Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran By Umme Abbas Episode 3

1 Posts
1 Users
0 Reactions
251 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

دس منٹ کی واک کے بعد وہ پارک پہنچ چکے تھے ۔چاکلیٹ فلیور آئس کریم لے کر وہ دونوں ہی شہیر کی من پسند جگہ کی جانب بڑھے تھے ۔وہ نسبتاً کم رش والی جگہ تھی ۔وہاں دو سنگی بینچ نصب تھے ۔پیچھے  چھوٹی سی جھیل تھی جس کے آگے راہداری اور ساتھ درختوں کی اک قطار سی پورے قد کے ساتھ اٹھی کھڑی تھی ۔

اپنی مخصوص جگہ پہنچ کر اس نے متلاشی نظروں سے ارد گرد دیکھا تھا پھر مایوس نظریں لوٹ کر ماں کے چہرے پر ٹھہر گئی تھیں ۔

"کسی کا انتظار تھا کیا ؟"بینچ پر آرام ده حالت میں بیٹھ کر صلہ نے بیٹے کے ایک ایک تاثر کو بڑی باریک بینی سے جانچا تھا ۔

"وہ آج بھی نہیں آئے ؟شاید واپس چلے گئے ہوں ۔انہوں نے ایک بار بتایا تھا اپنا کام ختم ہوتے ہی وہ واپس چلے جائے گے ۔بٹ انہیں مجھے گڈ بائے تو کہنا چاہیے تھا ماما ۔"وہ جیسے خفگی و ناراضگی کا اظہار کر رہا تھا ۔صلہ کا ماتھا ٹھٹکنا لازمی تھا ۔شہیر کی کسی اجنبی سے اس حد تک اٹیچمنٹ اسکے لئے اچنبھے کا باعث تو ضرور تھی ۔

"ہو سکتا ہے شہیر انہیں ایمرجنسی میں جانا پڑ گیا ہو ۔اور ویسے بھی بیٹا کسی ان نون بندے سے ایسے اٹیچ ہونا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ہمیں زندگی میں بہت سارے لوگ ملتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتے ۔اس لئے کسی کا بھی خود کو یوں عادی نہیں کرنا چاہیے ۔"رسان سے اسے سمجھاتے اشارے سے اسکی توجہ  پگھلتی آئس کریم کی جانب دلائی تھی جس کی وجہ سے اسکا ہاتھ گندہ ہونے لگا تھا ۔ساتھ خود بھی اپنی آئس کریم کا بائٹ لیا ۔

"لیکن وہ ان نون نہیں تھے مما ۔میں انہیں جانتا تھا ۔وہ مجھے اچھے بھی لگے تھے ۔"ہاتھ میں پکڑے ٹشو پیپر سے دوسرا آئس کریم والا ہاتھ صاف کرتے وہ بول رہا تھا ۔

صلہ نے ہونٹ بھینچ کر بیٹے کو دیکھا ۔وہ اسکا کسی سے اس حد تک لگاؤ قطعی پسند نہیں کرتی تھی ۔یہی وجہ تھی جب آج سے دو ماہ پہلے شہیر نے اس شخص کا ذکر پہلی بار اس سے کیا تھا تو پہلے پہل اس نے اگنور کیا تھا کہ شہیر خود بھی زیادہ جلدی کسی سے گھلنے ملنے والا بچہ نہیں تھا ۔اسکی تربیت کے دوران صلہ نے اس امر کو یقینی بنایا تھا وہ اجنبی لوگوں سے زیادہ بات چیت کرنے سے گریز کرتا تھا ۔اسکی اپنے ہم عمر بچوں سے دوستی بھی کم ہوتی تھی ۔زیادہ تر وہ اپنی دنیا میں مگن رہنے والا بچہ تھا ۔اسکی پینٹنگ کافی اچھی تھی ۔روز شام کو وہ ایک گھنٹہ رقیہ خالہ کے ساتھ پارک آیا کرتا تھا ۔کولیسٹرول کی وجہ سے انہیں ڈاکٹر نے واک لازمی کرنے کی ہدایت دے رکھی تھی ۔وہ اور پڑوس میں سے ایک اور آنٹی واک کرتیں اور شہیر وہاں بیٹھ کر پینٹنگ ۔

