Maut

Ask for More Information

Meet The Author

Maut

وہ درخت کے سائے میں درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ صبح سے بھاگ بھاگ کر اس کے پاؤں میں آبلے پڑ چکے تھے۔ کمر درد کے مارے اکڑ گئی تھی۔ اور سر درد کی شدت سے پھٹ رہا تھا۔ کندھے کے گرد لٹکے چغے میں پڑی پانی کی بوتل ختم ہوچکی تھی۔ اطراف میں سوائے جھاڑیوں کے کچھ بھی نہ تھا۔
اس کا فون جس کی بیٹری ڈیڈ ہوچکی تھی بیکار پڑا تھا۔
سوائے اس کے دور دور تک اس جگہ نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات تھی۔ ابھی اس کا سفر شروع ہوا تھا ابھی تو منزل بہت دور تھی۔ وہ ہمت کرتا کھڑا ہوا ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔
اسے کے دو قدم دور چلتے ہی اسے کسی لڑکی کے چلانے کی آواز سنائی دی۔ وہ یکدم پیچھے مڑا اور نظریں گھمائیں مگر اسے وہاں کچھ نظر نہیں آیا تو اپنا وہم سمجھ کر پھر سے آگے کی طرف بڑھا۔ مگر آگے بڑھتے ہی پھر سے وہی عمل دوبارہ ہوا۔ اس بار بھی وہ پیچھے مڑا مگر اب بھی کوئی نہ تھا۔ جب تیسری بار بھی یہی عمل ہوا تو اس کو تھوڑا ڈر لگا مگر وہ ہمت کر کہ آگے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف بڑھا آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے وہ اس آواز تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا آواز اب مسلسل اس کے کانوں میں گونج رہی تھی وہ اس آواز کو کھوجتا ہوا اسی طرف بڑھے جارہا تھا۔ آواز اب پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی تھی۔
شام کی رنگینی چھٹنے لگی تھی اور سیاہ کالی رات اپنا لبادہ اوڑھے کھڑی تھی۔
 جیسے ہی وہ آواز کے قریب پہنچا وہ آواز آنا بند ہوگئی اور اسے کوئی نظر نہ آیا تو خود کو ہی واپس اتنی دور آنے پر کوسنے لگا۔
سورج ڈھل چکا تھا اور رات اپنی آب و تاب کے ساتھ امڈ آئی تھی۔ اس نے پھر سے واپس اپنی منزل کی طرف قدم بڑھانے کا سوچا۔
” اتنی بھی کیا جلدی ہے جانے کی” ایک نسوانی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی
“کون؟” وجدان اطراف میں نظریں دوڑاتا ہوا بولا کیونکہ آس پاس کوئی موجود نہیں تھا۔
 مگر سامنے سے خاموشی چھائی رہی۔
وجدان کو لگا کہ وہ شاید کچھ زیادہ ہی تھک چکا ہے اسلئے اس کے ساتھ ایسا ہورہا ہے۔
اس نے ذہن کو جھٹک کر پھر سے آگے کی راہ لی۔
اچانک سے درخت کی ایک ٹہنی ٹوٹ کر اس کے پاؤں میں گری۔
“تمہاری موت ہوں” نسوانی آواز نے کہتے ساتھ ہی قہقہہ لگایا
وجدان نے چہرے کو مطمئن رکھتے ہوئے پھر سے کچھ کہنے کی کوشش کی تبھی اس کے پیچھے ایک اور ٹہنی ٹوٹ کر نیچے گری اور اس بار وہ ڈر گیا اور بری طرح چلایا۔
“ک۔۔۔کک۔۔کون ہو تم؟”
“تمہاری موت” اس بار بھی نسوانی آواز وہی الفاظ قہقہہ کے ساتھ دہرانے لگی۔
وجدان کا دل بری طرح کانپا ، اس کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔
رات آہستہ آہستہ گہری ہونے لگی تھی۔
