Kalakaar

Ask for More Information

Meet The Author

Kalakaar

انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ جب وہ اپنی ذات کا کاسہ لیے نیکی اور بدی کے در پر باری باری دستک دیتا ہے ، نیکی اس کے کاسے کو بھر تو دیتی ہے مگر نفس تسکین نہیں پاتا اور بدی ، اس کے ہاتھ سے کاسہ گراتی اسے اپنے ساتھ وقتی طمانیت کے سفر پہ لے جاتی ہے ، نفس کی محبوب ترین جگہ۔۔۔
وہ سیاہ دبیز چادر اوڑھے ہوئے آج پھر کسی انجان روش پہ چل رہا تھا ، آج ایک نیا مگر وہی بوسیدہ سا دن تھا ، یوں تو اجالا تھا مگر دراصل ہر طرف سیاہی ہی سیاہی تھی یا پھر بات اسکی نگاہوں کی تھی ۔۔۔ اس کی چال کسی بھی طرح کے پیچ و خم سے عاری تھی ، یکدم مستقل یوں جیسے اپنے کام کا وہ اس قدر عادی تھا کہ اب جھجھک محسوس کرنے کا موقع اسے خود اسی کا جسم بھی فراہم نہ کیا کرتا تھا ، اس کے ہاتھ خود ہی کام کرتے جایا کرتے تھے۔
رستہ کشادہ سڑک سے اب ایک تنگ گلی کی سی شکل اختیار کر گیا تھا ، سڑک کے دونوں اطراف غلطان دکانیں اور سپہر کا سنہری وقت ، رش معمول سے کچھ بڑھ کر تھا ، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا نہ صرف افراد سے ٹکراتا جارہا تھا بلکہ اپنے اگلے شکار کو ٹٹول بھی رہا تھا۔
اس کے بڑھتے قدم اب ذرا سست ہوگئے تھے ، دو دونوں اب اس سے ذرا ہی فاصلے پہ تھے ، وہ جانتا تھا اسے کیا کرنا ہے ، یہ اس کا روز کا کام تھا۔
           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ماما میں نے شوز لینے ہیں اور سینڈلز اور بالیاں ، ٹھیک ہے نا ؟ بس کپڑے ہی تو آئے ہیں اب عید پہ کیا صرف کپڑے پہنوں گی ؟ ” فاطمہ مسلسل آنکھیں گھماتے ہوئے اپنی فرمائشوں کی پٹاری کھولتی اسے اپنی ماں کے سامنے رکھ رہی تھی۔
” ہاں ہاں سب لے لینا ، بابا کے پاس تو منی ٹری ہے ، وہ مجھے وہاں سے پیسے توڑ توڑ کر دیتے ہیں اور میں تمھیں ” آدھی انگریزی آدھی اردو ، یہی مزاج عام تھا فی الحال۔
” ماما واقعی ۔۔۔”
وہ معصومیت سے بولی تو ماما ہنس دیں۔
“اوہ معذرت باجی آپ کا پرس ” یکلخت ہی کالی چادر میں لپٹا ایک ادھیڑ عمر شخص ان کے بائیں شانے سے تمام تر قوت سے ٹکرایا تھا ، اور اسی ٹکراؤ کے باعث ان کا پرس زمین بوس ہوگیا تھا ، فاطمہ کا ہاتھ اب بھی ان کے دائیں ہاتھ میں تھا۔
نہیں کوئی بات ن۔۔۔۔۔۔فاطمہ۔۔۔” وہ جملا بھی مکمل ادا نہ کرپائیں تھیں ، وہ پرس اٹھانے کو نیچے ذرا سا خم ہوئیں تھیں ، اور وہی شخص نہ جانے کس برق رفتاری سے ان کی دائیں جانب حاضر ہوتا, فاطمہ کو ان کے ہاتھ سے کھینچ لے گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ بڑی دقت سے مگر باہم جڑا ہاتھ چھوٹ گیا تھا ، ان کی بیٹی ان کی نگاہوں کے سامنے ان سے دور کی جارہی تھی ، دور اور دور ، بہت دور۔۔۔وہ چلانے کی چاہ رکھتی تھیں ، دوڑنے کی کوشش میں تھیں مگر سب بے سود ، نہ قدم ساتھ تھے اور نہ آواز ساتھ دینے کی حامی تھی ، بس فراق تھا۔
                              …………..
