اس ناول کے تمام جملہ حقوق ناولزحب کے نام محفوظ ہیں۔ ہجرِیاراں از قلم امِ عباس صرف اور صرف ناولزحب کے لئے لکھا گیا ہے۔ کسی بھی فرد یا ادارے کو اس کی اشا عت کا اختیار نہیں۔
ایسا کرنے والے کی خلاف کانونی کاروائی عمل میں لائی جا ئےگی ہے۔
انتظامیہ
ناولزحب
مکمل ناول
اوائل دسمبر کی سرد ،ٹھٹھرتی ہوئی دهند کی تہہ میں لپٹی وہ سیاہ رات عام دنوں کی نسبت زیادہ تاریک معلوم ہوتی تھی ۔آسمان سے اترتی خنکی بھری سیاہی میں وہ سرمئی تارکول کی لمبی و سنسان سڑک بھیانک سی لگتی تھی ۔ایسے میں دور سے کوئی اندھا دھند بھاگتا ہوا آتا دکھائی دیتا تھا ۔دهند کے باعث وہ عکس واضح نہیں تھا ۔کچھ قریب آنے پر دهندلا پن کچھ کم ہوتا ہے منظر پہلے سے بہتر دکھائی دیتا ہے ۔وہ نو عمر سا لمبا دبلا پتلا سا لڑکا ہے ۔پھولی سانسوں کے ساتھ وہ اندھا دھند بھاگ رہا ہوتا ہے ایسی حالت میں کہ اس کے پاؤں میں جوتے تک نہیں ہیں ۔سڑک کی پتھریلی سطح پر کہیں کہیں ابھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے کنکر اسکے پاؤں میں چھبن کا احساس پیدا کرتے ہیں ۔وہ ذرا بھر لڑکھڑاتا ہے اور اگلے ہی لمحے ذرا رک کر غیر ہوتے تنفس کے ساتھ پھر سے تیزی سے بھاگنے لگتا ہے ۔
اسکے چہرے کے خدوخال غیر واضح ہیں ۔بھاگتے ہوئے وہ بار بار دونوں ہاتھوں سے اپنا گیلاچہرہ صاف کرتا جاتا ہے ۔کچھ آگے جا کر موڑ کاٹتے وہ کسی سے بری طرح ٹکراتا ہے ۔اس تیز رفتاری کے باعث وہ کچھ قدم پیچھے کی جانب گرتا ہے ۔سامنے والے شخص نے اپنی غیر متوازن چال پر قابو پاتے آنکھیں چھوٹی کر کے غور سے اسکو دیکھا ۔ہاتھ میں پکڑے موبائل کی ٹارچ اسکے چہرے پر مارتے وہ جھکا، اسے بغور دیکھ رہا تھا جو اب اپنی کہنی کو سہلاتا ہوا چہرے پر تکلیف ده تاثرات لئے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔وہ جو کوئی بھی تھا دس گیارہ سال کا خوش لباس اور خوب صورت لڑکا تھا ۔چہرے پر آنسوؤں کے نشان ، خوف و ہراس کے گہرے سائے اپنی سیاہ آنکھوں میں لئے وہ ٹارچ کی روشنی سے نظریں چرا رہا تھا ۔
"کون ۔۔۔ہو تم بیٹا ؟کہاں جا رہے ہو ؟"لہجے میں نرمی کا تاثر لئے آواز کی لڑکھڑاہت روکتے ارد گرد اک نگاہ ڈالے وہ شخص اسے اٹھ کر کھڑا ہونے میں اب مدد دے رہا تھا ۔بدلے میں اس لڑکے نے اسکا ہاتھ جھٹک کر خود اٹھنا چاہا تھا ۔
"گھر سے بھاگ کر آئے ہو ؟یا کہیں گم ہو گئے ہو ۔مجھے بتاؤ میں تمہاری مدد کرتا ہوں ۔"
ارد گرد سے مطمئین ہوتے اب وہ پوری طرح اس لڑکے پر توجہ کیے اس کے اور قریب کھڑا پوچھ رہا تھا ۔
"مجھے گھر جانا ہے ۔"تیز سانسوں کے درمیان رک کر وہ سرعت سے بولتا آگے بڑھنے کو تھا جب اس شخص نے اسکا بازو پکڑ کر اسے روکا ۔