تب شہیر کے منہ سے تین چار بار اس کا ذکر سن کر اس نے ایک بار رقيه خالہ سے اس بابت استفار کیا تھا ۔

"شہیر آج کل پارک میں کس سے مل رہا ہے خالہ ؟"رات کو شہیر کو سلانے کے بعد وہ بے چین سی اس کے کمرے میں آئی تھی ۔

"ارے جانتی ہوں میں بھی اس بچے کو ۔بڑا بھلا سا بچہ ہے ۔نام بھی بھلا سا ہے ؟ابھی ذہن میں نہیں آ رہا ۔آتے جاتے سلام دعا ہوتی رہتی ہے اس سے ۔تم بے فکر رہو ۔"بستر میں گهسی وہ بنا اسکی طرف دیکھے آنکھیں موندے کہتی ،بات ختم کر گئی تھیں ۔

صلہ نے بھی چپ سادھ لی تھی ۔خالہ جانتی تھیں تو پھر اتنا مسئله نہیں تھا ۔

"تم کہہ رہے تھے تمہیں مجھ سے باتیں کرنی ہیں ۔مگر اب اتنی دیر سے تم خاموش بیٹھے ہو ۔پھر ہم پارک آئے ہی کس لئے ہیں شہیر ؟"اسے کچھ افسرده سا دیکھ کر اس نے اسکا دھیان بھٹکانے کو مصنوئی خفگی کا اظہار کیا تھا ۔

"آف کورس مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں مما ۔"ماں کی ناراضگی جانچتے وہ جھٹ سے مسکرا دیا ۔صلہ نے اسکے سلیقے سے سنورے بالوں کو ذرا برابر چھیڑا تھا ۔

"ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا شہیر ؟لوگ آتے جاتے رہتے ہیں مگر تمہاری ماما ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی ۔تمہیں کبھی نہیں چھوڑیں گی ۔ہوں ؟"اسکی ٹھوڑی کے نیچے اپنی ہتھیلی رکھے وہ قدرے جھک کر اسکی آنکھوں میں جھانک رہی تھی جن کی چمک میں کوئی سپارک سا ہوا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ پر جوش انداز میں اس سے لپٹ چکا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

ہاتھ میں پکڑے گروسری بیگ کو کچن میں رکھ کر وہ اسکی تلاش میں نکلے تھے جو خلاف معمول گھر میں ہوتے ہوئے بھی انہیں ٹی وی لاؤنج میں ٹانگیں پسارے بیٹھا نہیں ملا تھا ۔لانڈری روم میں آ کر جھانکتے انکی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی جب اسے کپڑے دھوتے دیکھا تھا ۔

"یہ آج سورج کس سمت سے طلوع ہوا تھا مرتضیٰ ؟میری آنکھ فجر کے بعد ذرا لگ گئی تھی۔کیا تم نے دیکھا تھا ؟"وہ جو ڈرائی کی ہوئی شرٹس باہر نکال رہا تھا انکے لطیف سے طنز پر پیچھے مڑا ۔

"میں نوٹ کر رہا ہوں بوبی آپکا رویہ دن بدن مجھ سے ڈیلی سوپ کی ظالم ساس جیسا ہوتا جا رہا ہے ۔آتے جاتے طنز کے نشتر چلائے جا رہے ہیں ۔کیا اسی لئے بلايا جا رہا تھا مجھ غریب کو ۔"سر جھٹک کر وہ ایک آخری تنقیدی نگاہ ہاتھ میں پکڑی شرٹ پر ڈالتا اسے پاس کر چکا تھا ۔

