شجرِ ندامت کے مرکزی کردار ہیں حمدان عالم٫ سندس جہانگیر اور انکے چار بچے:
زوبیہ حمدان ( ایکٹریس)
زاویار حمدان ( بزنس مین)
زنیرہ حمدان( بزنس ویمن)
ذید حمدان( سٹوڈنٹ )
حمدان عالم اور اُنکی اہلیہ سندس جہانگیر کا شمار ملک کے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست میں ہوتا ہے جنہوں نے بزنس کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ذہانت میں دونوں بےمثال ہیں مگر فطرتاً دونوں انا پرست، مغرور اور غصے کے تیز ہے۔ طاقت کے نشے نے اُنکی فطرت میں تکبر کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ اپنے سامنے کسی دوسرے کی بات سنے جانا اُنکو توہین لگتا ہے یہاں تک کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی بات سے بھی وقت بے وقت اختلاف کرتے رہتے ہیں۔ ایک جیسی فطرت کے لوگ اگر ساتھ رہنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو انکا گھر جنت نہیں بن پاتا کُچھ یہی حال حمدان اور سندس کے گھر کا بھی ہے ۔ بات بات پر اختلاف اور لڑائی جھگڑے نے اُنکے بچوں کو بھی گھمنڈی اور فطرتاً بدتمیز بنا دیا ہے۔ عالمز فیملی دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی ہونے کا ناٹک کمیابی سے کرتی ہے مگر درحقیقت ہر ایک فرد اندر سے کھوکھلا ہے۔
دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی نظر آنے والے عالمز کا تختہ اُس وقت الٹ جائےگا جب کہانی کے ولن کی کامیاب چال کے نتیجے میں ہونے والے جھگڑے میں حمدان عالم غصے میں سندس جہانگیر کو طلاق دے دینگے۔ یہ خبر میڈیا پر آتے ہی اُنکے اسٹاک مارکیٹ میں گر جائینگے۔ عالمز کی شناخت کو اس اسکینڈل سے بہت نقصان پہنچے گا۔ طلاق اور پھر حلالہ کی کوشش حمدان عالم اور سندس جہانگیر کے بچوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دے گی۔ دنیا کو ٹھوکر پر رکھنے والے دنیا کا سامنا کرنے سے گریز کریں گے۔ حمدان عالم اور سندس جہانگیر دونوں کی دوسری شادی کے بعد اُنکے بچےکس طرح خود کو سنبھالیں گے اور کیسے مختلف حالات کا مقابلہ کرینگے یہ ناول اُس سفر کے گرد گھومے گا جس میں بہت سے مختلف کردار آئینگے، ماضی کے اوراق بھی کھولے جائیں گے اور اس سفر میں سب اپنا کردار ادا کریں گے۔
یہ کہانی امیر طبقے کے اُس حصے پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہے جہاں کے والدین اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کردیتے ہیں مگر انکی بہترین تربیت کرنا بھول جاتے ہیں۔ کہانی کا اختمام بتائے گا کہ زمین پر اکڑ کر چلنے والوں کو وقت کیسے انکساری سے پیش آنا سکھاتا ہے اور کس طرح حمدان عالم اور سندس جہانگیر دوسرا موقع ملنے پر اپنی اپنی غلطیوں کو سدھاریں گے۔ اس کے علاوہ یہ ناول فرسودہ رسم جس میں عورت کا نکاح قران سے پڑھا دیا جاتا تھا اور حلالہ کا کنسیپٹ جس کو بہت غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے، پر بھی روشنی ڈالے گا۔
یہ کہانی ہے شیطانوں کی۔ شیطان جو ہمارے ارد گرد ہیں، اور شیطان جو ہمارے اندر بسیرا کیۓ ہوۓ ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت سے مراد تخت و تاج کا حصول ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ طاقت اپنے اندر موجود شیطان کو شکست دینے کا نام ہے، اور اس کہانی کے کردار اسی کشمکش میں مبتلا رہیں گے۔ اس کہانی کے ذریعے میں بتانا چاہتی ہوں کہ وقت میں پیچھے یا آگے نہیں جا سکنا اصل میں ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور اس نعمت سے اس کہانی کے بہت سے کردار محروم رہیں گے کیونکہ آپ دیکھیں گے کہ کیسے وہ وقت کو بدلنے کی جستجو میں خود بدل جائینگے-
