کوئی زخموں پر مرہم رکھتا تھا…
کوئی تحریروں سے امیدیں جگاتا تھا…
کوئی سچ کی آنکھ بنا ہوا تھا…
وہ ایک امید تھے، ایک آواز تھے…
ایک روشنی، ایک انقلاب تھے وہ…
مگر امیدیں ٹوٹ گئیں، آوازیں دفن ہو گئیں…
روشنی پر اندھیرے نے راج کر لیا…
اور انقلاب… کبھی آ نہ سکا…
وجہ؟
وہ لوگ… جن کے دلوں میں دل نہیں، پتھر تھے…
جن کے ضمیر مر چکے تھے…
جو لاپرواہ، بےحس، اور خاموش تماشائی بنے رہے…
سب مٹی ہو گئے…
اور جو باقی رہ گئے۔۔
ان کو بچانے بھی کوئی آگے نہیں بڑھا۔
وہ… تنہا رہ گئی…
نم آنکھیں، لرزتے لب،
بہتے آنسو، اور کچھ دعائیں۔۔
چاروں طرف آگ کا طواف…
جس کی تپش اس تک پہنچ رہی تھی۔
اور اس کی آہیں، اس کی پکار…
بس ایک رب سن رہا تھا…
کیا اس کا سننا کافی نہیں؟
کہیں میں اور آپ بھی تکلیف کی شدت میں زبان سے ادا ہونے والی ان بددعائوں میں شامل تو نہیں؟
کیا ہم خاموش تماشائیوں پر عذاب نہیں آئے گا؟
یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جس نے اپنے بچپن میں ہی اپنے قریبی رشتوں کو کھویا تھا خوش فہمیوں اور جھوٹے خوابوں کو اہمیت نا دینے والی ایک باوقار لڑکی کی جو خواہشات کے حصول کی جدوجہد کی بجائے اپنے ضمیر کی سنتی ہے ۔ یہ کہانی ماضی حال ۔۔ محبت ۔۔ جال ۔۔۔خواہش اور ضمیر کے گرد گومتی نظر آئے گی اس سب میں آخر وہ ایسی کون سی چیز ہو گی جو بازی لے جائے گی ۔
حباب یعنی پانی کا وہ قطرہ جو بارش کے وقت پیدا ہوتا ہے۔ اور یاد رہے یہ ان لاکھوں، ہزاروں بارش کے قطروں سے زیادہ نایاب ہے کیونکہ یہ وہ قطرہ ہے جس سے سات رنگ لیے قوس و قزح پروان چڑھتا ہے۔ ایسے ہی ہماری زندگی میں چند قوس و قزح کی مانند کردار موجود ہیں۔ اور ان کرداروں کی کہانی ہے حباب۔۔۔
دو لوگوں کی مختصر سی کہانی جو اپنی اپنی شادی کو کافی سال اور مواقع دیتے ہیں لیکن پھر انکی طلاق ہوجاتی ہے اور وہ اپنے اپنے شبہات کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔۔۔۔۔
تائبہ جسے دس سال بعد احساس ہوا کہ وہ بھلے ہی عورت ہے لیکن عزت اور حقوق اسکے بھی ہیں اب وہ اکیلی تو رہ سکتی ہے مگر اس مرد کے ساتھ نہیں۔۔۔۔
اور آریان جس نے سات سال تک ایک عورت کی ہر خامی برداشت کی سوائے بے وفائی کے۔۔۔۔۔