یہ کہانی ہے شیطانوں کی۔ شیطان جو ہمارے ارد گرد ہیں، اور شیطان جو ہمارے اندر بسیرا کیۓ ہوۓ ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت سے مراد تخت و تاج کا حصول ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ طاقت اپنے اندر موجود شیطان کو شکست دینے کا نام ہے، اور اس کہانی کے کردار اسی کشمکش میں مبتلا رہیں گے۔ اس کہانی کے ذریعے میں بتانا چاہتی ہوں کہ وقت میں پیچھے یا آگے نہیں جا سکنا اصل میں ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور اس نعمت سے اس کہانی کے بہت سے کردار محروم رہیں گے کیونکہ آپ دیکھیں گے کہ کیسے وہ وقت کو بدلنے کی جستجو میں خود بدل جائینگے-
عمر گزشتہ 1815 کے بر صغیر کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سازش، سیاست اور طاقت کی بو گھلی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا لڑائی کس کے خلاف ہے لیکن فاتح صرف وہی ہوگا جس کی نیت صاف ہو۔ عمومی طور پر ہر سیاسی جنگ کو شطرنج کی بساط سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھی ویسی ہی ہے لیکن اس بساط پر ہر مہرہ چلنے سے پہلے کرداروں کو سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلنا ہوگا۔ اٹھ کر گرنا ہوگا، گر کر اٹھنا ہوگا۔
یہ کہانی ہے شیطانوں کی۔ شیطان جو ہمارے ارد گرد ہیں، اور شیطان جو ہمارے اندر بسیرا کیۓ ہوۓ ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت سے مراد تخت و تاج کا حصول ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ طاقت اپنے اندر موجود شیطان کو شکست دینے کا نام ہے، اور اس کہانی کے کردار اسی کشمکش میں مبتلا رہیں گے۔ اس کہانی کے ذریعے میں بتانا چاہتی ہوں کہ وقت میں پیچھے یا آگے نہیں جا سکنا اصل میں ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور اس نعمت سے اس کہانی کے بہت سے کردار محروم رہیں گے کیونکہ آپ دیکھیں گے کہ کیسے وہ وقت کو بدلنے کی جستجو میں خود بدل جائینگے-
عمر گزشتہ 1815 کے بر صغیر کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سازش، سیاست اور طاقت کی بو گھلی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا لڑائی کس کے خلاف ہے لیکن فاتح صرف وہی ہوگا جس کی نیت صاف ہو۔ عمومی طور پر ہر سیاسی جنگ کو شطرنج کی بساط سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھی ویسی ہی ہے لیکن اس بساط پر ہر مہرہ چلنے سے پہلے کرداروں کو سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلنا ہوگا۔ اٹھ کر گرنا ہوگا، گر کر اٹھنا ہوگا۔
یہ کہانی ہے شیطانوں کی۔ شیطان جو ہمارے ارد گرد ہیں، اور شیطان جو ہمارے اندر بسیرا کیۓ ہوۓ ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت سے مراد تخت و تاج کا حصول ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ طاقت اپنے اندر موجود شیطان کو شکست دینے کا نام ہے، اور اس کہانی کے کردار اسی کشمکش میں مبتلا رہیں گے۔ اس کہانی کے ذریعے میں بتانا چاہتی ہوں کہ وقت میں پیچھے یا آگے نہیں جا سکنا اصل میں ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور اس نعمت سے اس کہانی کے بہت سے کردار محروم رہیں گے کیونکہ آپ دیکھیں گے کہ کیسے وہ وقت کو بدلنے کی جستجو میں خود بدل جائینگے-
عمر گزشتہ 1815 کے بر صغیر کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سازش، سیاست اور طاقت کی بو گھلی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا لڑائی کس کے خلاف ہے لیکن فاتح صرف وہی ہوگا جس کی نیت صاف ہو۔ عمومی طور پر ہر سیاسی جنگ کو شطرنج کی بساط سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھی ویسی ہی ہے لیکن اس بساط پر ہر مہرہ چلنے سے پہلے کرداروں کو سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلنا ہوگا۔ اٹھ کر گرنا ہوگا، گر کر اٹھنا ہوگا۔
یہ کہانی ہے شیطانوں کی۔ شیطان جو ہمارے ارد گرد ہیں، اور شیطان جو ہمارے اندر بسیرا کیۓ ہوۓ ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت سے مراد تخت و تاج کا حصول ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ طاقت اپنے اندر موجود شیطان کو شکست دینے کا نام ہے، اور اس کہانی کے کردار اسی کشمکش میں مبتلا رہیں گے۔ اس کہانی کے ذریعے میں بتانا چاہتی ہوں کہ وقت میں پیچھے یا آگے نہیں جا سکنا اصل میں ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور اس نعمت سے اس کہانی کے بہت سے کردار محروم رہیں گے کیونکہ آپ دیکھیں گے کہ کیسے وہ وقت کو بدلنے کی جستجو میں خود بدل جائینگے-
عمر گزشتہ 1815 کے بر صغیر کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سازش، سیاست اور طاقت کی بو گھلی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا لڑائی کس کے خلاف ہے لیکن فاتح صرف وہی ہوگا جس کی نیت صاف ہو۔ عمومی طور پر ہر سیاسی جنگ کو شطرنج کی بساط سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھی ویسی ہی ہے لیکن اس بساط پر ہر مہرہ چلنے سے پہلے کرداروں کو سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلنا ہوگا۔ اٹھ کر گرنا ہوگا، گر کر اٹھنا ہوگا۔
وقت سراب ہے۔۔۔
کتنا مہربان۔۔۔ کتنا ظالم کوئی آج تک نہیں جان پایا۔ احد ایک لڑکا جو خوش ہے اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ۔۔۔ مگر پھر ایک دن احد کے ساتھ کیا ہوا۔
یہ وقت نے کیسی چال چلی۔۔۔ احد کا سب کچھ کہاں گیا۔۔۔ وقت نے کیا کیا؟
کئی سوال۔۔۔
مگر ایک ہی جواب۔۔۔ “کسے معلوم؟”