Share:
Notifications
Clear all

teenager(part 1)

1 Posts
1 Users
1 Likes
31 Views
(@wishanadeem89)
Eminent Member Customer
Joined: 1 month ago
Posts: 15
Topic starter  

:حصہ اول

 

طلوعِ آفتاب کا وقت تھا۔

آسمان پر دلکش سا منظر بنا ہوا تھا۔

وہ کھڑکی کے پاس کھڑی باہر آسمان پر نا جانے کیا تلاش کر رہی تھی جب اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔

اچھے سے جانتی تھی کہ کون ہے اسی لیے یوں ہی کھڑی رہی۔

"میں تو یہاں کھڑا ہوں۔پھر باہر کسے تلاشا جا رہا ہے۔"شرارتی مردانہ آواز اسے اپنے کانوں میں سنائی دی۔

"اپنے ماضی کو تلاش کر رہی ہوں۔"اس نے ایک سرد آہ بھری۔

اس کے پیچھے کھڑے وجود نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر اپنی طرف موڑا۔

"کیوں بار بار خود کو اذیت دیتی ہو۔بھول جاؤ وہ سب۔"وہ سر جھکائے اس کے سامنے کھڑی تھی۔

"کیسے بھول جاؤں۔آپ بھی تو سننے کو تیار نہیں۔میرے دل پر ایک بوجھ ہے۔میں۔میں آپ کے لائق نہیں۔ آپ۔"اس نے اب کے باقاعدہ رونا شروع کر دیا تھا۔

"خاموش ہوجاؤ۔تم میرے لائق ہو یا نہیں اس کا فیصلہ تم ہرگز نہیں کر سکتی۔تم میری بیوی ہو اور مجھے اپنی بیوی سے بے انتہا محبت ہے۔ماضی کو بھول جاؤ اور آنے والے وقت کو سوچو۔اور کچھ تو مجھ معصوم کا خیال کیا کرو صبح صبح تم یوں رو گی تو میرا تو سارا دن ہی خراب گزرے گا۔"وہ اسے سمجھاتا آخر میں معصومیت سے بولا۔

"آپ تیار ہوجائیں میں ناشتہ بنا دیتی ہوں۔"وہ پھیکا سا مسکرا کر بولی۔

"یہ بندہ ناچیز مشکور رہے گا آپ کا۔"وہ ادب سے اس کے سامنے جھکا۔

اس کے انداز پر وہ ہنس دی اور باہر کی طرف چل دی۔

"میری جھلی بیوی۔" وہ سر جھٹک کر ہنسا اور آفس جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔

۔۔۔۔

معمول کے مطابق وہ اسے دروازے تک سی آف کرنے گئی اور جب تک اس کی گاڑی گیٹ سے باہر نا چلی گئی وہ یوں ہی دروازے کے پاس کھڑی رہی۔

اس کے چلے جانے کے بعد وہ واپس مڑی۔

اب کے اس کا رخ کمرے کی جانب تھا۔

کمرے میں آتے ہی اس نے سرد آہ بھری اور کمرے کی صفائی کرنے میں لگ گئی۔

وہ الماری کی صفائی کرنے میں مصروف تھی جب اچانک سے الماری کے اوپری حصے سے کچھ نیچے گرا۔

اس نے جھک کر زمین پر گری چیز کو دیکھا اور چونک گئی۔

وہ ایک پرانی ڈائری تھی۔

اس نے نیچے جھک کر وہ ڈائری اٹھائی۔

ڈائری کھول کر دیکھی تو وہ بالکل خالی تھی،پرانی ہونے کی وجہ سے اس پر مٹی کی تہہ جمی تھی جسے اس نے کپڑے سے رگڑ کر صاف کیا۔

کافی دیر وہ اس ڈائری کے صفحوں کو ٹٹلوتی رہی مگر کچھ بھی نا ملا۔

وہ ڈائری یوں ہی ہاتھ میں پکڑے کمرے کے دوسری جانب پڑے رائٹنگ ٹیبل پر آ بیٹھی۔

کچھ سوچ کر اس نے ٹیبل پر پڑا پین اٹھایا اور صحفے پر لکھنا شروع کیا۔

"میرا نام اریج مجتبیٰ ہے۔"