"رکو ۔۔۔۔یہ راستہ آگے خطرناک ہے ۔آگے جنگل کا علاقہ ہے جنگلی جانور رات کو سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔تم میرے ساتھ آؤ میں تمہیں تمہارے گھر تک چھوڑ آتا ہوں ۔"اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے وہ کہہ رہا تھا ۔اس لڑکے نے ایک نظر سامنے دور تک پھیلے اندھیرے کو دیکھا تھا اگلے لمحے اس نے سر ہلا کر حامی بھر لی تھی ۔
"آ جاؤ میرے ساتھ ۔میرا گھر یہاں پاس ہی ہے ۔میرے پاس گاڑی بھی ہے میں تمہیں گاڑی پر چھوڑ آؤں گا ۔"
اسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں جکڑے وہ شخص آگے بڑھ گیا تھا ۔ساتھ چلتے لڑکے کے پاؤں میں چھبے کنکر اب تکلیف کا احساس پیدا کرنے لگے تھے ۔
"تمہیں اپنے گھر کا راستہ معلوم تو ہوگا ؟کہاں رہتے ہو ؟"برق رفتاری سے آگے بڑھتے ساتھ ساتھ وہ اس سے سوال کرتا جاتا تھا جس کا وہ سنجیدگی سے بہت واضح جواب دے رہا تھا اس کا سانس اب پہلے سے ہموار تھا مگر پوری طرح متوازن نہیں ۔سوچ سمجھ کر بولتے اس نے اپنے گھر کا پورا پتہ سمجھایا تھا ۔۔موبائل ٹارچ کی پتلی سی لكیر میں راستہ کچھ واضح نظر آ رہا تھا ۔کچھ آگے جا کر اچانک سے اس شخص نے سڑک چھوڑ کر جھاڑیوں میں نیچے ڈھلوان کی جانب بڑھنا شروع کر دیا تھا ۔
"ہم کہاں جا رہے ہیں ؟"ارد گرد جھاڑیوں کے جھنڈ اور پاؤں میں چھبتی تیز نوکیلی سی شے پر وہ بول اٹھا تھا ۔
"تم آؤ تو سہی ۔یہاں سے ہم جلدی پہنچ جائیں گے ۔"پیچھے مڑ کر اسے پچکارا گیا تھا ۔اگلے ہی لمحے اسکی کلائی پر گرفت اور مضبوط کرتے وہ تقریباً اسے گهسیٹتا چلا گیا تھا ۔اس بار اسکے اسکے پاؤں میں کوئی کانٹا سا چھبا تھا ۔تکلیف بڑھی تھی ۔بے ساختہ وہ کراہا ۔
"آہ انکل ۔۔۔میرے پاؤں میں کچھ لگا ہے ۔"اسکی بھینچی ہوئی سی آواز میں درد کا احساس نماياں تھا ۔مگر دوسری جانب اسکی پکار کا کوئی مطلق اثر نہیں لیا گیا تھا ۔پہلی بار اس لڑکے کو کچھ برا ہو جانے کا احساس ہوا تھا ۔وہ چہرہ جہاں کچھ دیر پہلے تک ایک سہارا پا کر خوف و ہراس کا غلبہ کچھ کم ہوا تھا ۔ایک بار پھر شدید سراسیمگی کا شکار ہوتا چلا گیا ۔اپنی پوری قوت صرف کرتے اس نے اپنی کلائی اسکے ہاتھ سے آزاد کروائی تھی وہ شخص بھی شاید اسکی جانب سے ایسی کسی پیش رفت کی توقع نہیں کر رہا تھا اتنے زور دار جھٹکے پر ذرا برابر ڈگمگایا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ لڑکا الٹے قدم پیچھے کی جانب بھاگا تھا ۔اونچی نیچی جگہ اور اندھیرے کے باعث جب تک وہ سنبهل کر پلٹا تھا وہ لڑکا اسکی پہنچ سے دور ہو چکا تھا ۔اسے ایک غیر اخلاقی گالی سے نوازتا وہ بھی شرافت و شفقت کا چولا اتار پهینكتا اسکے پیچھے خونخوار تیور لئے لپکا ۔پاؤں میں ہو رہی تکلیف کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر چل رہا تھا اس کے باوجود وہ اپنی پوری قوت کا استعمال کر رہا تھا ۔اپنے پیچھے کسی جنگلی بھیڑیے کی مانند تعاقب کرتے اس انسان نما شیطان کو گردن موڑ موڑ کر دیکھتے وہ آگے بڑھ رہا تھا جب اسکا پاؤں کہیں الجھا تھا ۔وہ منہ کے بل زمین پر گرا تھا ۔تب تک وہ شخص اس تک پہنچ چکا تھا ۔
