Afsana Description :
یہ چھوٹی سی کہانی آپ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دے گی۔ہمارے یہاں محبت کا مفہوم کیا ہے اور اصل حقیقی محبت کسے کہتے ہیں۔اسے پڑھنے کے بعد آپ کو واضح فرق سمجھ آئے گا۔
اس میں موجود کرداروں کے درمیان آپ کو فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ کون زیادہ اچھا انسان ہے۔اور میں یہی چاہتی ہوں۔آپ کو کچھ دشواری پیش آئے تا کہ جب آپ فیصلہ کر لیں تو آپ جان جائیں کہ آپ محبت کے کس مقام پر ہیں۔
افسانہ
سورج کی روشن کرنیں اپنی تمام تر خوبصورتی اور تپش کے ساتھ اس علاقے میں بلا خوف و خطر داخل ہو رہی تھیں۔لوگ ان سے بچنے کو اپنے گھروں میں ٹھنڈے کمروں کو مرکز بنائے ہوئے تھے۔
اس سب میں وہ ایک چھوٹا سا نہایت خوبصورت مکان اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔جس میں رہنے والے مکین صرف تین تھے۔جس میں سے دو اس وقت گھر میں موجود تھے۔چلو اس چھوٹے سے لان کو عبور کرتے ہوئے ہم اس گھر کے داخلی دروازے سے ہوتے ہوئے کچن میں موجود کھٹ پٹ کی جانب رخ کرتے ہیں۔
عشرت بیگم ٹیبل پر بیٹھیں رانی کو معمول کے مطابق حکم دے رہی تھیں۔ان کے جھریوں زدہ چہرے پر چمک تھی۔سفید رنگ کے سوٹ کے ساتھ کلائیوں میں سونے کے کنگن تھے۔کانوں میں بھی سونے کی بالیاں اور انگوٹھی ان کی شان و شوکت کو چار چاند لگا رہی تھی۔
"نایاب کو اٹھایا نہیں رانی؟" انہوں نے رانی کے چلتے ہاتھوں کو دیکھتے پوچھا۔
ان کے لہجے میں وقار بول رہا تھا۔وہ تعلیم یافتہ اور کافی نفاست پسند معلوم ہوتی تھیں۔
"جی اٹھا دیا تھا۔" رانی نے انہیں بغیر دیکھے ہی جواب دیا۔اس کے مسلسل چلتے ہاتھ ،مکمل ٹریننگ کی گواہی دے رہے تھے۔وہ سانولی رنگ کی دبلی پتلی عورت تھی۔جو کچھ سالوں سے ان کے گھر کام کر رہی تھی۔جب تک عشرت بیگم کام کرنے کے لائق تھیں۔تب تک وہ خود ہی کرتی تھیں۔
"تیار ہو گیا کھانا؟" عشرت بیگم نے کھانے کا بغور جائزہ لینے کے لیے خود اٹھتے ہوئے کہا۔ایک طائرانہ نگاہ اطراف پر ڈالی۔کچن ابھی بکھرا ہوا تھا۔لیکن رانی ساتھ ساتھ سب سمیٹ رہی تھی۔
"جی بس ہو ہی گیا۔" وہ آخری کے کام نمٹاتے ہوئے بولی۔
"ہیلو، گڈ مارننگ نانو۔"کچن میں گھستے نایاب نے سیدھا عشرت بیگم کے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے اعلان کیا۔
وہ گندمی رنگت کی حامل دراز قد خوبصورت لڑکی تھی۔جس کے لمبے بال اس وقت کیچر میں بندھے تھے۔اسے لمبے بال پسند نہیں تھے۔لیکن نانو اسے کٹوانے نہیں دیتی تھیں۔
"کتنی بار سمجھاؤں تمہیں۔سلام کرتے ہیں۔ہم مسلمان ہیں۔ہمیں یہ انگریزوں کے طرز عمل نہیں اپنانے چاہیے ۔" وہ واپس مڑتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو گردن پر سے ہٹاتے ہوئے بولی۔اسے سر سے پیر تک دیکھا۔وہ کافی فریش سی لگ رہی تھی نکھری ہوئی۔
انہوں نے زیر لب ماشاءاللہ کہا۔
"اور اب مارننگ نہیں ہے نایاب بی بی۔" رانی نے بھی ہنستے ہوئے لقمہ لگایا تھا۔
نایاب نے منہ بسورا۔ایسی باتیں وہ اکثر بھول جاتی تھی۔ہائے رے بھولی نایاب۔