وہ رکی۔

ذہن میں ایک دم سے ایک خیال آیا۔

آنکھیں چمکی۔

اور دوبارہ سے ڈائری پر جھکی۔

پہلے فقرے کے آگے ہی لکھنا شروع کیا۔

"مجتبیٰ میرے شوہر کا نام ہے۔میرے بابا کا نام ولی محمد تھا۔میں بارہ سال کی تھی جب وہ مجھے اور امی کو چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔(وہ رکی۔بابا کے نام پر آنکھیں بھر آئیں تھیں۔) میری امی کا نام زوہرا خاتون تھا۔میری شادی کے چند ماہ بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔(اس نے ایک لمبا سانس کھینچا اور دوبارہ سے لکھنا شروع کیا۔)

میری شادی کو ایک سال اور کچھ ماہ ہوچکے ہیں۔میں اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ مجتبیٰ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔وہ مجھ سے بے انتہا محبت بھی کرتے ہیں۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مجھے بھی ان سے بہت محبت ہے۔سوچتی ہوں کہ اگر مجتبیٰ نا ہوتے تو شاید میں اپنے ماضی کو سوچ سوچ کر پاگل ہوچکی ہوتی۔

میرے ماضی کا گناہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔

ہاں گناہ۔

جانتے ہیں میرے ماضی میں کیا ہوا تھا؟؟؟

(ہاتھ روک کر ایک نظر وال کلاک پر دیکھا جہاں دس بجنے میں دس منٹ رہتے تھے۔قلم کو ڈائری کے اندر ہی رکھتے ڈائری بند کی اور اٹھ کر باہر کچن کی جانب چلی گئی۔

دوپہر کے لیے کھانا بنانے کے بعد وہ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے فارغ ہوئی۔

ڈائری کا خیال آتے ہی وہ واپس کمرے کی طرف آ گئی۔

رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھتے ہی ڈائری کھولی اور لکھنا شروع کیا۔)

بابا کے انتقال کے بعد میں اور امی بالکل اکیلے ہوگئے تھے۔بہن بھائی تو میرا کوئی تھا نہیں۔

میں اکیلی تھی۔

ہاں ایک سہیلی تھی میری۔اب کہاں ہوگی کچھ پتا نہیں۔اس کا نام نبیلہ تھا۔میری بہت اچھی دوستی تھی اس کے ساتھ۔اس کے علاؤہ پورے سکول میں میری کوئی دوست نا تھی۔

میں 14 سال کی تھی جب ایک دن سکول سے واپس گھر جانے کے راستے میں مجھے دو لڑکوں نے گھیر لیا تھا۔

جس گلی سے میں گزر رہی تھی وہ کافی سنسان تھی۔

وہ دونوں میرے آگے پیچھے چکر کاٹ رہے تھے اور میں ڈری سہمی ان کے درمیان کھڑی تھی۔

اس سے پہلے کہ وہ لوگ مجھے کچھ کہتے میرے پیچھے سے کوئی آیا اور ان دونوں لڑکوں پر حملہ آور ہوگیا۔

میں حیرت سے اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی جو ان دونوں کو مار رہا تھا اور کافی بے رحمی سے مار رہا تھا۔

وہ دونوں ڈر کر وہاں سے بھاگ گئے تو وہ میری طرف مڑا۔

میں جو حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر ایک بار پھر سے ڈر گئی تھی۔

"ڈرنے کی ضرورت نہیں اور آئندہ یوں تنہا مت نکلنا گھر سے۔اب جاؤ۔" وہ میرے سامنے آکر مجھ سے بولا تھا۔

یہ کہہ کر وہ سائیڈ پر ہوا اور میں بھاگ کر گھر کی طرف چلی گئی۔

اور وہاں سے ہی میرے سیاہ دنوں کا آغاز ہوا تھا۔

اس رات میں اس انسان کو سوچتی رہی جس نے یوں آکر مجھے بچایا تھا۔

وہ کسی ہیرو سے کم نا لگا تھا مجھے۔

اگلے دن سکول سے واپسی پر وہ اس گلی میں کھڑا تھا جہاں سے میں گزرا کرتی تھی اور پھر یہ معمول بن گیا۔