"حرام کے پلے ۔۔۔کتنا بهگایا تو نے میرے کو ۔"پھولے ہوئے سانس کے درمیان وہ ایک ہاتھ پہلو پر جمائے دوسرے ہاتھ سے اسکے بالوں کو جکڑے زور سے جھٹکا دے رہا تھا ۔ہوس بھری نظروں سے اسے دیکھتے وہ آنکھوں میں شیطانیت اور ہونٹوں پر مکروہ ہنسی لئے اس کالی رات میں اپنے اندر کی سیاہ کاری سمیت کچھ اور بھی بھیانک لگتا تھا ۔قوم لوط میں بھی بچوں کا لحاظ کیا جاتا تھا مگر موجودہ انسان کی بے راہ روی کا عالَم یہ ہے کہ یہاں معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا جاتا ۔اس کی بے رحم گرفت میں وہ چینخ رہا تھا ، چلا رہا تھا اس کے بھاری وجود کے نیچے دبے اس کے دبلے پتلے سے وجود کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں ۔اسکی چینخ و پکار پر اس شخص نے بے طره اسکی گردن دونوں ہاتھوں سے زور ڈالتے دبائی تھی جس سے آنسو سے لبریز وہ سرمئی مائل آنکھیں ابل پڑی تھیں ۔اور شیطان ذرا دور کھڑا ابن آدم کی پستی پر مسرور ہو رہا تھا ۔
گھٹتے سانس کے ساتھ اپنے بچاؤ کے لئے اس نے آگے پیچھے ہاتھ مارا تھا جب اسکا کانپتا ہاتھ کسی سخت شے سے ٹکرایا تھا ۔ہاتھ روک کر ٹٹولا ۔وہ ایک درمیانے سائز کا پتھر تھا ۔بنا سوچے سمجھے اس نے وہ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑتے پوری شدت سے خود پر جھکے اس شخص کے سر پر دے مارا تھا ۔وہ جو اپنے مکروه فعل میں مست و مسرور سا مگن تھا اس اچانک ہوئے حملے پر چینخ کر پیچھے ہٹا تھا ۔اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑے وہ زمین پر درد سے دہرا ہو رہا تھا ۔اس لڑکے نے ایک ہی ضرب پر بس نہیں کی تھی ۔وہ تیر کی تیزی سے اٹھ کر بیٹھا تھا اور پھر پے در پے کہیں وار اسکے سر پر کیے تھے یہاں تک کہ اسے سنبھلنے اور اپنے دفاع تک کرنے کا موقع نہیں ملا تھا ۔پتہ نہیں اتنی قوت اتنا غصہ اس کے اندر کہاں سے آ گیا تھا کسی سانپ کی مانند اس نے اس شخص کا سر کچل ڈالا تھا ۔پہلے تو وہ تکلیف سے كراهتا رہا تھا ۔پھر وہ بالکل خاموش ہو گیا ۔اسکا وجود ساکت ہو چکا تھا ۔مگر اسکا ہاتھ ابھی بھی نہیں رکا تھا ۔چہرے پر بنتی آنسوؤں کی لکیر کے ساتھ اس کا ہاتھ اب بھی مسلسل چل رہا تھا ۔خون کے کہیں چھینٹے اس کے چہرے اور کپڑوں پر پڑے تھے ۔اسکا ہاتھ خون سے لت پت ہو چکا تھا ۔یہاں تک کہ اسکا ہاتھ اور بازو مسلسل پوری قوت صرف کرنے کے باعث تکلیف محسوس کرنے لگے تھے ۔ہانپتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ روکا تھا ۔رک کر تھوڑی دیر سانس لی ۔پاس خشک پتوں پر پڑے موبائل کی ٹارچ کی روشنی سیدھی اس شخص کے چہرے پر پڑ رہی تھی جس کا پورا چہرہ خون سے تر ہو چکا تھا ۔دور سے دیکھنے پر اسکا وجود بے جان معلوم ہوتا تھا ۔
