“خوش بخت_____________” اسے دور سے بابا کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی کچھ پل تو اسے سمجھ نہ آیا پھر یک دم اٹھ کر دروازہ کھولا جہاں عالم صاحب دونوں ہاتھ سینے پر لپیٹے اسے طنزیہ نگاہوں سے گھور رہے تھے۔
“اوہ بزرگو! کیوں صبح صبح محلے والوں کے ناک میں دم کر رہے ہیں؟” اس نے جمائیاں لیتے ان سے پوچھا۔
“ملکہ عالیہ! اگر آپ کو یاد ہو تو آج ہم نے مارننگ واک کے لیے جانا ہے میں فجر کی نماز ادا کرنے مسجد جا رہا ہوں آپ بھی جلدی سے وضو کر کے نماز ادا کریں اور میری واپسی پر مجھے گھر کے گیٹ پر ملیں۔” وہ ایک ہی سانس میں بات پوری کرتے وہاں سے نکل گئے۔
“لو جی ملکہ عالیہ مجھے کہہ رہے ہیں اور حکم خود سنا گئے ہیں، واہ جی واہ۔” وہ بڑبڑاتی ہوئی جلدی سے واش روم میں جا گھسی۔
اس کا دل تو نہیں تھا جانے کا مگر اپنے واحد ووٹ کو وہ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھی جو ہر الٹی سیدھی بات میں اس کی ڈھال بن جاتے تھے تبھی وہ جھٹ پٹ سب کام کرتی گیٹ پر آن کھڑی ہوئی رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے وہیں اس کی آنکھ لگ گئی۔
وہ گیٹ پر سر رکھے ہوئے ہی اپنی نیند پوری کر رہی تھی جب ٹریک سوٹ میں ملبوس ایک نوجوان اسے دیکھتے ایک لمحے کو رکا تھا اس کی آنکھوں میں حیرت در آئی جس کو وہ اگلے ہی پل چھپاتا آگے بڑھ گیا اس نے پہلی بار کسی کو ایسے سوتے دیکھا تھا حیرت بجا تھی۔
“خوش بخت____” عالم صاحب نے اس کے کان کے پاس چہرہ لے جا کر زور سے پکارا جس پر وہ یک دم “چور، چور” چلاتی ان سے لپٹ گئی۔
“ملکہ عالیہ اب آپ حد سے بڑھ رہی ہیں پہلے بزرگو اور اب چور بنا ڈالا، توبہ توبہ گندی اولاد نہ مزا نہ سواد۔” انھوں نے اسے بری طرح گھورا۔
“واہ بھئی واہ! الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ یہ کیا تھا پھر____؟ ابھی میرا ہارٹ فیل ہو جانا تھا۔”
اس نے دل پر ہاتھ رکھتے ان کی حرکت کی طرف توجہ دلائی تو وہ شان بے نیازی سے کندھے اچکاتے آگے بڑھ گئے۔
“آپ____اور اتنے کمزور دل کی ہو ہی نہیں سکتیں۔ آپ تو وہ ہیں جو دوسروں کے چھکے چھڑا دیں ملکہ عالیہ۔”
وہ اس پر طنز کرنا نہ بھولے۔
“ہاں جی___میں تو بہت بڑے دل کی ہوں جو اپنے ماں باپ کو پال رہی ہوں حالانکہ انھیں مجھے پالنا چاہیے۔
ہائے او ربا میری نکیاں نکیاں چاواں___”
وہ دکھی محبوبہ کی طرح سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
“اگر آپ کو کسی فلم میں ہیروئن کاسٹ کر لیا جائے تو وہ بری طرح فلاپ ہو۔” انھوں نے اس کی اوور ایکٹنگ پر چوٹ کرتے ہوئے اپنا بدلہ اتارا۔
“چلیں مجھے ہیروئن کا کردار تو ملتا مگر آپ کو گریٹ گریٹ گریٹ____گرینڈ فادر کا رول ملتا۔”
اس کی بات پر وہ جلتے کڑھتے گلشن اقبال پارک میں داخل ہو گئے۔
امرتسر کی گلیوں سے شروع ہونے والے عشق کی داستان۔
جو ایک بار پھر سے دہرائی جانے والی تھی۔
نئے کرداروں ،نئے چہروں کے ساتھ۔
آغاز خوشنما اور اختتام ادھورا۔۔۔
