یہ کہانی ہے ایک لڑکی کی جو اپنی حدود سے واقف ہے۔اور یہ کہانی ہے اہک لڑکے کی جو اپنی محبت کی حدود کا احترام کرتا ہے ۔ یہ کہانی ہے اس محبت کی جس کو انسان اپنے مذہب کے لہۓ چھوڑ دیتا ہے۔
آپ کو پتہ ہے طهٰ آپ کا مسئله کیا ہے ؟۔آپ صرف اپنا سوچتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آپ کے لئے صرف اپنی ذات اہم ہے اپنے جذبات کی فکر ہے باقی خود سے جڑے لوگوں کے احساسات سے کوئی سروکار آپ کو نہ کل تھا نہ ہی آج ہے ۔ڈھائی سال تک میں نے آپ کی ہر بات مانی ہے ۔آپ نے کہا میں واپس جانے کا نام نہ لوں ،کسی کا ذکر نہ کروں ،سب بھول کر ایک نئی شروعات کروں ۔۔۔۔۔۔۔میں نے سب کیا ۔مگر اب اور نہیں۔۔۔۔آخر ہر بار میں ہی کیوں مانوں جبکہ ہر بار غلط بات پر آپ کی بے جا ضد اور انا آڑے آ جاتی ہے ۔غلطی آپ کی تھی سزا وار بھی آپ تھے ۔مجھے تو ناحق حصے دار بنایا آپ نے مگر اب میں اور سزا نہیں کاٹ سکتی بس بہت ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔ہم جائیں گے طهٰ ۔میں اور جنت جائیں گے آپ جائیں نہ جائیں آپ کی مرضی “۔اپنی بات پر زور دیتے دو ٹوک لہجے اور گیلی آواز میں کہتے ہوئے وہ بھرائی آنکھوں سے اسکو دیکھ رہی تھی۔مزید بحث و منت سماجت کی کوئی وقعت نہیں تھی ۔وہ بے جا ضد پر اڑا تھا تو وہ بلا وجہ اس کے ساتھ کیوں پسے ۔ٹائی پر رکا ہاتھ ساکت ہوا ،سرخی مائل ہوئی آنکھوں میں تکلیف کی رمق مزید بڑھی ،وہ اسکی بات پر سکتے کی سی كیفیت میں گھرا اسکی طرف پلٹا تھا ۔کچھ تھا جو بے آواز ٹوٹ کر کرچی کر چی ہوا تھا ۔شاید اسکا مان تھا ۔تو وہ اب بھی اس کے لئے “ہم”کی فہرست میں نہیں آ پایا تھا ۔وہ اس دائرے سے باہر کھڑا تھا پچھلے ڈھائی سال کی رفاقت بھی اس کے دل میں اسکے لئے جگہ بنانے میں نا کام ٹھہری ۔وہ جذبات و احساسات کی جس نہج پر کھڑا تھا ۔اسکے اندر ہو رہی توڑ پھوڑ میں ام ہانی کی اس بات نے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا سا کام کیا تھا ۔اور ام ہانی کے فرشتوں کو بھی نہیں خبر ہوئی تھی وہ اسکی عام سی بات کو کس خاص تناظر میں دیکھ رہا تھا ۔
“جب فیصلہ کر ہی لیا ہے تو جاؤ پھر ۔روکا کس نے ہے ؟۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اب نہ کسی کے آنے سے اور نہ کسی کے جانے سے ۔سنا تم نے “اب ” کوئی فرق نہیں پڑتا “۔سخت کٹیلے سے انداز میں کہتے پہلی بار اسکی آواز اونچی ہوئی تھی ۔ام ہانی کی آنکھیں اہانت کے احساس سے بھر آئی تھیں ۔ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ان دو نفوس کا المیہ یہ تھا کہ وہ دونوں ہی اس وقت اپنے اپنے احساسات کے زیر اثر اس قدر مرغوب ہو چکے تھے کہ دوسرے کو سمجھنا چاہتے ہی نہیں تھے ۔
کیا لگتا ہے تمہیں شانزے محمود ۔میں کوئی پلے بوائے ہوں جسے عورتوں کا کریز ہے ؟یا اتنا ہی گرا ہوا شخص ہوں جو ہر دوسرے دن عورتیں بدلتا رہتا ہے ۔مرد ہوں تو کیا ٹوٹتے رشتے اثر انداز نہیں ہوتے مجھ پر ؟۔سمجھ کیا رکھا ہے تم نے مجھے ۔میں نے آج تک تمہاری ہر بات کو تمہارا بچپنا سمجھ کر کبھی سیریس نہیں لیا ۔مجھے لگتا تھا تم بہت صاف دل کی ہو ۔جو دل میں ہے وہی زبان پر بھی ہوتا ہے ۔مگر تم تو بہت زہریلی نکلی ہو ۔اس دن بھی میرے بچے کو لے کر تم نے انتہائی فضول بکواس کی تھی ۔میں نے برداشت کر لی ۔مگر آج تو حد ہی ہو گئی ہے ۔آخر کب تک چاچو چاچی کا لحاظ کرتے ہوئے میں تمہیں برداشت کرتا رہوں گا ۔ہاں ؟”ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا وہ چھبتی نظروں سے اسکا زرد پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔شانزے ذرا بھر لڑکھڑائی تھی ۔اسے گرنے سے بچانے کے لئے میسم نے ہی ہاتھ بڑھا کر اسکا بازو تھامتے اسے بچایا تھا ۔شانزے نے اڑی رنگت کے ساتھ اسے دیکھا تھا جس کے چہرے پر اسکے لئے کوئی رعایت نہیں تھی اور شاید دل میں بھی ۔ااگلے ہی پل وہ اپنا ہاتھ اسکے بازو سے ہٹا چکا تھا ۔
