یہ افسانہ 1947 کی تقسیم کے بعد بچھڑنے والے رشتوں، یادوں اور خوابوں کا نوحہ ہے۔ یہ اُن چھوٹی ریاستوں اور بستیوں کو خراج ہے جنہوں نے ہجرت کا دکھ دل میں بسائے رکھا۔ لکیر نے صرف زمین نہیں، دلوں، رشتوں اور بچپن کی یادوں کو بھی جدا کیا۔ کہانی اُن بچھڑے چہروں اور کھوئے خوابوں کی ہے جو وقت کی گرد میں دب گئے، مگر امید اب بھی زندہ ہے کہ شاید ایک دن سب کچھ پھر سے جُڑ جائے، اور ہم کہہ سکیں: “ہم صرف بچھڑے تھے، بھولے نہیں”۔
دوستی کی ایک سچی اور خالص کہانی ہے جو زندگی کے تمام نشیب و فراز کے باوجود ہمیشہ قائم رہنے والی ہوتی ہے۔
یہ ناول ان رشتہ دار اور دوستوں کی کہانی ہے جو ایک دوسرے کے دکھ، تکلیف اور خوشی میں شریک ہیں۔ دوستی کا یہ رشتہ نہ صرف اعتماد، محبت اور وفاداری پر مبنی ہے، بلکہ یہ ایک دوسرے کی حمایت اور ہمت بڑھانے کا وسیلہ بھی بنتا ہے۔ کہانی میں ہر کردار کی زندگی میں دوستی کی اہمیت اور اس کے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے، جو دکھاتی ہے کہ ایک سچا دوست صرف مشکل وقت میں نہیں بلکہ خوشیوں میں بھی آپ کا ہمسفر ہوتا ہے۔ کہانی میں دوستی کی وہ گہرائی اور طاقت دکھائی گئی ہے جو ہر رشتہ کو خاص بناتی ہے اور اس میں انسانیت اور احترام کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔
یہ ناول انسانی جذبات کی پیچیدگیوں اور رشتوں کی نزاکتوں کو بیان کرتا ہے۔ یہ کہانی محبت کی دو دھاری تلوار کی مانند ہے، جو نعمت بھی ہے اور لعنت بھی۔ اس میں حسد کی وہ تلخی ہے جو خون کے رشتوں کو بھی زہریلا بنا دیتی ہے، جو اپنوں کو دشمن بنا دیتی ہے۔ یہ کہانی ان لوگوں کی ہے جو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی سزا بھگتتے ہیں، جو اپنوں کے ہاتھوں زخم کھاتے ہیں۔
یہ ناول ایک ایسے سفر کی داستان ہے جہاں ایک انسان کیسے اچھائی سے برائی کی طرف مائل ہوتا ہے، اور یہ کہ کیسے ایک خوبصورت سیرت، صورت کی چمک دمک سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر دل سیاہ ہو تو دنیا کی تمام خوبصورتی بے معنی ہو جاتی ہے۔ ناول کے کرداروں کے ذریعے، یہ پیغام دیا ہے کہ حقیقی خوبصورتی دل کی پاکیزگی میں ہے، نہ کہ صرف چہرے کی خوبصورتی میں۔
اس ناول کو پڑھتے ہوئے قاری کو اپنی عقل کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جو ہمارے اطراف میں روز بروز پیش آ رہی ہے۔ یہ ناول ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے دل کو خوبصورت بنانا چاہیے، کیونکہ یہی ہماری اصل خوبصورتی ہے۔
عینا جو کہ بہت ہی خوش مزاج اور اپنے خوابوں کو بہت زیادہ اہمیت دینے والی لڑکی ہے-
اور وہی دوسری جانب واسک دل کا نرم احساس کرنے والا وقت کی اہمیت کو جاننے والا اور اپنے کام میں میں ہر وقت مشغول رہنے والا لڑکا ہے-
یہ کہانی ہر تعلق کی اہمیت کا بتاتی ہے…
جہاں عینا کا تعلق اپنی بہن اور اپنے خاص دوستوں کے ساتھ اس قدر بہترین ہوتا ہے کہ اسکے مشکل حالات میں یہی خاص لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اسہی طرح واسک کا تعلق اپنے بھائ کے ساتھ بہت ہی بہترین ہوتا ہے….