خواب محض بند آنکھوں سے دیکھی گئی دُنیا تک محدود نہیں ہوتے بلکہ کچھ خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے ہماری خواہشیں ہوتی ہے، حسرتیں ہوتی ہے، آرزوئیں ہوتی ہے، ہماری لاحاصل حسرتیں ہوتی ہے، ہمارے مقاصد ہوتے ہیں، ہماری منزلیں ہوتی ہے، جنہیں پانے کی جدو جہد کرنا ہمارے بس میں ہوتا ہے، جس کے لیے کوشش کرنا، جسکی جستجو میں راستے تلاش کرنا ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے، بس اللّٰہ کی طرف سے قسمت میں کوئی آزمائش نہ ہو، ورنہ یہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اپنی لاحاصل خواہشوں کو حاصل میں بدلنا، اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنا۔ یہ کہانی ایک ایسی ہی خواب بُننے والی دو آنکھوں کی ہے، جس کے نزدیک خواب دیکھنا اور انکی جستجو میں خود کو مگن کرنا ہی اسکی زندگی کا مقصد ہے۔ جسکی زندگی کے مدار میں بہت کم لوگ گردش کرتے ہیں۔ جسے اپنی اس چھوٹی سی دُنیا میں رہ کر اسے جنت بنانا تھا۔ وہ اپنے خوابوں کو کبھی لاحاصل نہیں سمجھتی تھی کیونکہ اسکے نزدیک اللّٰہ کوشش کرنے والے کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ یہ کہانی ہے انصاف کی، حق کے خلاف جنگ کی، کسی کی تکلیف کی، بدلتے رشتوں کی ، محبت کی، کسی اَن دیکھے خواب کی تعبیر میں موجودآزمائشوں کی، اسکی مصیبتوں کی – مصیبتوں اور آزمائشوں کو صبر سے کاٹنے والوں کے انجام ہمیشہ خوبصورت ہوتے ہیں۔
Andekha Khawab is a Police Hero Based, Suspense Based Romantic Novel by Saman Waheed.
ہر انسان کی سوچ مختلف ہے، سوچنے کا انداز الگ ہے، اسے بیان کرنے کا طریقہ بھی الگ ہے. میری یہ کہانی بھی مختلف لوگوں کے گرد گھومتی ہے جن کی سوچ اپنی منزل کو پا لینے کے لیے مختلف ہے.
کہانی کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے جس منزل کو سوچ کر، آنکھوں کے سامنے رکھ کر، راستہ طے کیا ہے تو وہ منزل وہی ہو…. نہیں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا اکثر منزلیں اندیکھی ہی ہوا کرتی ہیں.
یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو اپنوں سے ہی ٹھکرائی جاتی ہے لیکن قسمت ایک انجان شخص کو اس کا شریکِ سفر بنا دیتی ہے۔ یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو خوابوں کے شہر میں بستی ہے لیکن حادثاتی طور پر اس کا ہمسفر اس کے خوابوں کے شہزادے سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو کسی کی تلاش میں ایسی جگہ جا پھنستا ہے جہاں سے واپسی نا ممکن ہوتی ہے۔ کیا قسمت اسے سب کے سامنے سرخرو کرے گی یا اس کی زندگی اسی اندھیری دنیا میں گزر جائے گی؟
یہ کہانی ہے ایک بکھرے ہوئے خاندان کی. یہ کہانی ہے بچپن کے تلخ حالات کی تلخیوں کو خود میں ڈالنے والی لڑکی کی. ایک ایسی لڑکی کی جسے مرد زات سے نفرت ہے. جو شادی جیسے رشتے کو بوجھ سمجھتی ہے. یہ کہانی ہے ولید حسن شیرازی کی. جو محبت کی راہ میں ہزاروں تکلیفیں سہتا ہے. جو محبت کو کھو کر پالیتا ہے. یہ کہانی ہے عطاء اللہ خان صاحب کے دو دیوانوں کی.