"ارے بھئی !میں نے تو بس ایک عام سا سوال کیا تھا تم پتہ نہیں کیوں دل پر لے رہے ہو ۔"کندھے اچکا کر ہونٹوں پر کھیلتی ہنسی کو روک لیا گیا تھا ۔

جواب میں اس نے فقط "اونہوں "کے سے انداز میں سر کو جھٹکا تھا ۔

"اچھا آؤ باہر چلتے ہیں ۔موسم کافی اچھا ہو رہا ہے ۔"دوستانہ سی پیشکش ہوئی تھی ۔

"ابھی میں کپڑے دھو رہا ہوں ۔کچھ دیر بعد چلتے ہیں ۔"

"رہنے دو ۔آ کر دھو لینا ۔بلکہ میں خود دیکھ لوں گا ۔"مرتضیٰ نے حیرت سے انہیں دیکھا تھا پھر اگلے ہی پل وہ ہنس دیا ۔

"آپ بھی کمال کرتے ہیں بوبی ۔پہلے طعنے دے دے کر میرا جینا محال کر دیتے ہیں کہ میں کوئی کام نہیں کرتا اس عمر میں بھی آپ کو اپنے ساتھ ساتھ میرے کام کرنے پڑتے ہیں ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میں جب بھی کوئی کام کرنے لگتا ہوں آپ سے برداشت نہیں ہوتا اور آپ جھٹ سے مداخلت کرتے مجھے روک دیتے ہیں ۔امریکہ کی طرح دوہری پالیسی اپنائے ہوئے ہیں آپ ۔"

واشنگ مشین بند کرتا انکے ساتھ وہ باہر نکل رہا تھا ۔اپنے اپارٹمنٹ سے نکل کر اب عبدالرحمان کاظمی ڈور لاک کر رہے تھے اور وہ پاس کھڑا تبصرہ کر رہا تھا ۔سیدھے ہو کر وہ نظر بھر کر اسے دیکھتے مسکرا دیے  ۔

"ساری عمر تمہارے کام میں ہی تو کرتا آیا ہوں ۔اب عادت ہو گئی ہے ۔تم کرتے ہو تو عجیب سے لگنے لگتے ہو ۔"اسکا کندھا تهپتهپا کر اب وہ دونوں لفٹ کی جانب بڑھ رہے تھے ۔

"لیکن میرے خیال میں اب آپ کو کوئی میڈ رکھ لینی چاہیے ۔"گراؤنڈ فلور کا بٹن دباتے وہ انکی طرف دیکھنے لگا ۔

"مجھ اکیلے کا کام ہی کتنا ہوتا ہے جو میڈ کی ضرورت پڑے ۔ویسے بھی چھوٹے موٹے کاموں میں دل بہل جاتا ہے ۔زندگی میں اس عمر میں آ کر مصروفیت تو ویسے بھی ندارد ہو کر رہ جاتی ہے ۔حالانکہ اس عمر میں بندے کو مصروف رہنے کی زیادہ ضرورت رہتی ہے ۔ورنہ تو اپنا آپ بے مقصد سا لگنے لگتا ہے ۔"

"آپ میرے ساتھ چلیں بوبی ۔کچھ ماہ کی تو بات ہے پھر ہم دونوں ایک ساتھ واپس آ جائیں گے ۔"لفٹ سے نکلتے اسکا لہجہ بے اختیار ملتجی سا ہوتا چلا گیا ۔عبدالرحمان صاحب نے سر کو نفی میں ہلایا تھا ۔

"نہیں جا سکتا ۔تم تو بنجارے ہو ۔میں کہاں اس عمر میں تمہارے ساتھ جگہ جگہ کی خاک چھانتا پھروں گا ۔زندگی کا اک طویل حصہ ان فضاؤں میں سانس لیتے گزارا ہے میرا نہیں خیال اب کسی اور جگہ کی ہوا میرے کمزور ہوتے پهیپهڑوں کو راس آئے گی ۔"