مسلسل دو ہفتے تک میں اسے وہاں دیکھتی رہی۔

روز رات میں اسے سوچا کرتی۔

وہ مجھے اچھا لگنے لگا تھا۔

ایک دن معمول کے مطابق میں سکول سے واپس گھر جا رہی تھی جب راستے میں اسی لڑکے نے مجھے روکا۔

اس کے یوں روکنے پر میں گھبرا گئی تھی مگر میں اسے نظر انداز نا کر سکی تھی اسی لیے رک گئی۔

میں اس کے سامنے کھڑی تھی اور اس نے بولنا شروع کیا۔

"مجھے نہیں پتا کب مگر آپ مجھے اچھی لگنے لگی ہیں میں آپ سے بے پناہ محبت کرنے لگ گیا ہوں۔آپ نے مجھے اپنا دیوانہ بنا ڈالا ہے پلیززز مجھے انکار مت کیجیے گا۔میں آپ کا ساتھ ہمیشہ کے لیے چاہتا ہوں۔"

اس کے یہ الفاظ تب تو میرے دل کو سکون دے گئے تھے مگر آج انہیں سوچتی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے اگلے پل میں ہی میں اس دنیا سے کوچ کر جاؤ گی۔

میں اس کی باتوں پر ایمان لے آئی تھی۔

شروع شروع میں میرے دل میں ایک خوف تھا مگر بعد میں وہ خوف بھی ختم ہوگیا جب یہ احساس ہوا کہ میرے پر کوئی نگرانی کرنے والا نہیں۔بابا کا انتقال ہوچکا تھا اور بھائی کوئی تھا نہیں۔اماں کا ہونا نا ہونا تب میرے لیے برابر تھا۔

میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ حرام حلال بھول بیٹھی تھی۔

میں بے وجہ ہی اس انسان سے محبت کر بیٹھی۔

میں ایک دو بار اس سے ملنے بھی گئی تھی۔

اپنی محبت کی داستان میں اپنی سہیلی نبیلہ کو سنایا کرتی تھی۔

وہ ہمیشہ مجھے سمجھاتی تھی کہ مت کرو ایسا مگر میری آنکھوں پر محبت کی پٹی بندھی تھی۔

ایک دن یونہی میں اماں کے پاس بیٹھی تھی جب انہوں نے مجھ سے پوچھا۔

"تم کس راستے سے گھر آتی ہو اریج۔"

میں ان کے اس سوال پر گھبرا گئی تھی کیونکہ اب میں اس راستے سے گھر نہیں جایا کرتی تھی جس سے پہلے جاتی تھی۔

"امی وہی سے جہاں سے پہلے آتی تھی کیوں۔"

"کچھ نہیں آج ادھر سے گزری تھی تمہاری چھٹی کے وقت مگر تم مجھے نظر نہیں آئی وہاں جب کہ ہم دونوں ساتھ ہی گھر میں داخل ہوئے تھے۔"

مجھے ایک پل کو امی سے خوف آیا تھا

"ہاں وہ نبیلہ کے ساتھ دوسری طرف چلی گئی تھی آج تو اسی لیے دوسرے راستے سے آئی۔"

"ٹھیک ہے بچے۔مگر آئندہ ایسا مت کرنا۔"

امی تو یہ کہہ کر چلی گئی تھیں مگر مجھ پر ایک خوف طاری ہوگیا تھا۔

مجھے احساس تھا کہ میں غلط کر رہی ہوں مگر میں اس حقیقت کو بار بار جھٹلا رہی تھی۔

(اس نے ایک نظر پھر سے گھڑی کو دیکھا تھا اب کہ ایک بج رہے تھے گھڑی پر۔وہ فوراً سے سب چھوڑ کر اٹھی کیونکہ مجتبیٰ نے دو بجے لنچ کرنے آنا تھا۔اس نے فوراً سے اپنا حلیہ درست کیا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔

