جب انسان کو ہر چیز میسر ہو تمام تر آساٸشیں ملی ہوٸی ہوں تو انسان کبھی اپنے اصل مقصد تک پہنچ ہی نہیں سکتا،جب تک در در کی ٹھوکریں نا لگیں جب تک انسان سنبھل ہی نہیں سکتا ، اور جب تک روح پر گہرا زخم نا لگے انسان رب کے سجود جھک ہی نہیں سکتا۔۔۔“
یہ ایک خودسر لڑکی کی کہانی ہے جو دنیا کی رنگینیوں میں گم اپنا گھر ،ماں باپ سب چھوڑ آتی ہے یہ کہانی ہے اپنی تلاش کے سفر کی جو شروع ہوا گمراہی سے اور ختم ہوا اپنی تلاش پر راہِ ہدایت پر۔۔۔
زندگی میں کچھ خواہشیں کچھ چاہتیں چند واقعات کی نظر ہو کر حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔۔کہانی کرداروں کی جستجو اور چاہتوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، جو کسی نہ کسی مقام پر پوری ہوتی ہیں یا دل میں دبی حسرت ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔
محبتوں کی پرکھ نہیں کی جاتی نہ ہی رشتے آزمانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہر شخص ہمارے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا اس لیے اسے آزمائش میں ڈالنا زیادتی ہے مگر عشیر نے اس کی وفا کو امتحان میں ڈال دیا تھا جس نے محبت کا گھروندہ ابھی بنایا بھی نہیں تھا
وقت کا سیل رواں یونہی گزر رہا تھا کبھی کوئی لہر انہیں قریب لے آتی اور کبھی کوئی موج دور پٹخ دیتی ۔دونوں ہی ضدی تھے ایک کی مانگنے کی خو نہیں تھی تو دوسرا بن مانگے دینے کا عادی نہیں تھا
کچھ لوگ اپنی بے سکونی کا علاج دوسروں کو بے سکون کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ہر بار قسمت یاوری نہیں کرتی کبھی کبھی وہ کچھ بھی ہوجاتا ہے جس کا انسان گمان بھی نہیں کرسکتا
محبت کرنے والوں کو دکھ دیتے ہوئے اس نے گمان بھی نہ کیا تھا کہ مکافات عمل کا وقت بھی آئے گا۔پورے راستے اس کے اندر جھکڑ چلتے رہے۔ غصہ نفرت جوش اور تاسف اس کے اندر سر پٹختارہا تھا مگر جس لمحے وہ اندر داخل ہوا سارا شور ایک سکوت کے زیر اثر آگیا
زخرف اعجاز کے دل کی گہرائی میں کون کون سے راز چھپے ہوئے ہیں یہ جاننا منصور کے لیے سہل نہ تھا۔اس کے لیے تو وہ خود ایک سربستہ راز تھی جواپنوں کی خاطر ایک کڑی مسافت طےکر رہی تھی۔ جسےعلم نہ تھا کہ منزل کی تلاش میں وہ ایک سراب کا تعاقب کر رہی ہے
زندگی کے سیدھے سادے راستے پر چلتے چلتے اچانک مل جانے والے سمعان گردیزی نے آرش حسن کواپنا رستہ بھلا دیا تھا۔ حقیقت کے دبیز اندھیرے میں اک حسین خواب کی روشنی پھیلنا چاہتی تھی مگر وہ اپنوں کے ہاتھوں کیے گئے ایک اندھے فیصلے کی صلیب اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سزاوار تھی
شرافت کے شجرے کسی کے ماتھے پر سجے نہیں ہوتے نہ ہی نجابت کسی کی میراث ہے مگر عمر کی محبت کو نجیب الطرفین ہونے کی کسوٹی پر پورا اترنا تھا جسے کیچڑ میں کھلے ایک کنول نے اسیر کر لیا تھا
کبھی کبھی حالات انسان کی خواہشات کے خلاف ہوتے ہیں اور جب وہ انہیں شکست نہیں دے پاتا تو اپنے ارد گرد ایک تصوراتی دنیا بنا لیتا ہے۔ اس نے بھی ایسی ہی ایک دنیا بسا لی تھی جس میں وہ سب تھا جو۔۔۔۔