:حصہ دوئم
سڑک کنارے بیٹھے وہ سامنے خالی سڑک کو دیکھ رہا تھا۔
آنکھیں رو رو کر سوج چکی تھیں۔
ماضی تھا کہ جینے نہیں دیتا تھا۔
حال میں رہنا عذاب تھا۔
اور مستقبل کی خبر نا تھی۔
اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے برباد کر بیٹھا ہے۔
نادان اپنی دنیا اجاڑ بیٹھا ہے۔
ماضی کی کہانی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہی تھی۔
رو رو کر آنکھیں اب پتھر ہو چکی تھیں۔
سوچ سوچ کر دماغ پھٹ جانے کو تھا جب وہ چیخ اٹھا۔
"مجھے معاف کر دے مجھے معاف کردے۔یااللّٰہ مجھ پر رحم فرما۔مجھے سکون دے یااللّٰہ۔میں بھٹک گیا تھا۔مجھے سیدھی راہ دیکھا دے یااللّٰہ۔میں تیرا گناہگار ہوں۔مجھے معاف کردے۔مجھے معاف کر دے۔"
وہ چیخ چیخ کر معافی مانگ رہا تھا۔
سکون کی طلب کر رہا تھا۔
مگر سکون تھا کہ کہیں کھو گیا تھا۔
سڑک پر اندھیرا چھا رہا تھا۔
جیسے اس کی زندگی میں اندھیرا ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔
جانتے ہیں ماضی میں کیا ہوا تھا؟؟؟
۔۔۔۔
گیارہ سال پہلے:
وہ دس برس کا تھا جب بابا انگلینڈ چلے گئے۔
بابا کے ساتھ بہت زیادہ اٹیچ ہونے کی وجہ سے وہ بہت رویا تھا یہاں تک کہ وہ ایک ہفتے تک بخار میں تپتا رہا۔
بابا کو پکارتا مگر وہ نا آتے۔
ممی نے بڑی مشکل سے اسے سنبھالا تھا۔
وہ سنمبھل تو گیا مگر بابا سے ناراض ہوگیا۔
بابا کو انگلینڈ گئے ایک سال گزر گیا مگر اس نے کبھی ان سے بات نا کی۔
وہ ہر بار فون کر کے اس کے بارے میں پوچھتے اس سے بات کرنا چاہتے مگر وہ کبھی بھی ان سے بات نا کرتا تھا۔
تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اسی لیے لاڈلا بھی تھا۔
دو بہنیں بڑی تھیں اس سے اور ایک اس سے پانچ سال چھوٹی تھی۔
بڑی بہنیں جب سمجھاتی کہ بابا سے بات کر لو ناراضگی ختم کرو تو وہ بگڑ جاتا اور ان سے لڑنے لگتا جس پر ممی نے انہیں کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا۔
دو سال گزر گئے مگر بابا اب تک انگلینڈ سے واپس نا آئے۔
ناراض تو وہ تھا مگر ان کا انتظار ہمیشہ کرتا تھا۔
ساتویں جماعت کے امتحانات کا رزلٹ آیا تو وہ بہت خوش تھا کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ ساری کلاس میں اول رہا۔
بلاشبہ وہ ایک لائق سٹوڈنٹ تھا۔
اس کے ٹیچرز ہمیشہ ہی اس کی تعریف کیا کرتے تھے۔
بابا نے اس کو رزلٹ کی مبارکباد دینے کے لیے فون کیا تو نا جانے کیا سوچ کر اس نے آج دو سال بعد ان سے بات کر ہی لی۔
"کیسا ہے میرا بیٹا۔" بابا کی آواز میں خوشی تھی۔
"ٹھیک ہوں۔"رکھائی سے جواب دیا گیا۔
"بہت اچھا رزلٹ آیا ہے تمہارا کیا تحفہ چاہیے اب بتاؤ۔"
"آپ واپس آجائیں۔"وہ بہت سوچ کر بولا تھا اور بابا کا جواب سنے بغیر ہی فون رکھ دیا۔
اس کی فون کال سننے کے بعد بابا پھر سے پریشان ہوگئے۔
وہ واپس آنا چاہتے تھے مگر ان کے پیپرز میں کچھ مسلہ ہوگیا تھا جن کی وجہ سے وہ کچھ عرصہ نہیں آ سکتے تھے۔
