انتظار کی, بدلے کی,دوستی کی ۔۔۔
یہ کہانی ہے یار کےخیال میں رہنے والوں کی۔۔
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دین کو قید سمجھتی تھی جسے لگتا تھا کہ پردہ کرنا اسکے بس کی بات نہیں۔ وہ زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتی تھی مگر اسکے رب کو کچھ اور منظور تھا۔
محبت کرنے والوں کی کہانی، محبت میں قربانی دینے والوں کی کہانی، محبت میں بچھڑنے والوں کی کہانی،محبت میں لمبا انتظار کرنے والوں کی کہانی، محبت کو پا لینے والوں کی کہانی۔
یہ کہانی ہے عشوہ خان کی جو موبائل ملنے پر گمراہی کی راہ پہ نکل پڑی۔۔۔اور پھر ایک ایک لڑکے کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بعد اس کا پھر اپنے رب کی طرف لوٹنا۔۔۔اور پھر اسے دوبارہ سے اسامہ خان سے جنون کی حد تک محبت ہونا
تعلقات کی الجھن میں وہ ایک ڈور جو کہیں پہلے ہی چھوٹ گئی تھی کیا اسے بھلا دیا گیا یا اسی کے سہارے زندگی گزاری گئی۔ ڈور کا دوسرا سرا ملنا ہر ایک کے مقدر میں نہیں ہوتا مگر کیا وہ عزیزم اس کے مقدر میں تھا؟۔۔۔ وہ ویٹنگ ایریا میں بیٹھی کچھ مضطرب سی نگاہیں دوڑا رہی تھی۔ موبائل کی وائبریشن نے ایک بار پھر اس کی دھڑکن تیز کی تھی۔ ہاں وہی پیغام تھا یہ۔ یہ سلسلہبہت پرانا تھا۔ وہ لڑکا فون پر بات کررہا تھا جب اسے کسی نے پکارا تھا۔ وہ پیچھے مڑا تو برف کا پتلا بن گیا تھا۔ نہیں یہ اس کا خواب نہیں تھا۔ اس بار یہ اسکا خواب نہیں تھا وہ واقعی وہاں موجود تھی۔
ایک لڑکی کے نام جس نے اپنی خواہشات کو اپنی پہلی ترجیح بنایا اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو غلط استعمال کیا اس لڑکی کے نام جس نے خود سے جنگ کی ضمیر کی جنگ اور خود کو معاف کیا ہر غلطی ہر گناہ کے لیے.