"آئندہ سے نہیں بولوں گی۔پکا۔پرومس۔" ہر دفعہ کی طرح اس نے اپنا مخصوص جملہ دہرایا تھا۔اس کے ساتھ ہی وہ فریج کی طرف بڑھ گئی۔
"ایسے وعدے نہیں کرتے جو پورے نہ کر سکیں۔" اسے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے دیکھ کر نانو نے ناراضگی سے اسے جتایا تھا۔
وہ ہمیشہ اس کی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں۔آخر وہ ان کی ذمہ داری تھی۔
"سچی اب سے پکا والا پکا۔کیوں رانی۔" نایاب نے کھل کر مسکراتے ہوئے رانی کو کندھا مارا۔وہ ایسی ہی تھی۔ہنس مکھ سی۔
کسی چیز کا صدمہ کم ہی لیتی تھی۔اور یہ بات بھی اس نے عشرت بیگم سے سیکھی تھی۔وہ باتوں کو سر پر سوار نہیں کرتی تھیں۔ہر چیز میں حدود کی قائل تھیں۔
"رہنے دیں نایاب بی بی ۔ہمیں معلوم ہے آپ کا پکا کتنا کچا ہے۔" ران
ی نے بھی بھرپور اس کی کلاس لی تھی۔بکھرا سامان وہ سمیٹ چکی تھی۔اب بس کھانا ٹیبل پر لگانے والا رہ گیا تھا۔
"اچھا ناں بس۔یہ بتائیں۔اب مجھے ناشتہ ملے گا یا لنچ؟ بہت بھوک لگی ہے۔" اس نے دہائی دیتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔صبح صبح ہی اچھی خاصی نصیحتیں سننے کو مل گئی تھیں۔
لیکن اب وہ برا نہیں مناتی تھی۔اسے عادت ہو گئی تھی اور سمجھ بھی آ گئی تھی کہ نانو اس کا ہمیشہ بھلا ہی چاہتی ہیں۔اور اسے ہمیشہ اچھی بات ہی بتاتی ہیں۔
"لنچ ملے گا۔چلو چیزیں سیٹ کرو ٹیبل پر رانی کے ساتھ مل کر۔" نانو نے اسے بھی حکم دیتے ہوئے باہر کی راہ لی۔ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی اسے کسی کام میں لگائے رکھیں تا کہ وہ سلیقہ سیکھ لے۔
"ہائے۔میں تو کھانے آئی تھی۔یہ کام کیوں نہیں جان چھوڑتے۔نانو آپ ظلم کر رہی ہیں بن ماں باپ کی بچی پر۔" وہ مصنوعی ناراضگی سے چیزیں اٹھاتی ہوئی اونچی آواز میں بولی۔نانو نے ان سنا کر دیا تھا۔
"نانا نظر نہیں آ رہے؟" ان کے جاتے ہی اس نے رانی کی طرف سر گھمایا۔
"وہ کہیں انوائیٹڈ تھے تو وہاں گئے ہیں۔" رانی کے جواب دیتے ہی وہ سر ہلاتے ہوئے چیزیں اٹھائے باہر کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کی چائے پر عبدالرحمن صاحب بھی آ گئے تھے۔وہ بوڑھے ہو کر بھی اس عمر میں ایکٹیو تھے کیونکہ وہ آرمی سے ریٹائرڈ تھے اور آج بھی اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے۔اور نایاب کو بھی یہی تلقین کرتے تھے۔
وہ بہت سی باتوں کی طرح اس بات کو بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال باہر کرتی تھی۔
اس چھوٹے سے لان میں وہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے جو کہ نایاب نے بنائی تھی۔وہ چائے اچھی بناتی تھی۔
"تم بھی چلی جاتی فنکشن میں۔گھر میں رہ کر بور ہی ہوئی ہو گی۔" نانا نے اسے دیکھتے کہا۔وہ جب گئے تھے تب وہ سو رہی تھی۔
"نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔نیند پوری کی ہے۔وہاں پر جا کر تھکاوٹ کے سوا اور کیا ملنا تھا۔" وہ ہلکا سا مسکرا کر انہیں وضاحت دینے لگی۔