وہ دوڑتا ہوا پورچ کی سی ایک جگہ میں داخل ہوا تھا ، کاندھے پہ بچی کو لادے اب لمبے لمبے ڈگ بھر رہا تھا ، اس بچی کو وہ راستے ہی میں فی الفور بڑی مہارت سے بے ہوش کر چکا تھا ، وہ پورچ کافی کشادہ تھا ، ہر سو روشنی کی آمد و رفت بھی بڑی تھی مگر وہاں موجود دیگر معصوم پھولوں کی آہ و زاری نے اس مقام کو تاریک تر بنادیا تھا ، اس عیار شخص نے فاطمہ کو بھی اس کے دیگر ہم قیدیوں کے ہمراہ وہیں پٹک دیا۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” افضل خدا گواہ ہے ، خدا گواہ ہے اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا میں مرجاؤں گی ، افضل ، پلیز کچھ کریں ، خدارہ۔۔۔” وہ اپنے شوہر کا گریبان تھامے تھانے کے عین وسط میں کھڑی چلارہی تھیں ، مقابل کھڑے ان کے شوہر وردی میں ملبوس تھے۔
“کیا میں نے تمھیں منع نہیں کیا تھا ؟ ، کیا نہیں کہا تھا کہ اس وقت یہ ننھے پھول حالت جنگ میں ہے ، کیا نہیں کہا تھا کہ انہیں گھر سے نکالنا ان کو ہمیشہ اپنے آپ سے دور کرنے کے مترادف ہے ” وہ اپنا ضبط کھوتے چیخ پڑے تھے۔
افضل نے اپنا گریبان ایک جھٹکے سے آزاد کرواتے ہوئے ان کا رخ دوسری طرف موڑا۔۔
“انہیں دیکھ رہی ہو ؟ ، گزشتہ تین روز سے اپنے بچوں کی تلاش میں ہلکان ہیں ، بارہا انہیں بد لحاظی سے جھکڑکتے ہوئے گھر بھیجا جاتا ہے ابھی آدھا گھنٹا نہیں گزرتا کہ پھر آجاتے ہیں ، ان کے چہرے کی امید نہ دیکھو پشیمانی دیکھو ، یہ محافظ نہ بننے پہ پشیمان ہیں
And they must be …now welcome ، you have increased their number “
وہ آگ بگولا ہورہے تھے ، یہ وارداتیں گزشتہ دو ہفتوں سے اوج پاگئی تھیں ، بچے راہ گیروں کے ہاتھوں سے چھین کر لے جائے جاتے اور پھر بڑی سفاکی سے اپنے رب سے ملادیے جاتے ، کوئی تردد ، کوئی فون کال اور کسی قسم کا کوئی رابطہ ہونا محال تھا ، ہاں کسی نہ کسی طرح بس لاش تک رسائی ہوجایا کرتی تھی ، افضل کے سر کی تنی رگوں میں ہوتا شدید درد ان کی نگاہوں میں پانی کی مانند تیرتا دکھائی دے رہا تھا ، ان کی ۵ سالہ مراد ، ان کی فاطمہ بھی اب انہیں نہیں ملنی تھی ، وہ سر تسلیم خم کر بیٹھے تھے۔
وہ ماں تھیں نا اور اضافی کرب ان کی ندامت نے ڈال دیا تھا ، ان کا دل درد سے پھٹنے کو تھا ۔۔۔ یوں جیسے سہارا چھوٹا تھا اور وہ پورے قد سے زمین بوس ہوئی تھیں ، افضل نے یک لخت ہی انہیں تھاما تھا ، ایک تاسف بھری نگاہ ان پہ ڈالی تھی۔۔۔اور پھر
” آپ انہیں احتیاط سے گھر چھوڑ آئیں زینت ” اپنی تھانیدار کو حکم دیتے ہوئے وہ سخت اضطراب کے
عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، جان تو لگانی تھی جان کی ہی خاطر۔
اطراف میں براجمان والدین کی بھی کچھ ڈھارس بندھی تھی ، اب افضل صاحب کی خود کی بیٹی اس سفاک درندے کے ہتھے چڑھی تھی ، اور دستور زمانہ تھا کہ اب تو اسے مل جانا تھا اور اس کے ھمراہ شاید ان کے معصوم پھولوں کا بھی بھلا ہوجاتا۔