کچن میں جا کر اس نے کھانا گرم کیا اور ٹیبل سیٹ کیا کہ اتنے میں ہی ڈور بیل بجی۔

وہ گھڑی پر ایک نگاہ ڈالتی باہر کی جانب موڑی۔

دروازہ کھولا تو سامنے مجتبیٰ کھڑا تھا۔

وہ دھیمے سے مسکرائی۔

"اسلام و علیکم۔"

"وعلیکم السلام۔کیا حال ہیں ہماری زوجہ محترمہ کے۔"وہ اندر آیا اور کمرے کی طرف چل دیا۔

"بہت اچھے حال ہیں۔آپ بتائیں کیسا رہا دن۔"وہ اب اس کے ہاتھ سے بیگ لے رہی تھی۔

"دفتر کا کام اور آپ کی یادیں۔بسس اور کیسا ہوسکتا ہے ہمارا دن۔"وہ بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھ کر اب اپنے جوتے اتار رہا تھا۔

"آپ فریش ہو جائیں۔"

"میں کھانا لگاتی ہوں۔"وہ ابھی بول رہی تھی کہ مجتبیٰ نے اس کی بات مکمل کر دی۔اس نے اریج کا بازو تھاما اور اسے اپنے برابر میں بیٹھایا

"جناب کبھی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کریں۔بتائیں کیا کیا آپ نے سارا دن۔"

"کچھ خاص نہیں بس ایک ڈائری ملی تھی صفائی کرتے وقت تو وہی لکھ رہی تھی۔"

"ارے واہ۔کیا لکھ رہی تھیں آپ۔"

"اپنا ماضی۔"اس نے گہرا سانس لے کر جواب دیا۔

مجتبیٰ نے افسوس سے اسے دیکھا۔

"اریج۔"ابھی وہ کچھ کہتا کہ وہ بیچ میں ہی بول پڑی۔

"پلیزز مجتبیٰ مجھے لکھنے دیں۔کیا پتا میں اسی طرح وہ سب بھول جاؤں۔آپ مجھے منع مت کیجیے گا پلیززز۔"

"ٹھیک ہے آپ کا جو دل چاہتا ہے کریں میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا۔"وہ یہ کہتا واشروم میں چلا گیا جب کہ پیچھے اریج بس اسے دیکھتی رہ گئی۔

کھانا کھانے کے دوران وہ دونوں خاموش رہے تھے۔

مجتبیٰ کھانا کھاتے ہی واپس جانے کے لیے تیار ہونے لگا جب اریج اس کے پاس آئی۔

"سوری۔"وہ شرمندہ شرمندہ سی نظر آرہی تھی۔

وہ پہلے تو اسے دیکھتے رہا اور پھر اسے دونوں بازوؤں سے تھام کر بیڈ پر بیٹھایا اور خود گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا۔

"اریج۔میں نے آپ کو کبھی چیز سے منع نہیں کیا اور نا اب کروں گا۔ آپ جو لکھنا چاہتی ہیں لکھیں۔اگر اس طرح سے آپ اپنے ماضی کو بھول جائیں گی تو میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی اور کیا بات ہوگی۔اب آپ آرام سے لکھیں اپنی کہانی میں چلتا ہوں۔ اللّٰہ حافظ۔"

وہ یہ کہتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا جبکہ پیچھے وہ دوبارہ سے رائٹنگ ٹیبل پر جا بیٹھی۔)

اپنی ہی دنیا میں مگن بس اس انسان کو سوچتی رہتی تھی میں ہر وقت۔

وہ دن با دن میرے لیے عزیز تر ہوتا جا رہا تھا۔

وہ میرا کتنا نقصان کرنے والا ہے اس بات سے تو میں بالکل انجان تھی۔

ایک دن ہمارے سکول میں کانفرنس تھی۔

پرنسپل صاحبہ نے ایک لمبی تقریر کی جس کی شروعات انہوں نے ہم لڑکیوں کو ایک نصیحت سے کی۔