نانو نے اسے غور سے دیکھا۔وہ آسمانی رنگ کے لباس میں آسمان کا ایک ٹکڑا ہی معلوم ہو رہی تھی۔
اداس سی۔کسی وجہ پر اندر ہی اندر پریشان۔
وہ کافی دنوں سے اسے نوٹ کر رہی تھیں۔وہ گم صم سی رہنے لگی تھی۔وجہ معلوم کرنے پر ہنس کر وہم بتاتے ہوئے وہ ٹال گئی تھی۔
ان کی زیرک نظریں اس کا مکمل جائزہ لے رہی تھیں۔
"چلو یہ تو اچھی بات ہے۔پہلے والی تھکاوٹ اتر گئی اب صبح فریش سی جانا۔" انہوں نے اس بات پر بھی اس کی تائید کی۔وہ ہمیشہ اسے ترجیح دیتے تھے۔وہ بلا ضرورت اختلاف کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔
ہر انسان کو اس کی ترجیحات کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے اور یہی بات نایاب کو بہت پسند تھی۔
"صبح نہیں جانا۔"نایاب نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔اسے معلوم تھا ان کا کیا ری ایکشن ہو گا۔وہ دونوں اس کی پڑھائی کے معاملے میں کافی سخت واقع ہوئے تھے۔
"کیوں؟" نانو نے حیرانگی سے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔کپ وہ رکھ چکی تھیں۔نانا نے بھی سوالیہ اسے دیکھا۔
"بس دل نہیں چاہ رہا۔" اسے محسوس ہوا وہ انہیں اس وقت بتا کر غلطی کر چکی ہے۔وہ صبح کوئی بھی بہانہ کر کے چھٹی کر لیتی۔ایک لمحے کو وہ اس بیوقوفی پر آنکھیں میچ گئی۔
لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔منہ سے نکلے الفاظ واپس نہیں آ سکتے تھے۔
"دل کیوں نہیں چاہ رہا؟کیا ہوا ہے؟"نانو نے اسے ٹٹولا۔وہ فضول میں چھٹی نہیں کرتی تھی اور ناں ہی وہ کرنے دیتے تھے۔
"کوئی بات ہے؟ہمیں بتاؤ۔تم تو ایسے چھٹی نہیں کرتی ہو کبھی۔" نانا نے بھی گفتگو میں مداخلت کی۔
دونوں نے سوالوں کی بوچھاڑ اس پر کر دی تھی۔وہ کچھ عاجز ہوئی۔اب اتنی بھی کیا پوچھ گچھ۔
"ہمم،بس ویسے ہی،کون سا کسی نے آنا ہے صبح۔سب تھکے ہوں گے۔آرام کریں گے۔" اس نے دونوں کے جھریوں زدہ چہروں پر نظر ڈالتے ہوئے بروقت بہانہ گھڑا۔اب انہیں مطمئن تو کرنا تھا۔
نانا اور نانو نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کی پھر پیچھے کو ٹیک لگاتے ہوئے بیٹھ گئے۔
"اچھا۔" نانا نے اس کی بات کو سچ مانتے ہوئے سر ہلایا۔
"اور پرسوں؟" سوال نانو کی طرف سے آیا تھا۔
"پرسوں تو جاؤں گی۔" نایاب نے بہت سا تھوک نگلتے ہوئے مسکراہٹ برقرار رکھ کر جواب دیا۔
جانا تو نہیں چاہتی لیکن جانا ہی پڑے گا۔دل ہی دل میں وہ سوچ رہی تھی۔
نانو نے اسے بغور تکتے سر ہلایا۔اس نے شکر ادا کیا۔دونوں مطمئن ہو گئے تھے۔اب وہ نانا سے ان کے لنچ کا حال احوال دریافت کر رہی تھی۔
دور آسمان پر گھر جاتے اڑتے ہوئے پرندوں کی آوازیں اس خاموش ماحول میں خوبصورت ساز معلوم ہو رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنر کے بعد نانو اسے کمرے میں آنے کا کہہ کر اٹھ گئیں۔نانا لاؤنج میں بیٹھے اپنے ٹاک شو انجوائے کر رہے تھے۔وہ خاموشی سے اٹھ کر نانا کے کمرے کی طرف بڑھ آئی۔