اب وہ دونوں فٹ پاتھ پر ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔ساتھ ہی ساتھ کھجور کے درختوں کی قطار بھی جیسے محو سفر تھی ۔

"بنجارا تو مت کہیں اب ۔اگر آپ کو یاد نہیں تو میں بتاتا چلوں پچھلے سات سالوں سے مستقل آپ کے پاس تھا میں ۔اب بھی اگر کمپنی کی طرف سے جانا لازمی نہیں ہوتا تو میں انکار کر دیتا ۔لیکن خیر کوئی بات نہیں تین ماہ کی تو بات ہے ۔پھر میں نے آپ کے پاس ہی تو آنا ہے ۔"دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں اڑسے وہ انکی وجہ سے آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا تھا ۔بلیک جینز اور بلیک ہی کالر والی شرٹ میں اسکا دراز قد کچھ اور بھی نمایاں لگتا تھا ۔پاؤں میں سلیپرز پہن رکھے تھے اور سیاہ بال ہوا کے جھونکوں کے ساتھ کچھ منتشر سے ہونے لگے تھے ۔عبدالرحمان نے پر شفیق نرم نظروں سے اسکا بھرپور سراپا اپنی آنکھوں کے رستے دل میں بسایا تھا ۔اک ٹھنڈک کا احساس تھا جو سینے میں دھڑکتے دل میں کہیں سرایت کرتا چلا گیا ۔وہ انکی تمام عمر بھر کی پونجی تھی ۔کبھی انکی انگلی پکڑ کر شارجہ کی انہی سڑکوں پر چلا کرتا تھا آج ان سے بھی قد میں اونچا ہوا ساتھ چلتا تھا تو سکون کا جو احساس انکے رگ و پے میں اترتا تھا وہ نا قابل بیان تھا ۔چلتے چلتے اسکے چہرے پر دبی دبی سے مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی ۔

انکی محویت کو سامنے سے آتیں مس شازمہ نے توڑا تھا

"اسلام علیکم عبدالرحمان صاحب ۔کیسے ہیں آپ ؟اور مرتضیٰ گڈ ٹو سی یو ۔تم کب واپس آئے ۔"جینز کے اوپر لمبا سا کرتا پہنے وہ مسکرا کر ان سے ذرا فاصلے پر رکی آج بھی ہلکے سے میک اپ میں بالکل تر و تازہ لگ رہی تھیں ۔

"وعلیکم سلام ۔"ان دونوں نے بیک وقت جواب دیا تھا ۔

"میں بالکل ٹھیک شازمہ ۔آپ کیسی ہیں ۔سب خیریت ہے ۔"وہ اسکی دبی دبی سی ہنسی کو نظر انداز کرنے کی کوشش میں کچھ بے آرام ہو رہے تھے ۔ذہن میں اسکی اس دن والی گفتگو پوری جزئیات سے گردش کر رہی تھی ۔

"میں بھی بالکل اچھی ہوں ۔تم سناؤ مرتضیٰ ؟"ان سے نظر ہٹا کر خود کو دیکھنے پر وہ ذرا سنجیدہ ہوا تھا ۔

"میں کچھ دن پہلے ہی آیا ہوں ۔آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی مس شازمہ ۔"سر کو ہلکا سا خم دے کر وہ خوش دلی سے کہہ رہا تھا ۔شازمہ نے مسکرا کر اسکا بازو تهپتهپایا ۔کچھ اور جملوں کا تبادلا ہوا تھا اور پھر وہ آگے بڑھ آئے تھے ۔تھوڑے دور ہونے پر مرتضیٰ کا کب سے ضبط کیا ہوا قہقہہ گونجا تھا ۔

"اف ۔۔۔۔بوبی آپ کی شکل دیکھنے والی تھی مس شازمہ کے سامنے ۔بلکہ آپ کے کان اور گال اب بھی لال ٹماٹر ہو رہے ہیں ۔"وہ انہیں چھیڑ رہا تھا ۔