"تمہارا باپ بھی ایک قاتل تھا تم بھی ایک قاتل ہی بنو گے ۔"کوئی اس کے کان کے قریب چنگھاڑا تھا ۔اور وہ دہاڑے مار مار کر رویا تھا ۔کتنی دیر یوں ہی گزر گئی تھی ۔وہ ایک بڑے خطرے سے خود کو محفوظ کر چکا تھا ۔اپنی بقا کی جنگ ابھی ابھی وہ جیت چکا تھا ۔اب کوئی اور چیز اسے ہراساں نہیں کر پا رہی تھی ۔نہ ہی وہ تاریک رات ،نہ اس جنگل کی پرسرار خاموشی اور نہ ہی اپنے اکیلے ہونے کا احساس ۔ زور زور سے روتے اس نے اپنے شرٹ کے ٹوٹے بٹن دیکھے تھے ۔اپنا لباس ٹھیک کرتے وہ اٹھ کھڑا ہوا اس کے ہاتھ میں وہ پتھر اب بھی پوری مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ۔اگلے کچھ لمحوں میں وہ بے جاں وجود وہاں اکیلا پڑا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
باہر صبح کا اجالا پوری طرح پھیل چکا تھا ۔دس منزله عمارت کے اس چھوٹے سے فلیٹ میں صبح کا آغاز ہوا چاہتا تھا ۔قدرے چھوٹے سائز کے اس اوپن کچن میں اتنی گنجائش بہرحال تھی کہ تین لوگوں کی ضرورت پوری کر سکے ۔پراٹھے کی سائیڈ الٹ کرتی کرتی وہ ساتھ میں دم آئی چائے پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھی ۔ہلکے بھورے رنگ کے بال جوڑے میں مقید گردن ڈھانپے ہوئے تھے ۔کندھوں پر برابر کیے دوپٹے اور قدرے ڈھیلے ،کھلے سے لباس میں بھی اسکی دراز قامد اور متناسب جسامت کا کسی حد تک انداز لگانا مشکل نہ تھا ۔گندمی مائل صاف رنگت کے ساتھ اسکے خدوخال کافی پر کشش دکھائی دیتے تھے ۔بڑی بڑی گول سی آنکھوں کا سبز رنگ انہیں مزید خوب صورت بناتا تھا ۔دیکھنے میں وہ اپنی عمر اٹھائیس انتیس سال کم معلوم ہوتی تھی ۔اپنی ظاہری شکل و صورت کے ساتھ ساتھ اسکے چہرے پر چھایا سختی کا ہمہ وقت رہنے والا تاثر اسے ممتاز بناتا تھا ۔جو اسکی ذات کا حصہ معلوم ہوتا تھا ۔اسکے کولیگز کی اسکے بارے میں رائے تھی وہ سال میں شاید ایک ہی بار مسکراتی ہو گی ۔
برنر بند کرتی وہ پلٹتی ہے ۔تبھی سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلتا ہے ۔اسکول یونیفارم میں پوری طرح تیار پیچھے بیگ ڈالے وہ باہر آتا دکھائی دیتا ہے ۔وہ سات آٹھ سال کی درمیانی عمر کا بچہ تھا مگر دیکھنے میں اپنی عمر کے کچھ بڑا دکھائی دیتا تھا ۔سرخ و سپید رنگت پر سیاہ بال اور تیکھے نقوش لئے وہ کافی خوب صورت لگتا تھا ۔آنکھوں کا رنگ اسی کی طرح سبز نگینوں جیسا تھا ۔اسے دیکھ کر وہ رکتا ہے ۔آنکھوں کی چمک میں کچھ اور اضافہ ہوتا ہے اور پھر وہ قدرے جھک کر اپنی ناف پر ایک ہاتھ رکھے گردن جھکاتا ہے ۔
"یور ہائی نیس ۔"باریک مگر بالکل صاف سی آواز میں کہتا وہ سیدھا ہوتا ہے ۔
"اسلام علیکم ۔"اور کچن کارنر میں کھڑی سال میں ایک بار مسکرانے والی لڑکی پورے دل سے مسکراتی ہے ۔سر کے اشارے سے بنا آواز کے "وعلیکم سلام "کہتے وہ ناشتے کی ٹرے کاؤنٹر پر رکھتی ہے ۔اور خود گھوم کر باہر کی جانب رکھے تین اسٹول کی جانب بڑھتی ہے ۔تب تک وہ بھی اپنا بیگ وہاں لینونگ ایریا کے لئے استعمال ہونے والے ایریا میں رکھے صوفے پر ڈالتا اسکے قریب آ چکا تھا ۔