دروازہ ہلکا سا بجا کر وہ اندر داخل ہوئی۔نانو بستر پر بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھیں۔وہ خاموشی سے آکر ان کے سامنے براجمان ہو گئی جیسے ان کی کوئی نصیحت سننے کے لیے فرمانبردار بچی سر جھکائے بیٹھی ہو۔
اسے وہم سا ہوا جیسے کوئی بہت ضروری بات ہو۔نانو ہمیشہ ایسے ہی اسے بلواتی اور سب کچھ اگلوا لیتی تھیں۔
"انسان سر تب جھکاتا ہے جب کوئی غلط کام کیا ہو یا تب جب وہ کسی کام پر شرمندہ ہو۔" انہوں نے بات کا آغاز ہی بہت سیدھے طریقے سے کیا تھا۔
کمرے کی فضا بوجھل ہوئی۔نایاب کے دل کی دھڑکن تھوڑی بڑھی۔کیا بتا دوں انہیں یا نہیں۔دل و دماغ کی جنگ جاری تھی۔
"نہ میں نے کوئی غلط کام کیا ہے اور نہ ہی میں اپنے کسی عمل پر شرمندہ ہوں۔آپ بتائیں کیا بات ہے؟" اس نے بے مقصد بیڈ شیٹ پر لائینیں بناتے ہوئے بغیر سر اٹھائے ہی جواب دیا۔
ابھی فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔ابھی وقت درکار تھا۔شاید ایسی کوئی بات نہ ہو جیسا وہ سوچ رہی ہے۔خود کو تسلی دی۔
"اچھی بات ہے اور نہ ہی ایسا کچھ ہونا چاہیے نایاب۔" انہوں نے ایک نظر اس کے ڈیزائن بناتے ہاتھوں پھر اس کے چہرے کو دیکھا۔انداز میں ہلکی سی سرزنش تھی جو نایاب کو کبھی بھٹکنے نہیں دیتی تھی۔
"جی۔" نایاب نے تائید کی۔اس کی تربیت ایسی ہی کی گئی تھی۔وہ ایک بہادر اور خوددار عورت کے ہاتھوں پلی تھی۔
اس کا یہی کہنا بنتا تھا۔خاموشی کا ایک طویل وقفہ ان کے درمیان حائل ہوا۔
نایاب اپنی سوچ میں اور نانو اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش میں مبتلا تھیں۔
"اب بتا دو نایاب،کیا مسئلہ ہے۔مجھ سے کوئی بات نہ چھپاؤ۔میں تمہیں ایک اچھا حل اور مشورہ دوں گی۔" بالآخر انہیں ہی بات کا آغاز کرنا پڑا۔وہ خود سے نہیں بتائے گی۔
حالانکہ انہوں نے اس سے ہمیشہ ایسا رویہ رکھا تھا کہ وہ کوئی بات بھی بلا جھجھک ان سے کر لیتی تھی۔اب ایسا کیا ہوا تھا جو وہ چھپا رہی تھی۔
ان کی بات پر نایاب نے سر اٹھایا۔ان کے چہرے کو دیکھا۔وہ شفقت بھرا چہرہ جو ہمیشہ سے اس کے ساتھ تھا۔اس کے ہر صحیح پر اسے سراہنے والا اور ہر غلط پر راہ دکھانے والا۔
فیصلہ آسان ہو گیا۔منظر واضح ہو گیا۔
"کوئی مجھے پسند کرتا ہے۔" ایک گہری سانس بھرتے ہوئے اس نے مناسب الفاظ استعمال کیے۔جس سے مقصد بھی واضح ہو جائے اور عزت بھی رہ جائے۔
"کون؟" سوال توقع کے عین مطابق تھا۔انہیں حیرت نہیں ہوئی۔ایک دن یہ ہونا ہی تھا۔
"ہے کوئی۔یونیورسٹی میں پڑھتا ہے میرے ساتھ۔اچھا لڑکا ہے۔" اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس نے لاپرواہی سے کہا۔
جیسے اس بات کی کوئی اہمیت نہ ہو۔
"اگر اتنا ہی اچھا ہے تو تم اس سے چھپتی کیوں پھرتی ہو؟" اب انٹرویو شروع ہوا تھا۔نایاب کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔نانو اس کی ایک ایک حرکت پر نظریں جمائے ہوئی تھیں۔فرار ناممکن تھا۔
نانو آج سب اگلوا کر ہی رہے گی۔اس نے دل میں سوچا۔
"میں کہاں چھپ رہی ہوں؟" بالوں کی لٹ کان کے پیچھے اڑستے ہوئے اس نے مضبوطی سے جھوٹ بولا۔
