یہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن کی کہانی ہے جو زندگی کو بھرپور طریقے سے جینا چاہتی ہے۔ وہ بیرون ملک مقیم ہوتے ہیں پاکستان آنے پر انھیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ جانیے اس ناول میں۔
انسانی نفسیات کوئی سائنسی فارمولہ نہیں کہ ہر شخص پر یکساں نتائج مرتب کرے۔جس طرح ہر انسان کی صورت دوسرے سے مختلف ہے اسی طرح سوچ بھی الگ ہے اور خوشیاں بھی۔ کون سا رستہ منزل کو جاتا ہے، سفر سے پہلے اس کا تعین کرنا ہی اصل کامیابی ہے مگر وردہ کو یہ کون بتاتا جو محبوب کی خوشی کے لیے خود کو دکھوں کو بھٹی سے بھی گزارنے کو تیار تھی۔
یہ کہانی ہمارے معاشرے کی خواتین پر لکھی گئی ہے جس میں ان کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے ان کے کردار کی اہمیت بیان کی گئی ہے ۔ یہ کہانی ایک رسم جسے خون بہا کہا جاتا ہے پر لکھی گئی ہے ۔ خواتین کی زندگی میں پیدا ہونے والی مشکلات اور مجبوریوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ عائلی زندگی کی محبت اور مجبوریوں کے نام یہ کہانی ایک پیغام بھی دیتی ہے ۔
یہ کہانی ہے حویلی کے رسم و رواج کی اور ان رسموں کی زد میں آئی لڑکیوں کی۔ قید و بند کی۔ ظلم و ستم کی۔ رسم و رواج کی پابندی سے ہونے والے نقصان زندگیاں برباد کرنے کا تجربہ رکھتی ہے۔ جو حق اسلام نے عورت کو دیئے ہیں وہ حق اس سے چھیننا قطعی بہادری نہیں ہوتی۔
یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی
جو عام شکل و صورت کی تھی
جسے اس کی آنکھیں خوبصورت بناتی تھیں
جسے اس دنیا نے جینے نہیں دیا
جس نے اس ظالم دنیا کا سامنا کیا
جو ہمت ہار بیٹھتی تھی
جس نے ہمت کا مطاہرہ کیا
یہ کہانی ایک ایسی بنت حوا کی ھے جو اپنے بھائی کی جان بچانے کیلئے روایات کی بھینٹ چڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہانی ایک حساس لڑکی کی جو رشتوں کو سب کچھ سمجھتی ھے یہ کہانی ھے ایسے لڑکے کی جو اپنی حیات چزگی سے جنوں کی حد تک محبت کرتا ھے۔۔۔۔
یہ ناول “زارا آفندی” اور “والی احمد” کی کہانی ہے، جن کے ماضی میں گہری چوٹیں تھیں۔ وہ دونوں ہسپتال میں ایک دوسرے سے بطور ساتھی ملے۔ ان کے والدین نے انہیں نکاح پر مجبور کیا۔ اس کے بعد وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے۔ ایک لڑکی “امل خان” بھی کہانی کا حصہ ہے، جو یک طرفہ محبت کا شکار ہے اور بہت سے دل کے ٹوٹنے کا سامنا کرتی ہے۔ ایک لڑکا “مراد ابراہیم” کہانی میں آتا ہے جو سب کچھ برباد کرنے کی نیت سے آتا ہے، مگر آخرکار اپنی جان قربان کر دیتا ہے۔