ماضی کے کواڑوں سے آتے نفرت و بد گمانی کی دھول لیے تند و تیز ہوا کے جھونکے جو صرف دل ہی نہیں جهلساتے بلکہ روح کو بھی گهائل کر دیتے ہیں ،اور آنکھوں میں وہ دھندلاہٹ لاتے ہیں کہ حقیقت سامنے ہو کر بھی آشکار نہیں ہو پاتی ۔
لیکن محبت کی ٹھنڈی پھوار ہر درد کا درماں بن جاتی ہے ۔دل کے زخم بھر جاتے ہیں ،روح پھر سے سیراب ہونے لگتی ہے اور آنکھیں رخ یار کے دیدار سے جلملا اٹھتی ہیں ۔
محبت ایک نعمت ہے اسے ہاتھ سے کبھی بھی جانے مت دیجئے ۔ہر روپ میں محبتیں بانٹیے ،یہ کہیں گنا بڑھ کر آپ کے پاس واپس آئے گی ایک نہ ایک دن ضرور آئے گی
پریشے کی کہانی جس نے ماں باپ کی خوشی کیلئے ارسل سے شادی کر لی مگر دونوں میاں بیوی کے درمیان محبت ہونے کے باوجود کوئی اپنا پن نہیں ہے اور دونوں ایک دوسرے سے دور ہیں اور شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی زندگی بہت مختلف ہے اب دونوں کو فیصلہ کرنا ہے
یہ کہانی ہے عشوہ خان کی جو موبائل ملنے پر گمراہی کی راہ پہ نکل پڑی۔۔۔اور پھر ایک ایک لڑکے کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بعد اس کا پھر اپنے رب کی طرف لوٹنا۔۔۔اور پھر اسے دوبارہ سے اسامہ خان سے جنون کی حد تک محبت ہونا
اندھیری رات اور اپنے جوابوں کے حصول کے لیے ہاریکا آ یان پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے چلی ۔۔۔ کیونکہ چڑھائی کے نیچے اور چوٹی کے درمیان کہیں اس راز کا جواب ہے کہ ہم کیوں چڑھتے ہیں۔
زندگی جہاں گیلی ہے وہاں بہتر ہے۔
ہر غوطہ ایک نیا ایڈونچر ہے۔
سمندر بلا رہا ہے، اور مجھے غوطہ لگانا ہے۔
گہرائیوں کے چھپے ہوئے خزانوں کو دریافت کرنا۔
اور برق پاشا کو سمندر کی تہہ کو چیرتے اس سے راز نکالنا ایک تھرل لگتا ہے
ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں، نئے دروازے کھولتے ہیں، اور نئی چیزیں کرتے رہتے ہیں، کیونکہ ہم متجسس ہوتے ہیں اور تجسس ہمیں نئی راہوں پر لے جاتا ہے۔
اور نور ایسمیرے ۔۔ اسے دراصل ایک بیماری لاحق ہے جو کہ لاعلاج ہے ۔۔ اور وہ بیماری ہے “تجسس ” کی
طہ اور عبیرہ ۔۔ وہ ہاتھ ملا کے دریافت کرنا کرنا چاہتے ہیں ۔۔ اس دنیا کو ۔۔ اور اس دریافت میں وہ اپنی ایک کہانی بناتے ہیں کیونکہ وہ ہمسفر ہیں ۔۔
اور ان سب کے بعد ساحل حریب ۔۔۔ ایک جنگجو ۔۔ وہ دنیا فتح کرنے کا خواب پالے شہر شہر کے سفر پہ گامزن ہے
اس سب میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کس کو یہ دنیا کہاں لے جائے گی ۔۔۔۔ اور کیسے ملا دے گی
۔دوستی دنیا کی سب سے مشکل چیز ہے جسے سمجھانا ہے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جو آپ اسکول میں سیکھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ نے دوستی کا مطلب نہیں سیکھا، تو آپ نے واقعی کچھ نہیں سیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سنو! مجھے کافی بنا کر دو۔” وہ ریوالونگ چیئر کو گھماتے ہوئے بولا۔
“سوری____آپ نے مجھ سے کہا؟” عنوہ جاتے جاتے پلٹ کر نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
“جی بالکل محترمہ____غالباً آپ کے علاوہ یہاں اور کوئی نہیں ہے؟” اس نے شان بے نیازی سے کندھے اچکائے۔
“میں یہاں کافی بنانے کی جاب نہیں کرتی۔” عنوہ بمشکل اپنے غصے پر قابو پاتے متوازن لہجے میں بولی۔
“بابا کو بھی تو دیتی ہو تو کیا ان کی چاپلوسی کرتی ہو؟” میکائیل نے کہنیاں ٹیبل پر رکھ کر دونوں ہاتھوں پر چہرہ ٹکائے استہزائیہ انداز میں کہہ کر اسے زچ کرنا چاہا اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب ٹھہرا تھا۔
“دیکھیں اب آپ حد سے بڑھ رہے ہیں۔ آپ مجھے مجبور نہ کریں میں سر کو آپ کی شکایت کر دوں گی۔” اس کے وارننگ دیتے لہجے پر میکائیل کاردار کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا۔
“سیریسلی تمھیں لگتا ہے میں اپنے باپ سے ڈر جاؤں گا، شٹل کاک کہیں کی ہونہہ۔” ہنستے ہنستے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
عنوہ نے لب بھینچے اس کی ہنسی دیکھی جب سے یہ بندہ آفس آنے لگا تھا تب سے اس کا سکون برباد ہو کر رہ گیا تھا جانے کس بات کا بدلہ لے رہا تھا؟