وہ بھی اتنی آسانی سے نہیں بتائے گی۔لیکن وہ زیادہ دیر ان سے چھپا نہیں سکے گی یہ بھی وہ جانتی تھی۔
"تو یونیورسٹی کیوں نہیں جا رہی ہو؟" نانو نے ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹائی تھی۔
وہ اس کے ہر قدم،ہر عمل سے باخوبی واقف تھیں۔ان کے ہاتھوں میں موجود وہ ننھی کلی اب بڑی ہو گئی تھی۔
"بتایا تو تھا۔" جلدی جلدی یہاں سے نکل جانے کو پر تولتے ہوئے وہ زچ ہو گئی۔
کمرے میں آکسیجن کی کمی محسوس کرتے ہوئے اس نے گہرا سانس لیا۔
"نایاب مجھے سب سچ سچ بتاؤ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔میری نرمی کا نا جائز فائدہ مت اٹھاؤ۔" نانو نے سختی سے اسے ٹوکتے ہوئے احساس دلوایا کہ موضوع سنجیدہ تھا۔اور وہ بھی سنجیدگی سے انہیں سب بتائے۔
ان کی کرخت آواز پر نایاب تیر کی طرح سیدھی ہوئی تھی۔
"کیا بتاؤں نانو۔وہ مجھے پسند کرتا ہے۔کہتا ہے شادی کرے گا۔اگر شادی نہ ہوئی تو وہ مر جائے گا۔" اس دفعہ اس نے من و عن دہرا دیا۔آخر حل بھی تو اسے یہیں سے ملنا تھا۔
"کس کے لیے؟" نانو نے اس کی ساری بات تحمل سے سن کر پوچھا۔ایسے جذباتی ڈائیلاگ کا ان پر کوئی خاص اثر نظر نہیں آرہا تھا۔
"کیا؟" نایاب نے اتنی لاپرواہی پر انہیں حیرت سے تکتے کہا۔اتنی بڑی بات پر وہ یوں نارمل تھیں۔
آہ۔وہی بات۔وہ۔ہر چیز کو سر پر سوار نہیں کرتی تھیں۔
"کس کے لیے مر جائے گا؟" سوال دہرایا گیا۔
اب کہ وہ اپنے کنگن گھماتے ہوئے پہلے سے زیادہ پرسکون تھیں۔
جیسے وہ معاملےکو گہرائی تک سمجھ گئی ہوں۔
"ظاہر سی بات ہے میرے لیے۔" نایاب کے لہجے میں ہلکا سا غرور تھا یا شاید مان۔
نانو مسکرا دیں۔
"جان اللہ کی امانت ہے۔اور یہ صرف اللہ کے لیے اللہ کی راہ میں دی جاتی ہے۔وہ بیوقوف ہے، یا تمہیں بنا رہا ہے۔" انہوں نے وضاحت سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔اب وہ مکمل اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
"وہ تو ٹھیک ہے، لیکن کوئی مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ میرے لیے جان بھی دینے کو تیار ہے۔یہ بھی تو دیکھیں۔" نایاب کو جیسے یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔
کوئی اس کے لیے جان دینے کی بات کر رہا تھا اس کا خوش فہم ہونا بھی بنتا تھا۔
"تم اس سے صرف اس بات کے لیے امپریس ہو رہی ہو؟ مجھے تم سے اتنی بے عقلی کی امید نہیں تھی۔" نانو نے انتہائی مایوسی سے اسے جواب دیا۔انہیں واقعی اس کی اتنی جذباتیت پر افسوس ہوا تھا۔
"نانو آپ شاید سمجھ نہیں رہیں۔دیکھیں اگر کوئی آپ کے لیے اپنی جان دینے کو تیار ہوتا تو آپ کو کیسا لگتا؟" وہ آگے ہوتے ہوئے اشتیاق سے بولی۔ان کے اندر بھی وہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جو وہ محسوس کر رہی تھی۔
جیسے کوئی بڑا، بچے کو لالچ دیتا ہے۔جیسے وہ بتا رہی ہو آپ کو بات سمجھ نہیں آئی۔
