کہتےہیں جتنا چھانو گے اتنا ہی کرکرا نکلے گا-بعض اوقات خوب سے خوب تر کی تلاش میں انسان اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت بھی گنوا دیتا ہے لیکن آذر کے ایک فیصلے نے بہت سوں کا نقصان ہونے سے بچا لیا تھا
ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو اللہ سے محبت کرتی ہے۔وہ اپنے اقدار پر ڈٹی رہتی ہے۔دنیا والوں کے لیے اللہ کو ناراض نہیں کرتی۔
وہ حرام رشتوں میں گھری نوجوان نسل کواس سب سے نکالنا چاہتی ہے۔وہ چاہتی ہے کہ لڑکیاں اس مریم کی طرح پاک ہو جائیں جس کی مثال اللہ قرآن میں دیتا ہے۔اس جیسی نہ سہی۔۔۔اس کی بیٹیاں ہی بن کر دکھائیں!
زندگی کے سفر میں وہ بھی پرفیکٹ نہیں۔۔۔اس سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔لیکن اچھی لڑکیاں تو وہ ہوتی ہیں جو غلطیوں سےکچھ سیکھ کر آگے بڑھ جائیں اور دوبارہ وہ غلطیاں نہ دہرائیں۔
یہ ایک کرائم فیکشن اسٹوری ہے، جسمیں ہمارے معاشرے میں دو خاموش اور گمنام پہلوؤں کا ذکر ہے، ٹاکسک پیرنٹنگ اور سائیکوپیتھی. کہانی ہے کرداروں کے بھولے ماضی اور ناگہانی مستقبل کی. کہانی کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ کردار کیسے روپ بدلیں گے یہ جاننے کے لیے آپکو کہانی بھی اُن کرداروں کے ساتھ ساتھ پڑھنا ہوگی
مرد اور عورت کی دوستی کبھی بے غرض نہیں ہوتی۔ خارجی یا اندرونی عوامل اسے آلودہ کر ہی دیتے ہیں۔مگر ثومیہ کے لیے یہ ماننا آسان نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ۔۔۔۔
چاند کی چاندنی خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو سورج کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ثانیہ بھی اپنی چاندنی کو ماند نہیں ہونے دینا چاہتی تھی اس لیے اس نے وہ کیا جو ہر کسی کی سمجھ میں آنے والا نہیں تھا
کبھی کبھی وقت کی کسی ایک اکائی میں وقوع پزیر ہونے والا واقعہ انسان کے ہر فیصلے پر اپنا رنگ ثبت کرتاچلا جاتا ہے۔ سماریہ کے لیے اب فیصلہ کرنا اتنا آسان بھی نہ رہا تھا
تبدیلی جب بھی آتی ہے پورے کروفر سے آتی ہے اور انسان کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ اس تغیر کو پوری روح سمیت قبول کرلیتاہے ۔ عجب مائع صفت ہوتا ہے آدمی بھی۔ ڈھلتا جاتا ہے اور مسخ بھی نہیں ہوتا
یہ داستانِ عشق ہے ۔ وہ عشق جس کی تاثر منکرین کو آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ اور پھر ان کے پاس اسی عشق کو اوڑھ لینے کے سواء کوٸ چارہ نہیں ہوتا۔ اس کہانی کے کردار آپ کو یہی عشق اوڑھتے نظر آٸیں گے۔ کچھ خاموش محبتیں جن کی خاموشی فضا میں رقص کرنے لگتی ہے۔ لیکن انسان ٹھہرا صدا کا نافہم جو اس خاموشی کو محسوس کرنے میں صدیاں لگا دیتا ہے۔ ماضی کے کچھ ایسے ناسور جو وبال جان بن جاتے ہیں۔ اور پھر صدیوں تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔
کبھی کبھی حالات انسان کی خواہشات کے خلاف ہوتے ہیں اور جب وہ انہیں شکست نہیں دے پاتا تو اپنے ارد گرد ایک تصوراتی دنیا بنا لیتا ہے۔ اس نے بھی ایسی ہی ایک دنیا بسا لی تھی جس میں وہ سب تھا جو۔۔۔۔
شرافت کے شجرے کسی کے ماتھے پر سجے نہیں ہوتے نہ ہی نجابت کسی کی میراث ہے مگر عمر کی محبت کو نجیب الطرفین ہونے کی کسوٹی پر پورا اترنا تھا جسے کیچڑ میں کھلے ایک کنول نے اسیر کر لیا تھا
زندگی کے سیدھے سادے راستے پر چلتے چلتے اچانک مل جانے والے سمعان گردیزی نے آرش حسن کواپنا رستہ بھلا دیا تھا۔ حقیقت کے دبیز اندھیرے میں اک حسین خواب کی روشنی پھیلنا چاہتی تھی مگر وہ اپنوں کے ہاتھوں کیے گئے ایک اندھے فیصلے کی صلیب اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سزاوار تھی
زخرف اعجاز کے دل کی گہرائی میں کون کون سے راز چھپے ہوئے ہیں یہ جاننا منصور کے لیے سہل نہ تھا۔اس کے لیے تو وہ خود ایک سربستہ راز تھی جواپنوں کی خاطر ایک کڑی مسافت طےکر رہی تھی۔ جسےعلم نہ تھا کہ منزل کی تلاش میں وہ ایک سراب کا تعاقب کر رہی ہے