آٹھویں جماعت میں جانے کی خوشی میں ممی نے اسے ہر چیز نئی خرید کر دی۔
پوزیشن آنے پر اسے ڈھیر تحفے بھی ملے مگر جو تحفہ وہ چاہتا تھا وہ نا مل سکا۔
معصوم ذہن نا جانے کیا سمجھنے لگا تھا۔
اسے لگنے لگا کہ شاید بابا اسے پسند نہیں کرتے اسی لیے وہ واپس نہیں آرہے۔
اب وہ کوشش میں تھا کہ کوئی ایسا کام کرے جس سے بابا خوش ہوجائیں۔
آٹھویں جماعت میں جاتے ہی اس نے پڑھائی میں خوب دل لگایا۔
ٹیسٹس ہوتے تو ہمیشہ اول آتا اور خوشی خوشی آکر بہنوں اور ممی کو بتاتا۔
وقت گزرتا گیا اور آٹھویں جماعت بھی گزر گئی۔
ہمیشہ کی طرح اب بھی وہ کلاس میں اول رہا۔
تحفے کا پوچھا گیا تو پھر وہی مطالبہ کیا گیا مگر جواب میں کچھ بھی نا ملا۔
بابا سے ناراضگی ختم ہوگئی تھی مگر اب وہ پہلے جیسا نا رہا تھا۔
وہ زرا جھگڑالو سا ہوگیا تھا۔
ہر بات پر ضد ہر بات پر لڑائی۔
ممی پریشان ہو چکی تھیں اس کی ان حرکتوں سے مگر وہ تھا کہ باز نا آتا تھا۔
نویں کلاس میں اس نے دوسرے شہر جا کر پڑھنے کی ضد کی جس پر ممی نے منع کر کیا تو وہ ان سے بدتمیزی کرنے لگ گیا۔
"آپ ہوتی کون ہیں مجھے روکنے والی"وہ غصے سے چیخا تو ممی برہم ہو گئیں۔
"تمیز سے بات کرو ماں ہیں تمہاری" بڑی بہن نے پیچھے سے آکر جھڑکا تو وہ ہنسا۔
"ہنہہ ماں۔کون ماں کون باپ کوئی نہیں ہے میرا۔میرا ایڈمیشن کروائے وہاں نہیں تو آگ لگا دوں گا میں سب کو۔"وہ یہ کہتا گھر سے باہر چلا گیا۔
ممی اس کی حرکت پر مزید ٹینشن میں چلی گئی۔
بہنیں الگ پریشان تھیں کہ آخر لاڈلے بھائی کو ہوا کیا ہے۔
وہ گھر سے نکل کر پیچھلی گلی میں آگیا۔
یہ گلی کافی سنسان سی تھی۔
وہ غصے سے وہاں پر ٹہلنے لگا۔
اچانک اسے ایک سایا اپنی طرف آتا دیکھائی دیا۔
اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک لڑکا اس کی طرف چلا آرہا تھا۔
عمر میں اس کے جتنا ہی لگ رہا تھا وہ۔
وہ رک کر اسے دیکھنے لگا یہاں تک کہ وہ لڑکا اس کے پاس آ رکا۔
"بےسکون ہو؟؟؟"لڑکے نے پوچھا۔
"ہاں" وہ زرا حیرت سے بولا۔
"بے سکونی ختم کروں؟؟" پھر اسی لڑکے نے سوال کیا۔
"وہ کیسے؟؟"اس نے ایک بار پھر حیرت سے پوچھا۔
لڑکے نے پہلے ادھر ادھر دیکھا اور پھر اپنی جیب سے ایک تہہ شدہ لفافہ نکالا۔
وہ لفافہ کھولا تو اس میں چار پانچ ٹافیاں تھیں۔
لڑکے نے ایک ٹافی اس کی طرف بڑھا دی۔
"جا موج کر"
وہ پہلے تو اسے دیکھتا رہا اور پھر وہ ٹافی لے لی۔
"یہ کھانے کے بعد تمہیں بہت سکون ملے گا جب بھی بے سکون ہو میرے پاس آجانا میں تمہیں یہ دے دیا کروں گا" یہ کہتے ہی وہ لڑکا وہاں سے چلا گیا۔
اس نے ٹافی کھول کر منہ میں رکھی۔
ٹافی ختم ہوتے ہی اس کا سارا غصہ ختم ہوگیا اور کچھ دیر پہلے جو سر درد کر رہا تھا اب وہ بھی نا رہا تھا۔
"واہ یہ تو کمال ہے۔"ٹافی کے ریپر کو دیکھتا وہ بولا اور پھر ریپر پھینک کر وہ گھر کی جانب پلٹ گیا۔
جانتے ہیں کیا تھا اس ٹافی میں؟؟؟
ڈرگز۔
جی ہاں ڈرگز۔