عمر گزشتہ 1815 کے بر صغیر کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سازش، سیاست اور طاقت کی بو گھلی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا لڑائی کس کے خلاف ہے لیکن فاتح صرف وہی ہوگا جس کی نیت صاف ہو۔ عمومی طور پر ہر سیاسی جنگ کو شطرنج کی بساط سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھی ویسی ہی ہے لیکن اس بساط پر ہر مہرہ چلنے سے پہلے کرداروں کو سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلنا ہوگا۔ اٹھ کر گرنا ہوگا، گر کر اٹھنا ہوگا۔
یہ کہانی ہے شیطانوں کی۔ شیطان جو ہمارے ارد گرد ہیں، اور شیطان جو ہمارے اندر بسیرا کیۓ ہوۓ ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت سے مراد تخت و تاج کا حصول ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ طاقت اپنے اندر موجود شیطان کو شکست دینے کا نام ہے، اور اس کہانی کے کردار اسی کشمکش میں مبتلا رہیں گے۔ اس کہانی کے ذریعے میں بتانا چاہتی ہوں کہ وقت میں پیچھے یا آگے نہیں جا سکنا اصل میں ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور اس نعمت سے اس کہانی کے بہت سے کردار محروم رہیں گے کیونکہ آپ دیکھیں گے کہ کیسے وہ وقت کو بدلنے کی جستجو میں خود بدل جائینگے-
عمر گزشتہ 1815 کے بر صغیر کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سازش، سیاست اور طاقت کی بو گھلی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا لڑائی کس کے خلاف ہے لیکن فاتح صرف وہی ہوگا جس کی نیت صاف ہو۔ عمومی طور پر ہر سیاسی جنگ کو شطرنج کی بساط سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھی ویسی ہی ہے لیکن اس بساط پر ہر مہرہ چلنے سے پہلے کرداروں کو سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلنا ہوگا۔ اٹھ کر گرنا ہوگا، گر کر اٹھنا ہوگا۔
یہ کہانی ہے شیطانوں کی۔ شیطان جو ہمارے ارد گرد ہیں، اور شیطان جو ہمارے اندر بسیرا کیۓ ہوۓ ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت سے مراد تخت و تاج کا حصول ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ طاقت اپنے اندر موجود شیطان کو شکست دینے کا نام ہے، اور اس کہانی کے کردار اسی کشمکش میں مبتلا رہیں گے۔ اس کہانی کے ذریعے میں بتانا چاہتی ہوں کہ وقت میں پیچھے یا آگے نہیں جا سکنا اصل میں ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور اس نعمت سے اس کہانی کے بہت سے کردار محروم رہیں گے کیونکہ آپ دیکھیں گے کہ کیسے وہ وقت کو بدلنے کی جستجو میں خود بدل جائینگے-
عمر گزشتہ 1815 کے بر صغیر کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سازش، سیاست اور طاقت کی بو گھلی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا لڑائی کس کے خلاف ہے لیکن فاتح صرف وہی ہوگا جس کی نیت صاف ہو۔ عمومی طور پر ہر سیاسی جنگ کو شطرنج کی بساط سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھی ویسی ہی ہے لیکن اس بساط پر ہر مہرہ چلنے سے پہلے کرداروں کو سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلنا ہوگا۔ اٹھ کر گرنا ہوگا، گر کر اٹھنا ہوگا۔
یہ داستان ہے چار دوستوں کی۔اور ایک لازوال محبت کی اور ایک دلکش رشتے کی۔دوستی ایسا رشتہ ہے کہ جس کو زوال نہیں چاہے وہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں مگر ان کی روحیں ہمیشہ یکجا رہیں گی۔