اس کی بات پر وہ ایک منظر ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ماضی۔جس کی یادیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔اور وہ اس منظر میں کھو گئیں۔
"نانو۔۔؟" نایاب نے انہیں بازو پکڑ کر ہلاتے ہوئے اس دنیا میں کھینچا۔انہوں نے چونک کر اسے دیکھا۔لیکن جیسے ابھی بھی وہ اسی ٹرانس میں تھیں۔
"تمہیں یہ جان دینے والی بات سے یہ لگتا ہے کہ وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے؟" انہوں نے اسے کریدتے ہوئے پوچھا۔
ذہن کچھ اور سوچ رہا تھا۔کوئی بہت عزیز یاد آیا تھا۔
"ہاں مجھے یہی لگتا ہے۔اس لیے میں نے اس سے کچھ دن کا ٹائم مانگا ہے تا کہ آپ اور نانا سے بات کر سکوں اور خود بھی سوچ لوں۔اس لیے میں یونیورسٹی نہیں جا رہی۔میں ابھی اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔" نایاب نے کچھ جھجکتے ہوئے جواب دیا تھا۔اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
نانو نے غور سے اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔وہ افسانوی دنیا میں رہ رہی تھی انہیں اندازہ ہو گیا تھا۔
نانو خاموشی سے اٹھیں اور اس صندوق کی طرف بڑھ گئیں۔جو اس کمرے کے ایک کونے میں پڑا تھا۔جس پر ہمیشہ سے تالا لگا ہوتا تھا۔
اسے کھولنے کی اجازت کسی کو نہیں تھی۔نایاب نے پہلے کافی کوشش کی لیکن چابی وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتی تھیں۔
وہ سر گھمائے انہیں جاتے دیکھتی رہی۔اب وہ اس لکڑی کے صندوق کو کھول رہی تھیں۔اس پر نقش و نگار کندہ تھے۔جس میں کوئی رنگ نہیں تھے۔لیکن اس کی خوبصورتی دل موہ لینے والی تھی۔
انہوں نے اپنے جھریوں زدہ ہاتھوں سے اسے کھولا۔یادوں کا خزانہ۔اسے کھولتے ہی جیسے ماضی کی مہک نے پورے کمرے کا احاطہ کر لیا تھا۔
نایاب نے بھی اس مہک کو محسوس کیا۔وہ کچھ الجھن اور دلچسپی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے اس بوسیدہ زرد کاغذ کو نکالا۔وہ چار تہوں میں لپٹا ایک کاغذ، ماضی کا قصہ ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔
وہ اب صندوق بند کر کے پلٹ رہی تھیں۔نایاب نے غور سے ان کے ہاتھوں میں تھامے اس راز کو تکا۔
وہ جب واپس اس کے سامنے بیٹھ چکی تو انہوں نے وہ کاغذ نایاب کی جانب بڑھایا۔
"پڑھو اسے۔اس سے تمہیں معلوم ہو گا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔حقیقی محبت۔پھر تم ساری زندگی کبھی دنیاوی محبتوں سے دھوکہ نہیں کھاؤ گی۔" اس نے طلائی کنگن پہنے ان جھریوں زدہ ہاتھوں سے اس خستہ حال کاغذ کو تھام لیا۔
اس چار تہوں کو کھولتے ہوئے وہ کافی متجسس تھی۔آخر کیا راز تھا اس کے اندر۔جسے وہ کبھی چاہ کر بھی جان نہیں سکی تھی۔اور اب وہ خود اس کے ہاتھوں میں تھا۔
اس کی نظروں نے پورے صفحے کا احاطہ کیا۔کچھ لکھا ہوا تھا۔رائیٹنگ اچھی تھی لیکن الفاظ چھوٹے چھوٹے تھے۔اس نے پڑھنا شروع کیا۔اور ماضی کا در کھل جانے دیا۔
ڈھیر سارے پیار کے ساتھ عزیز از جان عشرت کے لیے