یہ ایک ایسی ڈرگز ہیں جن کو toffees,jellies وغیرہ میں ڈال کر بچوں کو کھلائی جاتی ہیں۔
ان کا ذائقہ عام ٹافیوں کی طرح ہی ہوتا تھا جس سے ڈرگز کا پتا نہیں چلتا تھا۔
گھر آتے ہی وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
رات کو اماں نے کھانے پر بولایا تو وہ باہر آیا۔
کھانا کھانے کے بعد سب اٹھ گئے بس بڑی بہن اور وہ بیٹھے تھے۔
"آخر تمہیں کیا ہوا ہے؟؟کیوں اس طرح سے لڑ رہے ہو سب سے؟؟؟" بہن نے سوال کیا۔
"آپ سے مطلب۔اپنا کام کریں مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔"وہ بدتمیزی سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔
پیچھے بہن نے اسے افسوس سے دیکھا۔
اگلے ہی دن بابا کی کال آنے پر ممی نے سب کچھ انہیں بتا دیا۔
بابا نے اس سے اس بارے میں بات کی تو اس نے بس اتنا سا ہی جواب دیا۔
"آپ آجائیں تو سدھر جاؤں گا میں بھی۔"
یہ کہتا وہ گھر سے باہر چلا گیا۔
آج پھر وہ اسی گلی میں موجود تھا اور اس لڑکے کو ڈھونڈ رہا تھا جو کل آیا تھا۔
ابھی وہ ادھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا جب وہی لڑکا سامنے سے آتا دیکھائی دیا۔
"ہاں بھئی!!پسند آئی ٹافی؟؟"اس لڑکے نے قریب آکر پوچھا۔
"کمال تھا اس میں تو۔اسے کھانے کے بعد ایسا سکون آیا کہ پوچھو مت۔کیا تمہارے پاس اور ہیں؟؟؟"اس نے بے تابی سے پوچھا۔
"ہاں ہیں مگر آج یہ ایک شرط پر ملیں گی۔"
"کیسی شرط؟؟"اس ن نا سمجھی سے اس لڑکے کو دیکھا۔
"ہر مہینے پیسے دینے ہوں گے اس کے۔بڑی سپیشل ہے یہ مفت نہیں دے سکتا۔"
"ہاں ہاں ٹھیک ہے اب دو۔"
اس لڑکے نے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
"چھپا کر لے کر جانا۔کسی کو بتانا مت اس بارے میں۔"یہ کہتا وہ لڑکا ادھر اُدھر دیکھتا وہاں سے چلا گیا۔
وہ پیچھے سے اسے حیرت سے دیکھتا رہا۔
"بھلا اس میں چھپانے والی کیا بات ہے۔"وہ ناسمجھی سے بڑبڑاتا گھر کی طرف پلٹ آیا۔
اگلے دن ممی نے بتایا کہ بابا اسے دوسرے شہر بھجنے پر راضی ہیں مگر اس نے جانے سے انکار کر دیا۔
سب پھر سے پریشان ہوگئے کہ آخر اسے کیا ہوا۔
کل تک جو لڑ رہا تھا کہ اس نے دوسرے شہر جانا ہے اب جب جانے کی اجازت ملی تو انکار کر دیا۔
وقت گزرتا گیا۔
وہ پورے دل سے پڑھائی کر رہا تھا۔
روز کی ایک ٹافی کھانا اب اس کی عادت بن گئی تھی اور کبھی کبھی تو وہ دن میں دو تین مرتبہ کھا لیتا۔
تین مہینے گزر گئے۔
وہ اس نشے میں ڈوبتا گیا مگر گھر میں کسی کو خبر نا ہوئی۔
وہ پہلے سے زیادہ جھگڑالو ہو گیا تھا ہر چھوٹی بات پر غصہ کرنا اور آئے روز گھر کی چیزیں توڑنا اب عام بات بن گئی تھی۔
بہنیں،ممی اور بابا اس کی حرکتوں پر پریشان تھے۔
وہ سمجھتے تھے کہ شاید وہ اب تک بابا سے ناراض ہے مگر ایسا نا تھا معاملہ تو کچھ اور ہی تھا۔
وہ کافی دنوں بعد آج اس لڑکے سے پھر ملا تھا مگر آج اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔
"اس سے ملو یہ میرا دوست ہے۔"اس لڑکے نے ساتھ آنے والے کا تعارف کروایا۔
"وہ۔"وہ ابھی کچھ بولتا کہ اس لڑکے نے بات کاٹی۔
"ہاں جانتا ہوں۔لایا ہوں تمہارا سکون۔دو پیسے۔"اس لڑکے نے جیب سے لفافہ نکال کر اسے دیا اور اس نے بدلے میں پیسے دے دیے۔
"میں چلتا ہوں۔"وہ جانے کے لیے مڑا جب اس لڑکے نے اسے روک لیا۔
"ارے رکو تو۔میں نے بتانا تھا کہ اگلی بار میں تمہیں کہیں اور ملوں گا یہاں نہیں۔"
"وہ کیوں۔"
"بس جو کہا ہے وہ کرو۔اب جاؤ۔"اس کو جھڑکنے والے انداز میں وہ لڑکا بولا تو وہ ڈر کر واپس گر کی طرف چل دیا۔
"لڑکا تو سہی کام ہے۔"دوسرا لڑکا پہلی بار بولا تھا۔
"میں تو پہلے ہی کہتا تھا۔اب یہ قبضے میں ہے۔بچے کو ٹافیاں بڑی پسند آئی ہیں"وہ معنی خیز لہجے میں بولا اور پھر وہ دونوں ہنس پڑے۔
"لے آنا اسے اڈے پر۔دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے اس کا۔"دوسرا لڑکا یہ کہتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔
اس کا میٹرک پاس ہوچکا تھا۔
ہمیشہ کی طرح اول تو نا آسکا مگر مارکس کافی اچھے آگئے تھے۔
بابا نے تحفے کا پوچھا تو اس بار مطالبہ کوئی اور تھا۔
"نئی موٹر سائیکل چاہیئے مجھے۔"
بابا پہلے تو سوچ میں پڑ گئے مگر بیٹے کی فرمائش پر سر ہلا دیا۔
وہ خوش ہوتا گھر سے باہر نکل گیا۔
رویہ اب بھی ویسا ہی تھا اس کا۔
وہ زہر جسے وہ میٹھی ٹافیاں سمجھتا تھا اسے اندر سے ختم کیے جا رہی تھیں۔
وہ اکثر خود پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتا تھا۔
اب وہ اس لڑکے سے گلی میں ملنے کے بجائے ایک کلب میں ملتا تھا۔
اس نے اب سگریٹ بھی پینا شروع کر دی مگر گھر والوں کو اب تک اس کی بھی خبر نا تھی۔
وہ انسانیت سے شیطانیت کی طرف کا سفر کر رہا تھا اور اسے اس کی خبر بھی نا تھی۔
کالج میں داخلہ وہ لے چکا تھا اور بابا بھی واپس آ گئے تھے۔
مگر وہ ان سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔
کچھ پوچھتے تو یا تو جواب نا دیتا یا پھر بگڑ جاتا۔
بابا اس کی ان باتوں سے پریشان ہو چکے تھے اور اب انہوں نے واپس انگلینڈ جانے کا فیصلہ ترک کر دیا۔
بیٹا ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہو رہا تھا مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ بیٹا کس راہ پر چل پڑا ہے۔
وہ اپنے آپ کو سکون میں لانے کے لیے پورے گھر کو بے سکون کر گیا تھا۔
کالج جوائن کرنے کے بعد اس کا پڑھائی سے دھیان بالکل ہٹ چکا تھا۔
اب وہ پڑھائی پر اتنی توجہ نہیں دے پاتا تھا۔
کچھ یاد کرنے کی کوشش کرتا تو سر میں درد شروع ہوتا۔
طبیعت عجیب سی ہونے لگتی تھی۔
اس بے چینی کو ختم کرنے وہ اسی لڑکے کے پاس اس کلب میں چلا گیا۔
وہ وہاں پہنچا تو سامنے ہی وہ لڑکا کھڑا کسی بات پر قہقہہ لگا رہا تھا۔
"آجا آجا شہزادے۔تجھے آج کچھ ایک الگ نشہ کرواتے ہیں۔"وہ لڑا ادھر سے اسے پکار کر بولا۔
نشے کا نام سن کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔
