یہ ایک کرائم فیکشن اسٹوری ہے، جسمیں ہمارے معاشرے میں دو خاموش اور گمنام پہلوؤں کا ذکر ہے، ٹاکسک پیرنٹنگ اور سائیکوپیتھی. کہانی ہے کرداروں کے بھولے ماضی اور ناگہانی مستقبل کی. کہانی کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ کردار کیسے روپ بدلیں گے یہ جاننے کے لیے آپکو کہانی بھی اُن کرداروں کے ساتھ ساتھ پڑھنا ہوگی
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنی حقیقت کو جاننے کیلئے کوشاں ہے۔ اسکی یہ جدوجہد نیویارک کی تاریک و روشن سڑکوں پہ آہستہ آہستہ سرکتی کہیں ایسی جگہ جا جڑتی ہے جہاں اسکی مٹی کا خمیر اٹھایا گیا۔ یہ ایک ایسے انسان پہ محیط ہے جو اپنی ذات کو پہچاننے سے نالاں ہے۔ ایسی عورتوں کی کہانی ہے جو اپنی زندگی میں آنے والے نئے موڑ سے اپنی پوری زندگی بدل بیٹھی ہیں۔
یہ ایک کرائم فیکشن اسٹوری ہے، جسمیں ہمارے معاشرے میں دو خاموش اور گمنام پہلوؤں کا ذکر ہے، ٹاکسک پیرنٹنگ اور سائیکوپیتھی. کہانی ہے کرداروں کے بھولے ماضی اور ناگہانی مستقبل کی. کہانی کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ کردار کیسے روپ بدلیں گے یہ جاننے کے لیے آپکو کہانی بھی اُن کرداروں کے ساتھ ساتھ پڑھنا ہوگی
یہ کہانی دو کزنز کی ہے جو ایک”معصوم” اور “پاکیزہ” دوسری اتنی ہی چالاک اور “نڈر”ہے ۔۔۔اپنا سارا “گناہ” اپنی کزن پہ ڈال کر خود “پر سکون” ہو جاتی ہے مگر “مکافات عمل” ایک “اٹل” حقیقت ہے ۔۔۔
انسانی نفسیات کوئی سائنسی فارمولہ نہیں کہ ہر شخص پر یکساں نتائج مرتب کرے۔جس طرح ہر انسان کی صورت دوسرے سے مختلف ہے اسی طرح سوچ بھی الگ ہے اور خوشیاں بھی۔ کون سا رستہ منزل کو جاتا ہے، سفر سے پہلے اس کا تعین کرنا ہی اصل کامیابی ہے مگر وردہ کو یہ کون بتاتا جو محبوب کی خوشی کے لیے خود کو دکھوں کو بھٹی سے بھی گزارنے کو تیار تھی۔
ایسے کرداروں کی داستان کی گئی ہے جسے عذر گناہ نے معصیت کے دلدل میں پھنسادیا تھا۔گناہ سے توبہ تک کے سفر میں انسان گر گر کر سنبھلتا ہے اور پھر سنبھل سنبھل کر چلتا ہے ۔ایسے ہی ایک سفر کا قصہ۔۔
شاذان حیات علی کھلی فضاؤں کا باسی تھا اسے باندھ کر رکھنا ساحلوں کی پروردہ ایما کے لیے کیسے ممکن ہوسکتا تھا
مگر وقت کی ایک اکائی اس جیسے صیاد کو اسیر بنا گئی
وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ یوں ہار جائے گا کہ پھر جیتنے کی کوئی خواہش ہی نہ رہے گی
جس ہستی کی وجہ سے وہ دور بھاگتا رہاتھا وہی اسے واپسی کا اذن دے رہی تھی ۔۔
یہ کہانی ہے ایک ڈیوارسی فادر اور ایک سنگل مدر کی، کہانی ہے ارحم اور اجیارہ کی، یہ کہانی ہے ان کے دو معصوم بچوں زیان اور میرال کی اور ان کی زندگی میں موجود خلاء کی اور ان کی چھوٹی چھوٹی معصوم خواہشات کی کہ کیسے اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا کرتے قسمت ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل لے آئی تو کیا کر پائیں گے یہ دونوں اپنے بچوں کی زندگی کا خلاء پر یا پھر ہمیشہ کی طرح قسمت لے گی ان دونوں کا امتحان آئیے جانتے ہیں کچھ خاص سے۔۔۔
اس ناول کا بنیادی موضوع انسانی رویوں میں پائی جانے والی شدت ہے ۔ ہمارا وطیرہ ہے کہ ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے اور اپنی نفرت کوصحیح ثابت کرنے کے لئےمفروضے تلاش کرتے ہیں اور جواز گھڑتے رہتے ہیں اور اکژ زندگی کے حسین دن انہی نادانی کی نزر ہو جاتے ہیں۔
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنی حقیقت کو جاننے کیلئے کوشاں ہے۔ اسکی یہ جدوجہد نیویارک کی تاریک و روشن سڑکوں پہ آہستہ آہستہ سرکتی کہیں ایسی جگہ جا جڑتی ہے جہاں اسکی مٹی کا خمیر اٹھایا گیا۔ یہ ایک ایسے انسان پہ محیط ہے جو اپنی ذات کو پہچاننے سے نالاں ہے۔ ایسی عورتوں کی کہانی ہے جو اپنی زندگی میں آنے والے نئے موڑ سے اپنی پوری زندگی بدل بیٹھی ہیں۔
غفلت کی نیند سونے والوں نے جو پھندے دوسروں کے گلوں میں ڈالے تھے۔۔۔وہی پھندے انہیں گھسیٹت رہے ہیں کیونکہ کچھ گناہوں کہ کفارے ادا کرنا پڑتے ہیں ۔۔۔۔ ساری زندگی ۔۔۔
زندگی بھی وہ جو ریگ کی مانند ہاتھ سے پھسلتی گئی ۔۔۔
انجان مصوّر کہانی ہے وطن کی خاطر میدانِ جنگ میں اترنے والوں کی۔۔۔۔
یہ داستان ہے “دو” کرداروں کے سفرِ محبت کی جو دوستی سے محبت اور پھر ہجر سے ملاقات کا ایک ایسا سفر ہے جس میں رکاوٹ کوئی بیرونی قوت نہیں بلکہ کرداروں کی انا ہے۔ اس کہانی میں ایک کردار کی چھوٹی سی غلطی باعث بنی ایک طویل ہجر کا۔
انجان مصوّر میں آپ ایک ایسے کردار سے بھی ملیں گے جس کی دولت حاصل کرنے کی خواہش اسے ایک برے انجام تک پہنچائے گی۔
مگر کیا ہوگا جب یہ تین لوگ “تکون” بن کر آپس میں ٹکرائیں گے؟ اور اس تکون کا کون سا حصّہ سب سے زیادہ نقصان اٹھائے گا؟ یہ جاننے کیلئے اس کہانی کو پڑھیں جو آپکو کچھ نا کچھ ضرور سکھائے گی۔
کہانی کے چار باب ہیں اور ہر باب کا ایک الگ نام ہے۔ جہاں تک بات ہے کہانی کے نام کی تو یہ آپکو پڑھ کر ہی پتہ لگے گا کہ اس کہانی کا نام “انجان مصوّر” کیوں رکھا گیا ہے۔۔۔۔
اس کہانی میں آپکو دیگر کرداروں کے سفر بھی دیکھنے کو ملیں گے