اسٹول پر بیٹھتا وہ پوری طرح سے ناشتے کی طرف متوجہ تھا ۔اسکی بہت سی اچھی عادتوں میں سے ایک اچھی عادت یہ بھی تھی وہ کھانے پینے کے معاملے میں کبھی تنگ نہیں کیا کرتا تھا ۔ہر چیز رغبت سے کھاتا تھا ۔اس معاملے میں کبھی اسکی ماں کو اسکے ساتھ سختی کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی ۔
ایک ہی پلیٹ میں سے آملیٹ کے ساتھ پراٹھا کھاتے جیسے اسے کچھ یاد آیا تھا ۔
"ماما آپ نے ڈائری پر سائن نہیں کیے ۔"اسکا منہ تیز تیز ہل رہا تھا ۔صلہ نے نوالا لیتے سر ہلایا تھا ۔
"ابھی کر دیتی ہوں ۔"رات کو بھی اس نے کہا تھا تب وہ اسکے اور اپنے کپڑے پریس کر رہی تھی ۔شہیر سو گیا تو اسکے ذہن سے بھی نکل گیا تھا ۔
"پرسوں پیرنٹس میٹنگ بھی ہے ۔آپ کو چھٹی مل جائے گی ۔"
"میں ٹائم پر پہنچ آؤں گی شہیر ۔تم جانتے ہو تم میرے لئے سب سے پہلے آتے ہو ۔"ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کرتے اس نے اٹھتے ہوئے اسکا گال چوما ۔
شہیر کے چہرے پر تفاخر بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی ۔وہ واپس مڑ کر جلدی جلدی آخری نوالے لینے لگا تھا ۔
صلہ اسکا بیگ چیک کر رہی تھی ۔ڈائری نکال کر پینسل کی تلاش میں نظر دوڑائی تھی ۔صوفے کے ساتھ رکھی چھوٹی میز پر سجے مگ میں سے پین بر آمد کیا تھا ۔
"جلدی کرو نیچے وین آ گئی ہو گی ۔"ایک نظر اسکے بیگ میں رکھی کتابوں اور کاپیوں کو دیکھ وہ کچن میں سے اس کا لنچ باکس لینے گئی تھی ۔
"میں نانو کو اللّه حافظ کر کے آتا ہوں ۔"جلدی سے کہتا وہ اٹھ کر اندر کمرے کی جانب بھاگا تھا ۔کچھ دیر بعد وہ اپنا بیگ اٹھائے باہر نکل رہا تھا ۔صلہ کے ہاتھ میں اسکا لنچ باکس اور پانی والی بوتل تھی ۔
اسے چھوڑ کر وہ واپس آتی ہے تو اس فلیٹ کے دوسرے کمرے کا دروازہ کھلتا ہے ۔اندر سے ایک پچپن کے لگ بھگ کی قدرے فربہہ مائل خاتون باہر نکلتی ہیں ۔آنکھوں پر نظر کا چشمہ چڑھائے دھیمی سی چال کے ساتھ وہ اسی کی سمت بڑھتی ہیں ۔
"چائے بنا دوں آپ کے لئے ؟"انکی موجودگی بھانپ کر برتن سنک میں رکھتے وہ انکی طرف مڑی ۔
"نہیں بیٹا ابھی دل نہیں چاہ رہا ۔میں بنا لوں گی خود ۔"انکے کہنے پر وہ سر ہلاتی واپس برتنوں کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے ۔
"شہیر چلا گیا ۔"اب کے وہ فریج میں سے پانی کی بوتل نکال رہی تھیں ۔
"جی ابھی ابھی نکلا ہے ۔"
"تمہارا بھی جانے کا وقت ہونے والا ہے ۔یہ رہنے دو میں کر لوں گی ۔"گھڑی کی جانب نگاہ کرتے وہ اسے ٹوک گئی تھیں ۔
"ابھی بہت وقت پڑا ہے خالہ ۔یہ تو بس پانچ منٹ میں ہو جاتا ہے ۔آپ پر بھی کتنا بوجھ ڈالوں میں ۔پہلے ہی کیا کم کرتی ہیں آپ ہمارے لئے ۔"جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ایک تشکر بھری نظر انکی جانب ڈالی تھی جو اب اسٹول پر بیٹھ پانی پی رہی تھیں ۔