"نشہ؟؟؟مطلب؟؟؟؟"وہ ناسمجھی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
"ہاہاہاہاہاہا۔لو بھئی اس کو پتا ہی نہیں کہ یہ اتنے سالوں سے نشہ کر رہا ہے۔اوووووو۔اس کو ٹافیاں دی تھیں میں نے۔بچے کو ٹافیاں پسند آئی کیا۔ہممم۔ہمممم۔ ہاہاہاہاہاہا۔"وہ لڑکا زور دار قہقہہ لگا کر بولا اب کہ اس قہقہے میں اور بھی آوازیں شامل تھی۔
وہ حیرانی اور نا سمجھی سے ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔
وہ واپس مڑنے لگا جب پیچھے کھڑے دو لڑکوں نے اسے گھیرا۔
"ہاں بھئی چکنے کدھر؟؟؟"ایک لڑکا معنی خیز لہجے میں بولا۔
"ابے لے آ اس کو۔تمیز کے ساتھ۔"پیچھے والا لڑکا دوبارہ بولا۔
وہ لڑکے اسے پکڑنے کے لیے آگے آئے تو وہ انہیں دھکا دیتا دروازے کی طرف بھاگا۔
بہت مشکل سے وہاں سے نکل کر وہ سڑک کی طرف بھاگنے لگا۔
بھاگتے بھاگتے وہ بہت دور آگیا تھا۔
ایک دم سے اس کا سر چکرایا اور اگلے ہی لمحے وہ زمین پر گر کر بےہوش ہوچکا تھا۔
اسے وہاں بے ہوش ہوئے کافی وقت ہوچکا تھا جب اچانک ایک گاڑی وہاں سے گزری۔
گاڑی والے نے اسے دیکھ کر گاڑی روک لی۔
گاڑی میں بیٹھا شخص جلدی سے باہر آیا اور اس تک پہنچا۔
اس کی نبض چیک کی۔
"شکر یہ زندہ ہے۔"یہ کہتے ہی اس شخص نے اسے گاڑی میں ڈالا۔
گاڑی تیزی سے چلاتے ایک ہسپتال کے باہر رکا اور اسے لے کر ایمرجنسی وارڈ کی طرف چل دیا۔
کافی دیر بعد جب ڈاکٹر باہر آیا تو وہ جلدی سے اس کی طرف مڑا۔
"بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کا بیٹا ڈرگز لیتا تھا۔اور کافی عرصے سے لے رہا تھا اب تو وہ خطرے سے باہر ہے مگر توجہ کیجیے اس پر۔اگر وہ مزید یہ ڈرگز لیتا رہا تو اس کا بچنا مشکل ہے۔"ڈاکٹر یہ کہہ کر چلا گیا جبکہ پیچھے وہ شخص حیران رہ گیا۔
یہ ایک پولیس کیس تھا مگر اس شخص نے بڑی مشکل سے یہ سب ہینڈل کیا تھا۔
اسے ہوش آجانے کے بعد وہ اس سے ملنے گئے۔
"تمہارا نام کیا ہے بیٹا۔"وہ پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئے۔
"موحد۔"وہ آہستہ سے بولا۔
"کیوں اپنی جان کے دشمن بن گئے۔"وہ نرمی سے بولے۔
"اس نے مجھے دھوکے سے وہ ٹافیاں دی۔مجھے نہیں پتا تھا کہ اس میں یہ سب ہے۔"یہ بولتے ہی وہ رو پڑا۔
"رو مت میرے بچے۔خدا سے معافی مانگ لو۔خدا تمہیں معاف کر دے گا۔ آئیندہ احتیاط کرنا۔یہ سب خطرناک ہے تمہارے لیے۔کچھ دوائیاں دی ہیں ڈاکٹر نے اگر تم وہ روز پابندی کے ساتھ کھاؤ گے تو ٹھیک ہو جاؤ گے۔ اب گھر چلو تمہارے ماں باپ انتظار میں ہوں گے۔ڈرو مت میں ان سے بات کر لوں گا۔"وہ کچھ بولنے لگا جب انہوں نے درمیان میں ہی اس کی بات کا جواب دے دیا۔
موحد اسی شخص کے ساتھ گھر پہنچا تو سامنے ہی بابا ممی اور بہنیں پریشان بیٹھے تھے۔
بابا نے اسے آتے دیکھا تو ساری پریشانی چہرے سے دور ہوگئی۔
"کہاں چلے گئے تھے تم موحد۔"وہ اس کے پاس آکر بولے۔
"یہ میرے ساتھ تھا۔"ابھی موحد کچھ بولتا جب وہی شخص بول پڑا۔