"تمہاری اس دن کی گل فشانی کے بعد کسی بھی شریف انسان کی یہی حالت ہونی تھی ۔"خشمگیں نظروں سے اسے دیکھ گھرکا ۔

"خیر آئیڈیا برا نہیں تھا بوبی ۔آپ کو اس بارے میں سوچنا چاہیے ۔یقین کیجئے آپ کا گھر بسے گا تو مجھے جی جان سے خوشی ہو گی ۔"ہنسی روک کر کہتے وہ اب بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔عبدالرحمان نے رک کر فہمائشی انداز میں اسے گھورا ۔

"میاں یہ خوشی تم مجھے نصیب ہونے دو تو بڑی مہربانی ہو گی تمہاری ۔"

وہ انہیں دیکھ کر ركتا اب کی بار سنجیدہ ہوا تھا ۔

"میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا بو بی ۔"

اسکے ڈوبتے سورج کو دیکھ کر کہنے پر انہوں نے ایک بازو اسکے چوڑے شانے پر دراز کرتے فٹ پاتھ کے دوسری جانب ہریالی کے اس چھوٹے سے قطعے میں نسب لکڑی کے بینچ کی جانب قدم بڑھا دیے تھے ۔

""تو کب کرنا چاہو گے کم از کم یہ ہی بتا دو ۔پتہ ہے کیا مرتضیٰ عمر کے جس حصے میں تمہارا دادا اس وقت ہے نا وہاں آ کر اپنے لئے زندگی کی دعا مانگنا بڑا عجیب سا لگتا ہے مگر میں مانگتا ہوں ۔کہ اللّه میری سانسوں کو تب تک کی مہلت دے دے جب تک تیری شادی نہیں ہو جاتی ۔میں تمہیں تمہاری زندگی میں ہر طرف سے ایک خوش و کامران شخص کے روپ میں دیکھ کر مرنا چاہتا ہوں بیٹا ۔"بینچ پر بیٹھتے ہوئے بھی انہوں نے اسکے کندھے پر سے بازو نہیں ہٹایا تھا ۔

"پھر تو مجھے ساری عمر شادی نہیں کرنی چاہیے بوبی تاکہ آپ یوں ہی میرے ساتھ رہیں ہمیشہ ۔"وہ ایک بار پھر مزاح کے موڈ میں واپس آنے لگا تھا ۔انہوں نے ایک زور دار چپت اسکے شانے پر رسید کرتے ہاتھ پیچھے ہٹالیا تھا ۔

"بس جب بھی منہ کھولنا ۔فضول ہی بولنا ۔"تاسف سے سرہلاتے وہ رخ ہلکا سا موڑ گئے تھے ۔مرتضیٰ ہلکا سا ہنس دیا ۔پھر کچھ دیر بعد اسکی آواز سنائی دی ۔

"میں اقرار کر کے آپ کو کوئی جھوٹی امید دلانا نہیں چاہتا اور نہ ہی انکار کر کے آپ کی کوئی امید توڑنا چاہتا ہوں ، آپ مجھے کچھ وقت دیں اتنا سا وقت جب تک میں واپس نہیں آ جاتا ۔اس کے بعد ہم اس بارے میں بات کریں گے بوبی ۔آپ کو پتہ ہے کوئی ہے جسے دیکھ کر اب مجھے بھی لگنے لگا ہے مجھے شادی کر لینی چاہیے ۔"مکمل سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ پر سرار سے انداز میں مسکرایا تھا ۔آنکھوں کے سامنے کسی کی شبیہ سی لہرائی تھی ۔اپنی طرف سے خفگی کا اظہار کرتے نیم رخ بیٹھے عبدالرحمان پوری طرح اسکی جانب گھومے تھے ۔

"کون ہے وہ ؟کہاں رہتی ہے ۔"بے صبری سوال کیا گیا تھا ۔مرتضیٰ کا زور دار قہقہہ پڑا ۔

