حدیہ ایک خاموش، ذہین لڑکی ہے جو کمپیوٹر اسکرین کے پردے کے پیچھے چھپے رازوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک دن اسے اپنے والد کی موت کی حقیقت کا سامنا ہوتا ہے، اور ایک انجان آواز اس کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ حدیہ کو ایک ایسے کھیل میں دھکیلا جاتا ہے جہاں نہ کوئی چہرہ اصل ہے، نہ کوئی سچ صاف۔ وہ سچ جاننے کے لیے خطرناک راستوں پر چلتی ہے، لیکن ہر قدم پر ایک نیا راز اور نیا دھوکہ منتظر ہوتا ہے۔ عمر — ایک ایسا شخص جو حدیہ کے ماضی اور حال دونوں سے جڑا ہے — کھیل کا آخری کارڈ ہے۔ سوال یہ ہے: کیا حدیہ سچ برداشت کر پائے گی؟ یا پھر انتقام اور سچ کے درمیان کہیں کھو جائے گی؟
یہ فلسطین کے موجودہ حالات اور ان کی مشکلات کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئ ایک تصوراتی کہانی ہے جسکا مقصد چند بے خبر مسلمانوں کو جگانا ہے اور اس سر زمین کے لیے کوشاں ہر اس انسان کے حوصلے بڑھانے کی ایک ادنی سی کوشش ہے جو فلسطین کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ ہر انسان کی کوشش مختلف ہے انداز مختلف ہے مگر منزل اور مقصد یکتا ہے۔ میری قرآن کی ساتھی راحمہ رانا جن کے ساتھ میرا وقت تو بہت قلیل گزرا لیکن انکی چند اہم ایسی کوششیں جنھوں نے مجھے فلسطین کے حالات سے تو باخبر کیا ہی مگر مجھے یہ بھی سکھایا کہ آخر ہم کیا کریں۔تو یہ کہانی ہر اس انسان کے لیے جسے یہ سوال پریشان کیے ہوۓ ہے کہ
یہ ایک سوئے ہوئے وجود کا سفر ہے —
جہاں خواب حقیقت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں،
اور خاموش روشنی روح کو جگانے آتی ہے۔
یہ کہانی ہے بیداری کی،
رب کی طرف پلٹنے کی اُس صدا کی،
جو ہر نیند میں چھپی ہوتی ہے…
مگر سننے والا ہر کوئی نہیں ہوتا۔
کیونکہ یہ دروازہ ہر کسی پر نہیں کھلتا…
اور جو ایک بار گزر جائے،
وہ واپس نہیں پلٹتا۔
یہ کہانی ایک جوان بیوہ ذرجان کی ہے۔ جو اپنی زندگی اپنے بیٹے کی وجہ سے جی رہی تھی۔ اسکی زندگی پر سکون تھی جبتک اُسکا بچپن کا دوست اسکی زندگی میں واپس نہیں لوٹ آتا۔ جو آتے ساتھ ہی اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیتا ہے۔ اس مرکزی کہانی کے ساتھ اور بھی کہانیاں چلتی ہیں۔