"آپ۔"بابا نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔
"مجھے اسماعیل کہتے ہیں۔یہ یوں ہی راستے میں غصے سے گھوم رہا تھا تو میں نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔"ناجانے کیا کہانی سناتے اسماعیل صاحب نے بابا کو مطمئن کیا۔
بابا انہیں لے کر اندر چلے گئے جب موحد پیچھے سے بولا۔
"بہت شکریہ میری مدد کے لیے۔"شرمندگی صاف ظاہر تھی
اس کی بات سن کر اندر جاتے اسماعیل مسکرائے۔
"کوئی بات نہیں۔چلو اندر آجاؤ۔"
موحد ان کے پیچھے ہی اندر چلا گیا۔
اس نے اپنی پڑھائی دوبارہ سے شروع کرنے کا سوچا مگر اب کے وہ دوسرے شہر جانا چاہتا تھا۔
بابا نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔
دوسرے شہر آکر بھی اس کی سب غلطیوں نے اس کی جان نا چھوڑی۔
پڑھائی میں وہ دل لگا چکا تھا۔
دن تو آرام سے گزر جاتا مگر رات کو وہ سو نا پاتا تھا۔
ڈراؤنے خواب اس کی رات کی نیند اڑا چکے تھے۔
وہ اکثر رات جاگ کر ہی گزارتا تھا۔
کالج کے دو سال گزر گئے تو اس نے فوراً سے یونیورسٹی میں اپلائے کر دیا۔
یونیورسٹی میں اسے ایک اچھا دوست مل گیا۔
جو اس کے ماضی میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔
بس سارا دن اسے اپنے ساتھ گھوماتا رہتا اور اس کو اپنی شرارتوں سے ہنساتا تھا۔
کوئی شک نہیں تھا کہ اسے ایک اچھا دوست ملا تھا۔
وہ اکیس سال کا ہوچکا تھا مگر وہ خواب وہ ماضی اب بھی اس کے ساتھ تھا۔
۔۔۔۔۔
حال:
وہ اسی سڑک پر بیٹھا تھا اب تک۔
اب کے در کہیں فجر کی اذان سنائی دے رہی تھی۔
وہ بہت غور سے آذان سن رہا تھا۔
"حی علی الصلاۃ ، حی علی الصلاۃ۔
حی علی الفلاح ، حی علی الفلاح۔
الصلاۃ خیر من النوم ، الصلاۃ خیر من النوم۔
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر
لا الہٰ الاللہ۔"
آذان مکمل ہونے کے بعد وہ دور آسمان میں دیکھنے لگا۔
ابھی وہ کچھ سوچ رہا تھا جب اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔
وہ گھبرا کر مڑا۔
"کیا بات ہے بیٹا۔کیا بے سکون ہو؟؟؟" سامنے کھڑے بزرگ نے پوچھا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"میرے بچے سکون حاصل کرنا چاہتے ہو تو نماز پڑھو۔کیا تم نماز پڑھتے ہو۔"
اب کی بار اس نے شرمندگی سے نفی میں سر ہلا دیا۔
"اللّٰہ کا در ہمیشہ کھلا ہے۔ آؤ نماز پڑھو میرے ساتھ۔"یہ کہتے ہی ان بزرگ نے اسے اٹھایا اور مسجد کی طرف چل دیے۔
اور نماز ہی تو اصل سکون ہے۔️
۔۔۔۔
کیا آپ کے اردگرد بھی کوئی موحد ہے؟؟؟
اگر ہاں تو اسے روک لیں۔
اور اگر نہیں۔
تو کوشش کریں کہ کوئی موحد نا بنے۔
دنیا کے سکون کے لیے آخرت کا سکون خراب مت کریں۔
ہر کسی کو اسماعیل جیسا انسان نہیں مل جاتا راستے میں۔
سکون تو صرف اللّٰہ کی عبادت میں ہے۔
بے سکون ہو تو نماز پڑھو قرآن پڑھو۔
اللّٰہ سے باتیں کرو۔
اگر یہ معاشرے لڑکیوں کے لیے خطرناک ہے تو لڑکوں کے لیے بھی اتنا safe نہیں ہے۔