  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سیاہ دبیز چادر میں لپٹا وجود اب ایک بوسیدہ سی کرسی لیے ان سہمے ، سسکتے بچوں کے مقابل آ بیٹھا تھا۔
“Itsy bitsy spider climb up the water spout
Down came the rain and wash the spider out
Out came the son and dried up all the rain
So the itsy bitsy spider climb up the spout again”
اس نے سرگوشی نما آواز میں کہتے ہوئے ایک جھٹکے سے اپنے رخ سے چادر اتاری۔۔
ہراسگی کی سی کیفیت میں وہ تمام کلیاں یک ٹک اسے تکے جارہی تھیں ، موت کا سا سناٹا یکدم ہی اس پورے پورچ میں چھا گیا تھا۔
خوراک کی کئیں دنوں کی عدم فراہمی کے باعث اندر کو دھنسی آنکھیں ، عدم نیند کے باعث حلقوں کے گہرے پٹے ، تمام چہرے پر پھیلی عجیب و غریب ضربوں کے نشانات ہر طرح سے اسکے چہرے کو وحشی بنا رہے تھے ، روبرو بیٹھے وہ نازک لاغر وجود کبھی خوف سے سر اپنے گھٹنوں میں چھپالیتے تو کبھی دہشت بھری ترچھی نگاہیں اس کی جانب اٹھاتے ، فاطمہ بھی اب ہوش میں آچکی تھی ، وہ یکسوئی سے اسے تکے جارہی تھی مگر ذہن کہ پردوں پہ بارہا افضل اور اس کی ماں ابھر رہے تھے ، اس کا گھر ، اس کا پیارہ گھر کیا ، کیا وہ دوبارہ اپنے گھر جانے والی تھی ؟ اس کی آنکھیں آشک فشانی کررہی تھیں ، پتا نہیں بابا اسے بچا پاتے تھے یا پھر جیسے بابا نے اسے بتایا تھا کہ درندا بچوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لے جایا کرتا تھا ، وہ بھی ویسے ہی رخصت ہونے والی تھی ، نہ جانے کیا ہونے کو تھا۔۔۔
“ادھر آؤ تم ، کیا مجھ سے ڈر رہے ہو ؟ میں تو تمھیں کچھ نہیں کہوں گا ، کچھ بھی نہیں ادھر آجاؤ ، یہاں آؤ ، آؤ تم سب کو کہانی سناتا ہوں ، آجاؤ ، شاباش آجاؤ۔۔۔” وہ بڑی ملائمت سے ان میں سے ایک کو مخاطب کررہا تھا۔
وہاں موجود سب بچوں کے دل ایک ساتھ دھڑکے تھے ، اس شخص کا موسوم اب ہولے ہولے ان کی جانب بڑھ رہا تھا ، اور کوئی چارہ بھی نہ تھا ، کب تلک انکار کرتا؟
” آؤ ، یہاں میرے پاس بیٹھ جاؤ ۔۔ ” وہ اس کے ہاتھ تھامتا نرمی سے اسے اپنی گود میں بٹھا گیا۔
“Itsy bitsy spider climb up the water spout
Down came the rain and wash the spider out
Out came the sun and dried up all the rain
So the itsy bitsy spider climb up the spout again”
اس نے پھر وہی نغمہ گنگنایا ، آواز اب قدرے بلند تھی ۔
“جانتے ہو مجھے یہ نغمہ کیوں یاد ہے ؟ ” اس کی صدا یک لخت ہی درد کے شعلوں میں لپٹی معلوم ہونے لگی تھی۔
بچے نے خوف کے زیر اثر جھٹ نفی میں سر ہلایا۔
” ہاں تم کیسے جانو گے ، میں بتاتا ہوں ” وہ جیسے بہت پرے کسی خلا میں کھو گیا تھا۔