ان کے الفاظ سہی سے تو نہیں یاد مگر جو یاد ہے وہ میں لکھ دیتی ہوں۔

"آپ سب میرے لیے میری اولاد جیسی ہیں۔آپ سبھی بچیاں مجھے بے حد عزیز ہیں۔میں چاہتی ہوں کہ آپ ہمیشہ صراط مستقیم پر رہیں۔سیدھی راہ پر چلیں۔

آج کل کا دور آپ لوگوں کے لیے بہت بھیانک ہے۔خدار اپنی عزتوں کی حفاظت کریں۔اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔یہاں جگہ جگہ مرد کے لباس میں بھیڑیے گھوم رہے ہیں۔اپنے آپ کو ان سے دور رکھیں۔ اللّٰہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔"

یہ الفاظ تب میں نے بہت اتنے دھیان سے نا سنے تھے کیونکہ تب یہ سب مجھے بکواس لگ رہا تھا۔مگر آج اس چیز کا احساس ہوا کہ وہ سہی کہتی تھیں۔

یہاں جگہ جگہ مرد کے لباس میں بھیڑیے گھوم رہے ہیں۔اپنی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے۔

یہاں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔

تب میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔

اس انسان کی محبت نے مجھے پاگل بنا رکھا تھا۔

دو مہینے گزر چکے تھے۔

ہم روز ملتے تھے۔

ڈھیر باتیں کرتے تھے۔

وہ مجھے اپنا عادی بنا چکا تھا۔

پھر ایک دن یوں ہوا کہ وہ کہیں غائب ہوگیا۔

میں روز اس کا انتظار کرتی تھی مگر وہ وہاں نہیں آتا تھا جب کہ پہلے وہ میرے آنے سے قبل وہاں پایا جاتا تھا۔

دو ہفتے میں نے اس کا انتظار کیا۔

میں پریشان ہوگئی۔

مجھے یہ ڈر تھا کہ کہیں و کسی حادثے کا شکار نا ہوگیا ہو مگر کسے معلوم تھا کہ وہ مجھے برباد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

اس کی اتنی عادی ہو چکی تھی کہ اس کی دوری نے مجھے پریشان کر دیا۔

اس کی یاد میں،میں بیمار ہوگئی۔

امی میری وجہ سے پریشان ہو گئی کہ آخر اچانک مجھے کیا ہو گیا۔

تین دن بیمار رہنے کہ بعد دوبارہ سے اس کی تلاش میں نکل پڑی تھی اور آخر کار وہ مجھے مل گیا۔

اس دن سکول سے واپسی پر وہ اسی گلی میں کھڑا تھا اسے دیکھتے ہی میں اپنا ضبط کھو بیٹھی تھی۔

"کہاں چلے گئے تھے تم" اس تک پہنچ کر سوال کیا جس پر وہ مسکرایا۔

"یہی تھا بس کچھ مصروفیات تھیں سوری میں بتا نہیں سکا۔"

"جانتے ہو کتنا پریشان تھی میں۔تین دن سے بیمار تھی میں۔مگر تمہیں کیا فرق پڑتا ہے تم جاؤ اپنے کام کرو۔"

"اچھا یارر سوری۔پرامس آئندہ بتا کر جایا کروں گا۔اب موڈ ٹھیک کرو تمہیں ایک بات بتانی ہے۔"

اس کے بعد جو بات اس نے بتائی اس پر میں خوش تو ہوئی مگر کہیں اندر سے پریشان بھی تھی۔

اس نے کہا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں سے بات کر چکا ہے اور کل مجھے لے جائے گا۔

میں خوش تھی کہ میں اس کی ہو جاؤ گی اور پریشان تھی کہ امی کو کیا کہوں گی۔

مگر پریشانی کو ایک طرف کر کے میں نے اس کے ساتھ جانے کا وعدہ کیا۔

اگلے دن سکول جانے کے بجائے میں اس کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گئی۔

ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ وہاں میرے علاؤہ بھی کوئی موجود ہے۔

