یہ فلسطین کے موجودہ حالات اور ان کی مشکلات کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئ ایک تصوراتی کہانی ہے جسکا مقصد چند بے خبر مسلمانوں کو جگانا ہے اور اس سر زمین کے لیے کوشاں ہر اس انسان کے حوصلے بڑھانے کی ایک ادنی سی کوشش ہے جو فلسطین کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ ہر انسان کی کوشش مختلف ہے انداز مختلف ہے مگر منزل اور مقصد یکتا ہے۔ میری قرآن کی ساتھی راحمہ رانا جن کے ساتھ میرا وقت تو بہت قلیل گزرا لیکن انکی چند اہم ایسی کوششیں جنھوں نے مجھے فلسطین کے حالات سے تو باخبر کیا ہی مگر مجھے یہ بھی سکھایا کہ آخر ہم کیا کریں۔تو یہ کہانی ہر اس انسان کے لیے جسے یہ سوال پریشان کیے ہوۓ ہے کہ
یہ ایک سوئے ہوئے وجود کا سفر ہے —
جہاں خواب حقیقت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں،
اور خاموش روشنی روح کو جگانے آتی ہے۔
یہ کہانی ہے بیداری کی،
رب کی طرف پلٹنے کی اُس صدا کی،
جو ہر نیند میں چھپی ہوتی ہے…
مگر سننے والا ہر کوئی نہیں ہوتا۔
کیونکہ یہ دروازہ ہر کسی پر نہیں کھلتا…
اور جو ایک بار گزر جائے،
وہ واپس نہیں پلٹتا۔
یہ کہانی ایک جوان بیوہ ذرجان کی ہے۔ جو اپنی زندگی اپنے بیٹے کی وجہ سے جی رہی تھی۔ اسکی زندگی پر سکون تھی جبتک اُسکا بچپن کا دوست اسکی زندگی میں واپس نہیں لوٹ آتا۔ جو آتے ساتھ ہی اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیتا ہے۔ اس مرکزی کہانی کے ساتھ اور بھی کہانیاں چلتی ہیں۔
کہانی ہے دہر اسیر کی ۔ ہر اس شخص کی کہانی جو وقت کا قیدی ہے ۔ ہر وہ شخص جو اپنے دہر کا اسیر ہرہے ۔ اگر آپ بھی اپنے ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں تو یہ کہانی آپ کے لئے ہے ۔