“میری ایک بیٹی تھی ، بہت پیاری ، اس کا نام ۔۔۔ اس کا نام میں نے رکھا تھا ، پری ، اس کی ماں کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا ، میں اس سے بہت پیار کرتا تھا اور وہ مجھ سے ، اس کے پاس ہزاروں کھلونے تھے ، ایسے ایسے کھلونے جو تم لوگوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھے ہونگے “
روبرو بیٹھے سب معصوم پھول اسے دم سادھے سن رہے تھے ، خوف اب زائل ہونے لگا تھا ۔
” مگر جانتے ہو پھر کیا ہوا ، جانتے ہو ۔۔۔ ” اسی اثناء میں وہ چیخا تھا اور گود میں بیٹھے اس بچے کو جھنجھوڑ ڈالا تھا ، آواز کی شدت اس کے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی ، اس کا دل دہل گیا تھا اور قریب تھا کہ بند ہوجاتا۔
ہراسگی کی فضا پھر سے ماحول میں سکونت اختیار کرگئی تھی ، یوں جیسے اس عیار شخص کو معلوم تھا کہ ان پھولوں کی تسکین چھینی کیسے جاتی ہے ، انہیں بے کل کیسے کیا جاتا ہے ، انہیں ڈرایا کیسے جاتا ہے ، یوں جیسے اب تو اس کام میں اس سے ماہر کوئی رہا ہی نہ ہو۔
“پھر۔۔۔ پھر اسے میرے ہاتھ سے کوئی چھین لے گیا ، عین اسی طرح جس طرح میں تمھیں چھین لایا ہوں ، جس طرح میں تم سب کو چھین لایا ہوں ” اس کی آواز اب بھی قدرے بلند تھی ، تنفس پھول چکا تھا ، لاغر جسم کی تنی رگیں جیسے باہر آنے کو بیتاب تھیں ۔
ان تمام کلیوں کو پھر وہ اذیت ناک لمحہ یاد آیا تھا ، دھول سے آٹے ان چہروں پہ آنسو جھلملانے لگے تھے۔
” غلط کیا تھا اس نے بہت غلط ، میں نے بھی غلط کیا ” اس کی آواز کا تغیر سمجھ سے بالاتر تھا اب وہ مدھم بول رہا تھا ، بہت مدھم ۔
” میں نے پری کو ڈھونڈنے کی خاطر اپنی جان لگادی اور وہ مل بھی گئی ، مگر مردہ۔۔۔۔ ” اس کا چہرہ مضطرب تھا ، لفظ کپکپائے تھے۔
” جب اس کی ننھی لاش میں نے اپنے ان ہاتھوں میں لی تھی نا تو جانتے ہو سب سے پہلے مجھے کیا نظر آیا تھا ؟ ” اس نے اپنے ہاتھوں کی جانب اشارہ کیا ۔
“اس کی گردن سے رستا وہ خون ، جیسے کسی نے اسے یوں تھاما ہو اور خنجر بے دردی سے اس کی شہ رگ سے گزار دیا ہو ” چند ساعتوں کا کھیل تھا ، اس کی پیوند لگی ملگجی قمیض ایک معصوم کے لہو سے چند لمحوں ہی میں بھر گئی تھی ، نہ جانے کس برق رفتاری سے اس نے خنجر برآمد کیا تھا کہ کوئی مظاہمت ہی نہ کر پایا تھا ، ہاں مگر اس کی شہ رگ پہ پری کی گردن جیسا نشان ضرور ابھر آیا تھا ، وہ سر کے بل انتہا کی بے مہری سے زمین بوس ہوا تھا ، مقابل بیٹھے ان سہمے پھولوں کی آہ و بقا فضا میں گونجی تھی۔
” خاموش ، یکدم خاموش ، جس کی آواز آئی سب سے پہلے اس کی باری ہوگی …” وہ یک لخت تمام تر قوت سے چلایا۔
تمام تر پورچ میں اب کی بار موت کا سا نہیں موت ہی کا سناٹا چھا گیا تھا۔
” میں تم لوگوں کو جنت کی جانب بھیج رہا ہوں اور ….ارے ہاں جنت میں میری بیٹی ہوگی پری ، اس سے ملنا ، اسے بتانا کہ تمھارے بابا نے ہمیں بھی تمھاری طرح ہی مار دیا ، مجھے پتا ہے بڑا فخر ہوگا اسے مجھ پہ ” وہ پھر سے دھیما ہوا تھا۔