“ت۔۔تم جو کوئی بھی ہو سامنے آؤ۔” وجدان خود میں ہمت جمع کرتے ہوئے بولا.
“اپنے قاتل کو اپنی ہی موت کی دعوت دے رہے ہو تم” وہ نسوانی آواز اتنی جاندار تھی کہ وجدان کے قدم لڑکھڑانے لگے۔
جنگلی جانوروں کی آوازیں اطراف سے آنے لگیں۔
“دیکھو تم جو بھی ہو مجھے جانے دو میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے” وجدان آس پاس سے آتی آوازوں سے خود کو محفوظ کرتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔
“تم نے میرا کیا بگاڑا ہے ؟ یہ پوچھ رہے ہو تم یاداشت کمزور ہے یا معصوم بننے کا ڈھونگ رچ رہے ہو؟” وہ نسوانی آواز طیش میں آئی۔
“دیکھو میں نہیں جانتا تمہیں، میں نے کچھ نہیں بگاڑا تمہارا مجھے جانے دو”۔وجدان بولتے ہوئے آہستہ آہستہ قدم پیچھے بڑھانے لگا تبھی ایک پتھر اس کے پاؤں کے نیچے آیا اور وہ منہ کے بل زمین پر جا گرا۔
“یہی اوقات ہے تمہاری، تم منہ کے بل گرائے جاؤ۔” وجدان نے اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔
“تمہیں کیا ملے گا میری جان لے کر؟” وجدان درد سے کراہتے ہوئے اس سے بولا
“سکون ملے گا میری روح کو” اس بار نسوانی آواز سنجیدہ تھی۔
“ر۔۔رر۔رو۔۔۔ روح کو”؟ وجدان کی زبان لڑکھڑائی
“ہاں روح” ۔
“ک۔۔کون۔۔کونسی روح”؟
نسوانی آواز کا قہقہہ بلند ہوا۔
“مجھ پر رحم کرو، میری غلطی تو بتاؤ کیوں میری جان کے پیچھے پڑ گئی ہو تم۔”
“تم نے رحم کیا تھا مجھ پر؟” نسوانی آواز چلائی
اطراف سے جنگلی جانوروں کی آوازیں مزید تیز آنے لگیں ہوا کی رفتار تیز ہونے لگی۔ آس پاس پھیلے پتے اڑ کر سرسراہٹ پیدا کرنے لگے۔
“میں نے کیا گناہ کیا تھا؟ مگر پھر بھی تم مجھے اس جنگل میں چھوڑ کر چلے گئے اکیلے تنہا؟ تمہیں رحم نہیں آیا مجھ پر ۔ تم نے سوچا نہیں کہ یہاں موجود جنگلی جانور میرا جسم نوچ لیں گے مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے”۔
“مگر تم ۔۔ تم ۔۔ اپنی ایک شرط کی خاطر چند پیسوں کی خاطر مجھے یہاں چھوڑ کر گئے۔”
” اب یاد آیا؟ کون ہوں میں ؟ کیا نام ہے میرا؟” وہ نسوانی آواز مسلسل چلا چلا کر کہہ رہی تھی.
وجدان کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔ “ر۔۔رد۔۔ردااا۔” وجدان بس اتنا ہی کہہ پایا
“مطلب تمہیں یاد یے۔ ویسے بھی ایک قاتل اپنے مقتول کو کیسے بھول سکتا ہے۔ تمہیں یہاں تمہاری موت لائی ہے وجدان۔ تم یہاں آ تو گئے ہو مگر واپس جا نہیں سکتے۔”
“نہیں تم میرا یقین کرو۔” اس رات تمہارے ساتھ صرف اور صرف پرینک کرنا تھا ہم نے، میرا تمہیں یہاں چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں خود واپس آیا تھا ایک گھنٹے بعد تمہیں لینے جس جگہ میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا ۔ تم وہاں نہیں تھی بلکہ تم تو کہیں بھی نہیں تھی میں نے پورا جنگل چھان مارا تھا ایک ایک جگہ تمہیں ڈھونڈا تھا مگر تم کہیں نہیں تھی۔ یقین کرو میرا ردا۔” وجدان اپنی صفائی پیش کرنے لگا۔