اور اسہی طرح کہانی کے دوسرے پہلو میں آپکو دیکھنے کو ملے گا کے تعلق جب ٹوٹنے لگتے ہیں تو انسان کیسا بکھرتا ہے اور اہم سے اہم ترین تعلق بھی کتنے کمزور پڑجاتا ہے….
پھر اسہی کہانی میں آپکو آگے یہ بھی دیکھنے کو ملے گا کہ آج کے اس دور میں بھی لڑکیوں کے لئے آنے والے رشتوں کے معاملات کس طرح سے ہوتے ہیں اور کیسے ایک لڑکی کو اکیلے بہت کچھ سہے جانا ہوتا ہے-
واسک کا کردار ہمیں یہ بتاتا ہے کہ امیر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو اپنی جان کر قابض بنے رہیں….
اور اسہی طرح عینا کا کردار ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جو غلط ہے وہ واقعی غلط ہے اور پھر سب کے لئے ہی غلط ہے یہاں عمر جینڈر یا پھر امیر غریب کا کوئی فرق نہیں ہے-
اسہی طرح نوجوانوں کے لئے تعلیم کی اہمیت اور وقت کی قدر کے ساتھ اپنی حدود میں رہنا بھی بہت ضروری ہے….
اور عینا کا کردار جہاں کھل کر جینے والا ہے تو وہی واسک کا کرادر اپنی خواہشوں کا اپنے ہی اندر دبائے رکھنے والا ہے….
مزید کہانی کو جاننے کے لئے ناول کی ہر قسط لازمی پڑھے….
آزمائشوں کا نیا قصہ، کٹھن راستوں کا جہان۔
صبر و شکر کی کہانی، محبت کی انوکھی داستان”
اس کہانی کا مختصراً خلاصہ:
“ساری پریشانیوں کے پیچھے بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں چھپی ہیں، اِس لیے پریشان ہونا چھوڑ دیں، اللہ سے جُڑے رہیں، اللہ سے مدد مانگتے رہیں،
اور صبر سے اللہ کے فیصلوں کا انتظار کریں”
ناول ہمراہی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ حنا معراج اور داور معراج کئی دونوں کزن ہوتے ہیں جبکہ حنا کی فیملی اثرو رسوخ اور مالی حالات میں داور معراج سے کئی زیادہ اونچے مرتبے پر ہوتے ہیں ۔۔
دوسری جانب ماہیرہ ایک عام سے گھر کی خاص خدو خال کی مالک ہوتی ہے جو والدین کی وفات کے بعد پھپھو کے گھر میں رہتی ہے پھپھو ایک ماں بن کر اسے پالتی ہیں اور اپنے بیٹے اصفر سے اس کی منگنی طے کردیتی ہیں، اصفر ایک بےحس اور اور بے روزگار لڑکا ہے جو کہ باہر جانے کے سپنے بنتا ہے اور اپنے بچپن کے دوست داور کے توسط سے لندن چلا جاتا ہے اور جاتے ہوئے مہیرہ سے منگنی توڑ کر جاتا ہے۔۔۔
حنا کے والد زولفقار صاحب حنا کی شادی ایک رئیس زادے خرم قیام ثانی سے کردیتے ہیں،
جو کہ ان کے مرتبے پر میل کھاتے ہیں دولت کے اس فرق نے عمر کے فرق کو یکسر مٹا ڈالا۔۔۔
محبت اخلاق سے ہوتی ہے۔ انسان کا رویہ یہ بہت اہم کردار ہوتا ہے، محبت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے۔ نیت صاف ہو اور یقین پکا ہو تو انتظار۔۔۔۔۔ انتظار رائیگاں نہیں جاتا ہے۔ انتظار کا سفر اور یقین کا سفر سب موجود ہے اس بےلگام سفر میں۔