اور پھر ان سفید دیواروں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ یکے بعد دیگرے یہ سفید پھول سرخ ہوتے جارہے تھے ، لقمہ اجل بنتے جارہے تھے ، دیواروں پہ اڑتے خون کے چھینٹے ان بے جانوں کو بھی دہلا رہے تھے مگر نہیں کانپ رہا تھا تو اس عیار کا دل ، وہ خنجر چلاتا تو گویا سکون کا دم بھرتا اور پھر اپنے اگلے ہدف کی جانب بڑھ جاتا ، فاطمہ کے پاس آتا وہ ذرا ٹہرا۔۔
“تمہیں پتا ہے تم میری بیٹی سے بہت ملتی ہو ، تمھیں تو اسی کے ساتھ ہونا چاہیے “
اس کی گھگھی بندھی ہوئی تھی ، حلق ساتھ دینے سے انکاری تھا ۔
” مگر تمھیں میں ابھی نہیں مارونگا ، ذرا تھکاوٹ سی ہورہی ہے میں کچھ دیر آرام کروں گا ، ہاں جب تک تم اپنے ان دوستوں کو دیکھ سکتی ہو ، دیکھو کتنے مطمئن لگ رہے ہیں نا ؟ ” اس کا انگ انگ ظلم سے پر تھا ۔
فاطمہ نے نگاہ اطراف میں گھمائی اور خون سے لت پت اجسام دیکھتے ہی اسے بے اختیار ابکائی آئی مگر یہاں اس کے والدین کہاں تھے جو دوڑے چلے آتے ، وہ جابر اپنے جبر پہ ہنستا ، اسی پورچ میں غلطان ایک بوسیدہ سی چارپائی پہ جا لیٹا۔
     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اے ایس پی صاحب ، کسی شہری کا فون آیا ہے ، ایک تنگ سی جگہ کے باہر اس نے چیخوں کی کچھ آوازیں سنی ہے ” تھانیدار نے افضل کو مطلع کیا تو وہ فی الفور متوجہ ہوا۔
” کس مقام سے کال آئی ہے ، علاقہ کیا ہے ؟ ” وہ پہ در پہ سوالات کرنے لگا۔
ایک دو مقامات کافی عرصے سے انہیں تشویش میں مبتلا کررہے تھے ، اور ظاہراً اب یہ تفتیش زور پکڑ گئی تھی ۔
تھانیدار نے جگہ سے آگاہ کیا تو افضل نے فی الفور گاڑی نکالنے کا حکم صادر کیا ، پتا اسی علاقے کے قریب تھا جس پہ انہوں نے نگاہ جمائی ہوئی تھی ، ایک آس تھی ، امید تھی فاطمہ کے مل جانے کی ، یہ پولیس کی کوتاہی نہیں تھی شاید فطرت تھی جب ذات پہ بات آیا کرتی تھی تو خود غرضی بھی ساتھ ہی آجایا کرتی تھی ۔
     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بابا ، کیا ملتا ہے آپ کو ، ان معصوموں کو ماڑ کے ، اگر میرا بدلہ ہی لینا چاہتے ہیں تو انہیں خوشیاں دیں بابا ، خدارہ یہ ظلم بند کریں ، مجھے خوشی نہیں ہوتی ، اذیت پہنچتی ہے ، بابا میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں انہیں مارنا چھوڑدیں بابا ، انہیں چھوڑ دیں “
“پری۔۔۔۔”وہ ہڑبرا کے اٹھ کھڑا ہوا تھا ، شکن آلود چہرے پہ پسینے کی بوندیں ابھری تھیں ، وہ چہرہ جھکائے باآواز بلند رونے لگا تھا ، راز و قطار رونے لگا تھا اور روتے روتے وہ ہنسنے لگا تھا ، بلا توقف وہ ہنستا ہی چلا گیا تھا ، اسکی یہ دہشت ناک ہنسی فاطمہ کے ذہن پہ ہتھوڑے برسا رہی تھی ، وہ اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپائے ہوئے تھی۔