وہ ایک بلڈنگ تھی جس کو ابھی تعمیر کیا جا رہا تھا۔

کسی احساس کے تخت میں وہاں تک پہنچی جہاں سے آواز آرہی تھی۔

وہاں دو لوگ بات کر رہے تھے شاید۔

ایک آواز سے تو میں واقف تھی مگر دوسری آواز میرے لیے انجان تھی۔

ان کی بات سن کر میری روح پرواز ہو جانے کو تھی۔

میں نے باقاعدہ کانپنا شروع کر دیا تھا۔

وہ انسان جو میرے سامنے محبت کے اظہار کرتے نہیں تھکتا تھا آج وہ میرے لیے اتنے غلیظ الفاظ استعمال کر رہا تھا کہ میرا دل کیا کہ واقعی ہی میری روح پرواز کر جائے۔

زیادہ تو نہیں بتا سکوں گی مگر وہ الفاظ کچھ یوں تھے۔

"لڑکی ہے تو بڑی غضب کی۔اچھا پیسہ مل جائے گا اس کا بس آج آ جائے گی تو اس کا کام تمام کرتے ہیں۔(گالی) سمجھتی ہے میں اس سے سچی والی محبت کرنے لگ گیا ہوں۔"

اس سے زیادہ سننے کی میرے اندر ہمت نہیں تھی۔

اپنا سکول بیگ وہاں سے اٹھا کر میں گھر کی جانب بھاگ آئی۔ شکر کہ اسے پتا نہیں تھا میں وہاں ہوں۔

گھر سکول ٹائم سے جلدی آگئی تھی میں۔

امی مجھے دیکھ کر حیران تھیں۔

"تم اس وقت گھر پر خیر تو ہے۔"وہ پریشان تھیں۔

امی کے سینے سے لگ کر بے تحاشہ روئی۔

اور پھر تب ہی فیصلہ کیا کہ اب یہاں نہیں رہوں گی۔

وہ بھیڑیا کسی بھی وقت میرے گھر تک آسکتا تھا۔

میں نے امی سے کہا کہ اب ہم یہاں نہیں رہے گے۔

وہ وجہ جاننا چاہتی تھی جس پر میں کچھ نا کہہ سکی۔

امی شاید کچھ سمجھ گئی تھیں اسی لیے انہوں نے اپنے بھائی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا جو کہ فیصل آباد میں تھا۔

کراچی سے فیصل آباد آنے کا فیصلہ اسی رات ہوا تھا۔

رات کے تیسرے پہر،میں اور امی  گھر سے نکلے اور ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔

فیصل آباد جانے والی گاڑی میں ابھی وقت تھا اور میں بس یہ دعا کرتی رہی کہ وہ درندہ مجھے وہاں نا دیکھ لے۔

خدا خدا کر کے فیصل آباد پہنچے اور پھر ہمیشہ کے لیے وہاں کر ہو کر رہ گئے۔

امی بار بار مجھ سے وجہ پوچھتی تھیں مگر میں ہمیشہ ٹال دیتی تھی۔

ایک دن سب ٹی وی کے آگے بیٹھے تھے جب اچانک ماموں جان نے نیوز چینل پر لگا دیا۔

سامنے چلتی خبر دیکھ کر میرے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔

سامنے وہی چہرہ نظر آرہا تھا اور نیوز اینکر بار بار ایک ہی بات بول رہا تھا۔

"اور ملک کے وخشی درندے بے نقاب ہوگئے۔

لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھانس کر انہیں بیرونے ملک فروخت کرنے والا گینگ بے نقاب ہوگیا ہے۔گینگ لیڈر نے اعتراف جرم کر لیا اور اب سزا عدالت سنائے گی۔

خدار اپنی بہن بیٹیوں کی حفاظت کریں۔"

