یہ ایک کرائم فیکشن اسٹوری ہے، جسمیں ہمارے معاشرے میں دو خاموش اور گمنام پہلوؤں کا ذکر ہے، ٹاکسک پیرنٹنگ اور سائیکوپیتھی. کہانی ہے کرداروں کے بھولے ماضی اور ناگہانی مستقبل کی. کہانی کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ کردار کیسے روپ بدلیں گے یہ جاننے کے لیے آپکو کہانی بھی اُن کرداروں کے ساتھ ساتھ پڑھنا ہوگی
دنیائے دو روزہ میں ‘”تصنّع “‘ حقیقت سے بالاتر ہے ،اور اِسے بالاتر بنایا ہے تصنّع برتنے والوں نے ۔۔۔۔۔
” ہر کہانی تصنّع آمیز ہے ہر احساس دکھاوا ہے “
کوئی زخمی روح والا جہاں خود کو مضبوط ظاہر کرنے کا جعلی مظاہرہ کر کے شاکر ہو جاتا ہے وہیں کوئی ہمدردیاں بٹورنے کے لیے خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم بنا دیتا ہے ۔۔۔
تصنّع سے آج تک کوئی نہیں بچ پایا ،کوئی بچنا ہی نہیں چاہتا!
کوئی اسے دنیا میں شمار کر لیتا ہے تو کوئی دینی اموار کا حصہ بنا لیتا ہے ۔۔۔۔
“صالح عمل میں ریاء نیکی نگل لیتی ہے” اور بس عمل بچ جاتا ہے بے مصرف ۔۔۔بے سود۔۔۔۔!
“بلا شبہ ربِ ذوالجلال اعمال سے بھی واقف ہے اور نیتوں کو بھی جانتا ہے “
تصنّع اصلیت کو چھپا دیتا ہے ہمیشہ کے لیے نہیں لیکن کچھ عرصہ کے لیے ۔۔۔۔۔ کیونکہ ہمیشہ کے لیے کچھ نہیں ہوتا اس جہاں میں تو بالکل بھی نہیں!
وہ عرصہ سیکنڈز پر محیط ہو یا صدیوں پر ۔۔۔۔۔جیسے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ویسے ہی اصل کبھی نہیں چھپتا ۔۔۔۔۔۔
ہر بھید کھل جاتا ہے اِس جہاں میں نہیں تو اگلے جہاں میں۔۔۔!
کہانی ہے کچھ ایسے کرداروں کی جو بے نام سے رشتوں کو نبھاتے خود کہیں گم سے ہوگئے۔
کہانی ہے خود کی تلاش کی اور کہانی ہے میکائیل سلطان کی، کہانی میں آپ ملیں گے کچھ ایسے کرداروں سے جن سے نفرت ہو نہیں سکتی اور محبت شاید آپ کر نا پائے ۔ کہانی کو آپ کیسے لیتے ہیں میں آپ پہ چھوڑتی ہوں لیکن اس کہانی کے ساتھ آپ کو باندھنے کا وعدہ کرتی ہوں میں ۔
یہ کہانی ہے ٹوٹے ہوۓ رشتوں کی, چند یونیورسٹی فیلوز کی اور ایک ان چاہے رشتے کی. یہ کہانی ہے بہادر نقابی لڑکی کی کیونکہ بہادر وہ نہیں ہوتے جو ڈرتے ہی نہیں ہیں بلکے وہ ہوتے ہیں جو ڈر کے باوجود سر نہیں جھکاتے. ایک بزدل لڑکے کی کیونکہ با ادب لڑکے اس دنیا میں بزدل ہی کہلاتے ہیں.
یہ داستان ہے دو دوستوں کی جو بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے، حسد کی، ذہنی غلامی کی۔یہ داستان ایک فرضی کہانی ہے لیکن اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو آج کل ہمارے معاشرے کا اہم ناسور بن چکے ہیں تو اس لیے اسے کہانی کی طرح لیا جائے اور ان باتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ یہ میری طرف سے ان کے نام جو ذہنی غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں۔
جو تم ساتھ ہو ” خوبصورت رشتوں سے گندھی ایک ایسی کہانی جو بیک وقت مختلف کرداروں کے احساسات ، جزبات اور آپسی تعلقات کی ترجمانی کرتی ہے ۔ایک ایسی کہانی جو پیغام دیتی نظر آتی ہے کہ آپکو آپکی پسند نا پسند کے پیمانے پر ساتھی چننے کا پورا حق ہے، اور ہر انسان کی اپنی زندگی کو لے کر کچھ ترجیحات ہیں جن سے ضروری نہیں ہر ایک متفق ہو ۔جو سکھاتی ہے کہ کیسے اپنوں کی خاطر کبھی کبھار اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا آپکو بہت سی خوشیاں دے سکتا ہے ، جو بتاتی ہے کہ قدرت کی طرف سے ملنے والی ہر نعمت کو ، اپنی ضد اور ترجیحات کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف کر کے ،کھلے دل سے قبول کرنے والے کبھی خالی دامن نہیں رہتے . یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جس نے ایک ٹاکسک رشتے کو مزید گهسیٹنے کے بجائے خود کے لیے اسٹینڈ لیا۔ جو خود ترسی کا شکار نہیں ہوئی اور خودمختاری کی راہ چنی اسکے صبر کا حاصل ایک ایسے شخص کی صورت اسے ملا جو تپتی دھوپ میں گھنی چھاؤں کی مانند ثابت ہوا.ملیے کچھ ایسے کرداروں سے جو اپنے آپ میں بہت سی کمیوں کے باوجود ایک خوب صورت زندگی گزارنے کے کچھ ڈھنگ سیکھ ہی لیتے ہیں ۔کیوں کہ زندگی کبھی بھی مکمل نہیں ہوتی کچھ خانے وقت کے ساتھ بھرتے ہیں اور آپ نے اپنے صحیح وقت کا انتظار کرنا ہوتا ہے
تعلقات کی الجھن میں وہ ایک ڈور جو کہیں پہلے ہی چھوٹ گئی تھی کیا اسے بھلا دیا گیا یا اسی کے سہارے زندگی گزاری گئی۔ ڈور کا دوسرا سرا ملنا ہر ایک کے مقدر میں نہیں ہوتا مگر کیا وہ عزیزم اس کے مقدر میں تھا؟۔۔۔ وہ ویٹنگ ایریا میں بیٹھی کچھ مضطرب سی نگاہیں دوڑا رہی تھی۔ موبائل کی وائبریشن نے ایک بار پھر اس کی دھڑکن تیز کی تھی۔ ہاں وہی پیغام تھا یہ۔ یہ سلسلہبہت پرانا تھا۔ وہ لڑکا فون پر بات کررہا تھا جب اسے کسی نے پکارا تھا۔ وہ پیچھے مڑا تو برف کا پتلا بن گیا تھا۔ نہیں یہ اس کا خواب نہیں تھا۔ اس بار یہ اسکا خواب نہیں تھا وہ واقعی وہاں موجود تھی۔