” چپ ہوجاؤ ، خدا کا واسطہ ہے چپ ہوجاؤ ، تمھیں اپنی بیٹی کا واسطہ ہے ” وہ اپنا ضبط کھوتی اس کی نگاہوں میں تکتی چلائی تھی ۔
وہ اس کی جانب بڑھا تھا اور اسے بازو سے تھام اٹھایا تھا ، اس کا لرزتا وجود اس کی آہنی گرفت میں آگیا تھا۔
“بیٹی۔۔۔۔کون سی بیٹی؟ ” اس کی نگاہوں میں علیحدہ چمک تھی ، خنجر اس کی شہہ رگ پہ بھی چل چکا تھا ، خون کا لاوا پھر ابلا تھا۔
وہ فاطمہ کے گرتے وجود کے ھمراہ ہی بیٹھتا چلا گیا تھا ، پھر رونے لگا تھا پھر ہنسنے لگا تھا۔
” کیوں تم خواب میں آکر اپنی اذیت کا طعنہ دیتی ہو ؟ ، میں تو کلاکار ہوں ، میرا کام تو تمھیں استعمال کرنا ہے ، تمھارا وجود ہی نہیں کیا تم نہیں واقف پری۔۔۔؟ ” وہ اپنے خون آلود ہاتھوں سے نادیدہ اشک صاف کرتا مستقل ہنس رہا تھا۔
وہ زندگی بھر اسی امر کا مرتکب رہا تھا ، زندگی کی ابتداء ہی میں وہ اپنا کاسہ بدی کے دروازے پر لے کر جا پہنچ چکا تھا ، وہ دن اور آج کا دن بدی اس کا ساتھ چھوڑنے سے انکاری تھی اور نہ ہی اس نے کبھی کوشش کی تھی ، وہ کلاکار جو بن گیا تھا۔
پورچ کا دروازہ پوری قوت سے اسی لمحے توڑا گیا تھا ، افضل اور اس کے ساتھی اندر داخل ہوئے تھے ۔
فاطمہ کا خون میں لت پت وجود اس کے پیروں سے زمین کھینچنے کو کافی تھا ، وہ نگاہوں میں آنسو لیے اس کی جانب بڑھا تھا ، بقیا نفری بھی ادھر ادھر پھیلتی اس دبیز چادر والے کو بالآخر گھیر چکی تھی۔
افضل اس کے پاس زمین پہ جا بیٹھا تھا ۔
” فاطمہ ، فاطمہ ” وہ گویا ہوا تو آواز ساتھ دینے سے انکاری تھی۔
” تم اس کے باپ ہو ؟ “
افضل نے نگاہ اٹھا کہ اسے دیکھا ، اس کی دیدوں سے خون ٹپکنے کی ہی دیر تھی بس۔
” اچھا تو تم اس کے باپ ہو۔۔۔ ” اس سفاک نے ایک نگاہ ارد گرد دہرائی ، پھر مسکرایا اور بولا۔
“جب تک متقیت کی راہ پہ نہیں چلتے منافقت کی آڑ میں بدی کے کلاکار تو تم بھی ہو ، کلاکار صرف میں تو نہیں” اور پھر وہی نغمہ گنگانے لگا تھا۔
Itsy bitsy spider climb up the water spout
Down came the rain and wash the spider out
Out came the son and dried up….
افضل نے ریوالور سے عین اسی وقت اس کے سر پہ تین چار فائر کیے تھے ، اور پھر فاطمہ کو بے بسی سے گود میں بھر لیا تھا۔
“جب تک متقیت کی راہ پہ نہیں چلتے منافقت کی آڑ میں بدی کے کلاکار تو تم بھی ہو” راہ گزر پہ جابجا لہو بکھرا دیکھ اسے اس کی بات یک لخت یاد آئی۔
” ان کے گھر والوں کو اطلاع کردو کہ ان کی نشاندہی کریں ، ہم نے تو قربانی دے دی مگر باقی بچے تو محفوظ ہوگئے ، اللہ قبول کرے ” وہ یاسیت سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر اسی قربانی کے عوض اس نے تمغہ بھی حاصل کیا اور ترقی بھی۔
تو کیا آپ جانتے ہیں کلاکار کون تھا ۔۔۔۔؟

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Kalakaar”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?