وہ اور بھی کچھ بول رہا تھا مگر میں اپنی سننے کی صلاحیت کھو بیٹھی تھی۔

میں اتنے وقت تک ایک درندے کی محبت میں گرفتار رہی۔

یہ سوچ کر دل کرتا تھا خود کو ختم کر لوں۔

اس رات میں سو نا سکی تھی جس کی وجہ سے صبح بخار میں مبتلا ہوگئی۔

امی ماموں مامی سب میری حالت پر پریشان ہوگئے۔

مگر مجھے مضبوط بننا تھا اسی لیے خود پر ضبط رکھا۔

اس شخص کا بھیانک چہرہ میں اب تک نا بھول سکی۔

مگر دل میں سے اس کی محبت نکال چکی تھی۔

میں حیران اور خوش ہوں کی میں اس درندے سے بچ گئی مگر افسوس ہے ان لڑکیوں کے لیے جو ناجانے اس بھیڑیے کی وجہ سے آج کہاں ہوں گی۔

میں آج بھی محفوظ ہوں۔

مجھے خدا نے محفوظ رکھا۔

میں آج تک اللّٰہ کا شکر ادا کرتی نہیں تھکتی کہ اس نے مجھ جیسی گنہگار کو اس دن بچا لیا۔

اور بیشک خدا ہمارا بہترین محافظ ہے۔

کچھ سال بعد جب میری پڑھائی مکمل ہوگئی تو امی کو میری شادی کی فکر ستانے لگی۔

میں ڈرتی تھی اس سب سے بار بار اپنا ماضی سامنے آتا تھا۔

بہت منع کرنے کے باوجود امی نے میری ایک نا سنی۔

میرے لیے مجتبیٰ کا رشتہ آیا۔

رشتے طے ہوگیا اور منگنی کے بجائے شادی کا کہا گیا۔

دل میں ماضی اب تک دفن نا ہوا تھا۔

ڈر تھا کہ جب میں اس شخص کو،جو اب میرا شوہر ہو گا، بتاؤں گی تو وہ کیا کرے گا میرے ساتھ۔

یہی ڈر مجھے بے چین رکھتا ہے۔

میں نے اتنی بار کوشش کی مجتبی کو سب بتانے کی مگر وہ ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔

شاید آج وہ میرے ماضی سے واقف ہو جائیں۔

ڈر ہے کہ اب آگے کیا ہوگا۔

کیا وہ مجھے چھوڑ دیں گے؟؟؟

کہانی کا اختتام ادھر ہی کرتی ہوں۔

مگر کچھ کہنا چاہتی ہوں۔

اس ملک کی بیٹیوں کے لیے۔

تم اپنی محافظ خود بنو۔

کچی عمر کے گناہ ساری زندگی کے پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں دیتے۔

یہ محبت کا ڈھونگ رچانے والے آپ کے محافظ کبھی نہیں ہو سکتے۔

اللّٰہ پر یقین رکھیں۔

مصیبت میں کسی انسان کو پکارنے کے بجائے اللّٰہ کو پکاریں۔

"اور اللّٰہ بہتر سنتا اور جانتا ہے"

(آخری الفاظ لکھتی ہی اپنے چہرے پر ایک ہاتھ پھیرا جو آنسوں سے بھیگ چکا تھا۔قلم اور ڈائری بند کر کے سائیڈ پر رکھی اور گہرا سانس لیا۔آج ایک بوجھ اترا تھا کندھوں سے۔)

۔۔۔۔

رات مجتبیٰ کے آنے کے بعد وہ دونوں ٹی وی کے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب مجتبیٰ کچھ یاد آنے پر بولا۔

"ارے آپ کی وہ کہانی کہاں پہنچی بھئی۔کمپلیٹ ہوگئی کیا۔؟؟"

"جی ہو گئی۔"اس نے جواب دیا اور ٹی وی کا چینل بدلا۔

"رو رہی تھی۔"وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا۔

"ن۔ نہیں تو۔"اس نے چہرہ دوسری طرف کرنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی مجتبیٰ اسے روک چکا تھا۔

"آپ کو کیا میں بے وقوف لگتا ہوں جو آنکھوں دیکھا جان نہیں سکتا۔"اس نے زرا سختی سے پوچھا جس پر پہلے تو وہ گھبرائی اور پھر سر اثبات میں ہلا دیا۔