“یقین اور وہ بھی تم جیسے جھوٹے اور مکار شخص کا جو اپنے دوستوں سے بے عزت نہ ہونے کی خاطر ایک تن تنہا لڑکی کو جنگل میں چھوڑ گیا”
“تم میرے سامنے آؤ ردا ” وجدان ہمت جمع کرتے ہوئے بولا۔
“میں تمہارے سامنے نہیں۔ اب تم میرے پاس آؤ گے وجدان خان”.
“مجھے دیکھنے کے لئے تمہیں میرے پاس آنا ہوگا، تمہیں مرنا ہوگا” ہاں تمہاری موت لکھ دی گئی ہے” نسوانی آواز چلائی
  اطراف سے آتی جنگلی جانوروں ، بھیڑیے کی آوازیں اس رات کو مزید خوفناک بنا رہی تھی۔
درخت کی ایک اور ٹہنی ٹوٹ کر وجدان کے پاس گری۔ وہ ڈر کر پیچھے ہوا. ہوا مذید شدت سے چلنے لگی۔ خوف کے مارے وجدان کا دل بری طرح کانپ رہا تھا۔
“یکدم وجدان کی گردن کو کسی نے اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیا ۔اور ہاتھوں کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وجدان کی آنکھیں باہر آنے لگی اس کا سانس اکھڑنے لگا۔ اس نے پوری قوت سے ان ہاتھوں کو ہٹانا چاہا مگر وہ ناکام رہا۔ قدم پیچھے کی طرف کرتے کرتے وہ درخت کے ساتھ لگ گیا۔
“یاد کرو وہ رات جب تم مجھے یہاں اسی درخت کے نیچے چھوڑ کر جا رہے تھے۔ میں چلا رہی تھی۔ میں پوچھ رہی تھی اس کی وجہ کیا یے۔ مگر تم ، تم تو بہرے تھے ہاں تم میری آواز نہیں سن رہے تھے۔ تم نے اسی درخت کے ساتھ میرے ہاتھ باندھ دیئے تھے۔” میرے چیخنے چلانے کے باوجود تم مجھے یہاں چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے۔”
وجدان کی گردن پر ہاتھوں کی گرفت مذید طاقتور ہوتی گئی۔ اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنے لگا۔
“کیا ہوا سانس نہیں آرہا۔ تکلیف ہورہی یے؟”
“جنگلی جانوروں نے میرا جسم نوچ کھایا۔ میرے جسم کے ہر حصے سے خون بہتا رہا۔”
“تمہارا تو پھر بھی گلا دبایا یے۔ میری جیسی اذیت تم برداشت نہیں کر سکتے”.
وجدان کراہنے لگا ، اسے لگا وہ آخری سانسیں لے رہا ہے ۔ اس کی ساری ہمت جواب دے گئی ۔ لاکھ کوششوں کے باوجود وہ خود کو اس روح سے بچا نہ پایا۔”
وہ نسوانی آواز مسلسل ہنس رہی تھی وجدان کی بے بسی پر قہقہہ لگا رہی تھی۔
بھیڑیوں کی آوازیں آنا بند ہوئی ، پتوں کی سرسراہٹ ختم ہونے لگی۔ ہوا میں کمی واقع ہونے لگی۔ ہر چیز وہیں منجمد ہوگئی۔ چاند کی روشنی میں پڑا وجدان کا بے سدھ جسم اور پاس بیٹھا وہ نسوانی چہرہ چمکنے لگے۔۔
ہال کی لائٹس آن ہوئیں۔ پورا ہال آنکھوں میں ستائش لیے تالیاں بجاتے ہوئے اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پانچ سو لوگوں کا یہ مجمع اس ڈرامے کو محسوس کر رہا تھا آنکھوں میں آنسو اور دل میں خوف لئے اس ڈرامے کو جی رہا تھا۔
ہر ایک شخص ان دونوں کرداروں کے لئے تالیاں بجا رہا تھا۔
وہ ردا اور وجدان کے لیئے تالیاں بجا رہا تھا۔”
                                   ختم شد

1 review for Maut

  1. Aleena

    Bht acha afsana likha hai. Dr b lga hnsi b ayi😝

Add a review

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?