"رہتی نہیں رہتا ہے ۔آپ کو بتاؤں گا اس کے بارے میں ۔"اسکی بات پر عبدالرحمان کاظمی کا چہرہ پوری طرح سے لال پڑ چکا تھا ۔آنکھوں سے شرارے نکلنے لگے تھے ۔

"بے ہدایتے انسان ۔کیا اول فول بک رہے ہو ۔میں تمہیں بالکل ایسا کچھ سوچنے تک کی اجازت نہیں دوں گا ۔اللّه کو سخت ناپسند ہے ایسا عمل اور فطرت کے بھی خلاف ہے ۔"گھن گرج کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھتے وہ اسے پریشان کر گئے تھے ۔

"کیا ہو گیا ہے بو بی ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے جو ۔۔۔۔"نا سمجھی سے انہیں دیکھتے وہ تیزی سے بولتے ایک دم رکا تھا ۔انکی بات کا مفہوم جان کر اس کی رنگت حجالت و خفگی سے متغیر ہوئی تھی ۔سرمئی آنکھوں میں شکایت سی جهلکنے لگی تھی ۔اپنی جگہ سے کرنٹ کھا کر اٹھتا وہ انکے سامنے کھڑا ہوا ۔

"کیا بو بی آپ میرے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں ۔میں ایسا نظر آتا ہوں آپ کو ؟"وہ صدمے سے چینخ اٹھا ۔اسکے ایسے ری ایکشن سے انہیں دلی اطمینان ملا ۔

"لیکن ابھی تم نے ہی تو کہا ۔۔۔۔"

"وہ ایک آٹھ نو سال کا چھوٹا سا بچہ ہے بوبی ۔جسے دیکھ کر میرا دل کرتا ہے میرا بھی ویسا ہی کوئی . . .  کوئی بیٹا ہو ۔اور آپ نے کیا کیا سوچ لیا ۔"

ملامت بھرے انداز میں سر جھٹک کر وہ تیز تیز قدم آگے بڑھا گیا تھا ۔پیچھے وہ ساری بات سمجھ آنے مصالحتی انداز اپنائے اسکے پیچھے چل پڑے تھے ۔

"اچھا ٹھیک ہے ۔کبھی کبھی سمجھنے میں غلطی بھی ہو جاتی ہے ۔تمہیں ٹھیک سے بتانا چاہیے تھا ۔"آہستہ آہستہ انکے قدم دور اور آواز مدهم ہوتی جا رہی تھی ۔بدلے میں بنا رکے وہ کچھ کہہ رہا تھا البتہ قدموں کی تیز رفتاری کچھ سست پڑ گئی تھی یہاں تک کہ وہ اس کے ہم قدم ہو گئے تھے ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

لکڑی کی دیوار سی بنائے اپنے اس چھوٹے سے کیبن میں بیٹھی وہ دائیں جانب رکھے کمپیوٹر پر مصروف تھی جب ناک کی آواز پر سر اٹھا کر بنا دروازے کے آمد و رفت کے لیے چھوڑی اس چھوٹی سی جگہ میں ایستاده معیز کو دیکھنے لگی ۔

"مس صلہ ؟میں آ جاؤں ؟"مہذب سے انداز میں مسکراتے وہ پوچھ رہا تھا ۔صلہ نے پیشہ ورانہ مسکان چہرے پر سجاتے سر کے اشارے سے اسے اجازت دی تھی ۔وہ پچھلے سات سال سے اس کمپنی میں اکاؤنٹس کے شعبے سے منسلک تھی ۔معیز کو تین سال ہوئے تھے جوائن کیے ہوئے ۔دیکھنے میں وہ اچھا خاصا خوش شکل ،اچھے گھرانے کا معلوم ہوتا تھا ۔

آئیے معیز صاحب بیٹھیے ۔"پہلے سے اچھے سے سیٹ اپنے حجاب کی صورت لئے اسکارف کو ہاتھ کی مدد سے ٹٹولتی مطمئین سی وہ سیدھی ہوئی تھی ۔