مجتبیٰ منہ کھولے اسے دیکھنے لگا تو وہ ہنس دی۔

"سوری۔"اریج نے ہنسی دبائی۔

"دیکھ لوں گا۔"وہ آنکھیں چھوٹی کر کے زرا خفگی سے بولا۔

"شکریہ میری زندگی میں آنے کے لیے اور مجھے ہمیشہ سپورٹ کرنے کے لیے۔آپ میری کہانی ضرور پڑھیے گا پلیزززز(وہ کچھ بولنے والا تھا۔ جب اس نے روکا۔)میری خاطر۔رائٹنگ ٹیبل پر ڈائری پڑی ہے آپ جب چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔" یہ کہتی وہ کمرے میں چلی گئی۔

۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد جب وہ کمرے میں آیا تو دیکھا وہ بیڈ پر لیٹی تھی اور شاید سو چکی تھی۔

ایک نظر اسے دیکھ  کر وہ رائٹنگ ٹیبل کی طرف بڑھا۔

ڈائری کھولی اور پڑھنا شروع کیا۔

جیسے جیسے وہ پڑھتا گیا چہرے کا رنگ بدلتا گیا مگر آخر میں آکر چہرے کے تاثرات انتہائی نارمل تھے یوں جیسے کچھ بھی نا ہوا ہو۔

پاس پڑا قلم اٹھا کر اسی کہانی کے آگے کچھ لکھا اور ڈائری بند کر کے سونے کے لیے چلا گیا۔

۔۔۔۔

صبح اٹھتے ہی سب سے پہلا خیال ڈائری کا آیا اسے۔

بستر سے اٹھتی وہ رائٹنگ ٹیبل تک پہنچی اور ڈائری اٹھا لی۔

جس صحفے کے درمیان اس نے قلم رکھا تھا وہ ویسے ہی تھا۔

وہ تھوڑا مایوس ہوئی کہ شاید مجتبیٰ نے ڈائری نہیں پڑھی مگر اچانک اس کی نظر اس صحفے پر پڑی جہاں مجتبیٰ نے اس کے لیے ایک پیغام لکھا تھا۔

("مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے کوئی غیر حقیقی کہانی ہو یہ۔مگر خیر اگر یہ سچ بھی ہے تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ تمہارا ماضی تھا اریج مجتبیٰ۔تمہارا حال اور مستقبل صرف "مجتبیٰ کمال" ہے اور کوئی نہیں۔اب ماضی کو بھول جاؤ اور اپنے حال پر توجہ دو۔میں زندگی کی آخری سانس تک تمہارے ساتھ رہوں گا۔اس جرم پر تمہاری صرف یہ سزا ہے کہ اب تم ساری زندگی میرے ساتھ گزارو گی۔

صرف اور صرف تمہارا مجتبیٰ

وہ یہ پڑھ کر مسکرائی اور ایک نظر اسے دیکھا جو بیڈ پر سو رہا تھا۔

۔۔۔۔

ضروری نہیں کہ یہ غلطیاں ٹین ایج میں ہی ہوں۔ہم چاہے جس مرضی عمر میں ہیں ہمیں ان گناہوں سے دور رہنا چاہیے۔

اپنی عزت کے محافظ ہم خود ہیں۔

مشکل میں اللّٰہ کو پکاریں۔

مدد کرنے والا صرف ہمارا رب ہے۔

انسانوں پر اتنا اندھا بھروسہ مت کیا کریں کیونکہ کچھ انسان،انسان نہیں بلکہ بھیڑیے ہوتے ہیں جو آپ کو نوچ کھاتے ہیں۔

اپنے باپ بھائی شوہر کے علاوہ کسی مرد پر اعتبار مت کریں۔

پریشان ہیں تو اللّٰہ کو پکاریں وہ آپ کی تمام مشکلات سے آگاہ ہے۔

ایسی غلطیاں کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ ہر مرد مجتبیٰ کمال نہیں ہوتا۔

اکثر سچائی بتانے پر عورت کو دھتکار دیا جاتا ہے۔

اپنے آپ کو اپنے محرم کے لیے سنبھال کر رکھیں۔


   
Novels Hub reacted
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?