ایک ایسے شخص کی کہانی تمام تر تلخیوں کے باوجود ایک اچھا انسان بنا ، وہ شخص جس کی ساتھی کتابیں تھیں ۔ وہ شخص جو ازلان شہروز کی زندگی میں سب سے اہم تھا ۔
انجان مصوّر کہانی ہے وطن کی خاطر میدانِ جنگ میں اترنے والوں کی۔۔۔۔
یہ داستان ہے “دو” کرداروں کے سفرِ محبت کی جو دوستی سے محبت اور پھر ہجر سے ملاقات کا ایک ایسا سفر ہے جس میں رکاوٹ کوئی بیرونی قوت نہیں بلکہ کرداروں کی انا ہے۔ اس کہانی میں ایک کردار کی چھوٹی سی غلطی باعث بنی ایک طویل ہجر کا۔
انجان مصوّر میں آپ ایک ایسے کردار سے بھی ملیں گے جس کی دولت حاصل کرنے کی خواہش اسے ایک برے انجام تک پہنچائے گی۔
مگر کیا ہوگا جب یہ تین لوگ “تکون” بن کر آپس میں ٹکرائیں گے؟ اور اس تکون کا کون سا حصّہ سب سے زیادہ نقصان اٹھائے گا؟ یہ جاننے کیلئے اس کہانی کو پڑھیں جو آپکو کچھ نا کچھ ضرور سکھائے گی۔
کہانی کے چار باب ہیں اور ہر باب کا ایک الگ نام ہے۔ جہاں تک بات ہے کہانی کے نام کی تو یہ آپکو پڑھ کر ہی پتہ لگے گا کہ اس کہانی کا نام “انجان مصوّر” کیوں رکھا گیا ہے۔۔۔۔
اس کہانی میں آپکو دیگر کرداروں کے سفر بھی دیکھنے کو ملیں گے
انجانے ہیں سلسلے کہانی ہے جس کی شروعات ہوتی ہے ظلم جبر اور زیادتی سے اور جو آگے جاکر بدل جاتی ہےمحبت جیسے انمول اور خوبصورت احساس میں لیکن محض ایک فریق کے لئے تو کیا اس کا اختتام بھی ہوگا محبت پہ۔۔۔ یہ کہانی جو ایک فریق کے لئے سفر ہے انا گھمنڈ اور تکبر کی بنا پر ظلم زیادتی اور جبر سے لے کر محبت تک کا جب کہ دوسرے فریق کے لئے دکھ تکلیف اور آزمائش سے لے کر بےیقینی اور بدگمانی تک کا تو کیا ایک کی محبت ختم کر پاۓ گی دوسرے کی بدگمانی اور بےاعتباری۔ کیا ملے گی ان دونوں کو ملے گی اپنی منزل آیئے جانتے ہیں انجانے ہیں سلسلے سے۔
یہ طویل مکمل ناول ایسی داستان ہے جس میں انسان کے اطراف رہنے والے لوگوں کے رویے بعض اوقات اس کی نفسیات پر کچھ ایسے اثرات مرتب کرتے ہیں کہ وہ زندگی کے بارے میں کوئی خوبصورت نظریہ قائم ہی نہیں کرپاتا اور دوسروں کے حالات و واقعات کے مطابق اپنا انجام بھی سوچ لیتا ہے ابیحہ ثانی کے لیے زندگی ایسی ہی تھی- جو کسی اور کے آئینے میں اپنا عکس تلاش کر رہی تھی – ایک وہم کی مکڑی نے اس کی امید پر ناامیدی کا جالا تان رہی تھی کہ قسمت نے اس کے خیالات کو زیر و زبر کردیا