معیز اب سامنے رکھی اکلوتی چیئر سنبھال چکا تھا ۔

"کیسی ہیں آپ ؟"

اسکے سوال پر صلہ نے ذرا بھر اسے گہری نظر سے دیکھا تھا ۔صبح آفس آتے گریڈنگ سب سے سلام دعا ہو جایا کرتی تھی تو اب اس کے کیبن میں بیٹھ کر اس سوال کی وجہ ؟وہ کچھ اور بھی محتاط سی ہوئی ۔

"میں بالکل ٹھیک ۔۔۔۔۔۔کوئی کام تھا آپ کو ؟"ہلکی سی مسکراہٹ بھی  غیر محسوس انداز میں چہرے پر سے معدوم ہوئی تھی ۔اس کا اسٹریٹ فارورڈ لیا دیا انداز اسکے آفس کے میل تو کیا فی میل کولیگز کو بھی اس سے ایک خاص فاصلے پر رہنے کے لیے مجبور کر دیتا تھا ۔

"جی ۔۔۔۔۔کام تو کوئی نہیں تھا ۔مجھے آپ سے بس ایک ضروری مگر کچھ پرسنل بات کرنی تھی ۔یہ وقت اور جگہ مناسب نہیں ہے مگر آپ اس کے سوا کہیں دستیاب بھی نہیں ہوتیں تو مجبوراً مجھے یہی بات کرنی پڑ رہی ہے ۔"بنا کچھ کہے سر کو ہلکا سا خم دیتے صلہ نے اسے بات جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا ۔وہ اچھا بھلا پر اعتماد شخص اس وقت کافی سوچ سمجھ کر ،ناپ تول کر الفاظ کا انتخاب کر رہا تھا ۔

"مس صلہ میں گھما پھرا کر بات نہیں کروں گا ۔میں اپنی فیملی کو آپ کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں ۔"کچھ تذبذب کا شکار وہ آہستہ مگر تیز تیز بول گیا تھا ۔صلہ نے ایک جھٹکے سے کرسی کی پشت چھوڑی تھی ۔اسکی بات میں چھپا مفہوم وہ اچھے سے سمجھ رہی تھی ۔۔اکڑوں ہو کر بیٹھتی ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے پر بے یقینی اور اگلے پل نا گواری کا تاثر ابھرا تھا (یہ چھچھوندر ۔۔۔اتنی اسکی ہمت )۔چند سیکنڈز کا کھیل تھا پھر وہاں سپاٹ پن در آیا تھا ۔

"آپ جانتے ہیں میں نہ صرف میرڈ ہوں بلکہ ایک بیٹے کی ماں بھی ہوں ۔"بہت کوشش کر کے تحمل کا سرا پکڑے وہ نرم آواز مگر قطعی پن لئے بولی تھی ۔معیز نے سر ہلایا ۔

"جی مگر آپ کی آپ کے ہسبنڈ سے علیحدگی ہو چکی ہے آفس میں یہ بات قریب قریب سبھی جانتے ہیں ۔"وہ جیسے پوری تیاری کر کے آیا تھا ۔میز کی سطح پر رکھا صلہ کا ہاتھ مٹھی کی صورت بند ہوتا اس کے ضبط کا گواہ تھا ۔

"آپ سے کس نے کہا یہ سب ۔کیا کبھی میں نے اسٹاف میں سے کسی سے اس بابت بات کی ہے ؟"وہ اب بے لچک آواز میں پوچھ رہی تھی ۔انداز اب بھی بہت پر سکون سے تھے ۔

"آفس میں سب جانتے ہیں آپ ۔۔۔۔"وہ ذرا بھر گڑبڑایا ۔

"غلط جانتے ہیں سب ۔غلط قياس آرائیاں قائم کی گئی ہیں میرے بارے میں ۔"تندی بھری آواز میں اسکی بات کاٹتی وہ کاٹ دار نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?