معافی سے پہلے سلام عرض کرتا ہوں۔قبول کر کے شکریہ کا موقع دو۔دعا کرتا ہوں کہ تم خیریت سے اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ہو گی۔اور ضرور میری طرف سے خیریت اور خط کا انتظار کر رہی ہو گی۔یا شاید میرے جلد لوٹ آنے کا۔
لیکن ایسا ممکن نہیں معلوم ہو رہا۔یہاں پر حالات خراب سے خراب ہو رہے ہیں۔میرے واپس لوٹ آنے کی امید تیز ہوا میں موجود جلتے بجھتے دیے جیسی نظر آتی ہے جو کسی بھی وقت اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ہو سکتا ہے یہ میرا پہلا اور آخری خط ہو۔معلوم نہیں تم تک پہنچ پائے گا یا نہیں۔
میرے پاس دو راستے ہیں، وہی دو راہیں جو غلط اور صحیح کے طور پر جانی جاتی ہیں۔میں واپس لوٹ آؤں۔بھاگ جاؤں یہاں سے۔کس کے لیے؟تمہارے لیے۔اپنی دو دن کی دلہن کے لیے۔
یا پھر یہاں رہوں۔لڑوں دشمنوں کے خلاف۔اسلام کے دشمنوں کے خلاف۔اور پھر شہید ہو جاؤں ۔کس کے لیے؟اللہ کے لیے، اللہ کی راہ میں۔
جس نے مجھے پیدا کیا۔اسی نے مجھے،تمہارے جیسی پاک دامن بیوی عطا کی۔اور اگر وہی چاہے گا تو میں واپس لوٹ آؤں گا تمہاری طرف۔
اور اگر نہ لوٹا تو اس سے بہت بہتر منزل پر ہم ملیں گے۔کبھی نہ بچھڑنے کے لیے۔
سنو بیگم۔میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ تم نے مجھ میں محبت جیسے مضبوط احساسات کو پیدا کیا ہے۔تم میرے لیے روشنی کا وہ ہالہ ہو جس کا دائرہ فقط میرے تک محدود ہے۔تم سراپا محبت ہو۔تم میری زندگی کا ایک خوبصورت پہلو ہو۔
سنو میں خود سے کہنا چاہتا ہوں کہ رک جاؤ طاہر ایاز۔مڑ جاؤ۔اس لڑکی کے ساتھ رہو جو تمہارا انتظار کر رہی ہے۔تم دونوں مل کر ایک نئی دنیا دریافت کرو۔ابھی حیات باقی ہے۔
لیکن میں دنیا کے لیے آخرت قربان نہیں کر سکتا۔اس آخرت میں کامیابی کے لیے میں اس دنیا کو چھوڑ دوں گا۔میرا اللہ اور اس کا سیدھا راستہ اس دنیا میں موجود ہر چیز سے پہلے آتا ہے ہر انسان سے پہلے۔اور تم سے بھی پہلے۔
میں تمہارے لیے جی نہیں سکتا۔لیکن اللہ اور اس کی راہ کے لیے مر(شہید) جاؤں گا۔اور جب تم تک میری موت کی خبر پہنچے تو الماری کے سب سے نچلے خانے میں سے لفافہ نکال کر اسے پڑھ لینا۔لیکن اس سے پہلے نہیں۔
میں نے تمہیں اور خود کو اللہ کی امان میں دیا۔
خوش رہو میرے ساتھ بھی اور میرے بعد بھی۔
خط ختم ہو چکا تھا۔نایاب کے چہرے پر آنسو روانی سے گرتے جا رہے تھے۔اسے نہیں معلوم وہ کیوں رو رہی تھی لیکن وہ رو رہی تھی ایسی محبت پر۔ایسی کہانی پر۔
نانو کا چہرہ بھی ان کے رونے کی چغلی کھا رہا تھا۔آسیب زدہ یادیں مکمل ہتھیاروں کے ساتھ آن وارد ہوئی تھیں۔زخم پھر سے تازہ ہو گیا تھا۔جیسے کل کی ہی بات ہو۔
خاموشی کا ایک وقفہ ان کے درمیان حائل ہوا۔بات کرنے کو الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
"وہ میرے لیے نہیں جیا نایاب۔" نانو نے دوپٹے سے چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا۔وہ یکدم ہی ایک بوڑھی عورت سے دو دن کی دلہن بن گئی تھیں۔کنگن کی چھنکتی آواز نے کمرے کے سکوت کو توڑا۔
"جینا تو آسان ہوتا ہے۔وہ جی سکتا تھا میرے لیے۔ہمارے مستقبل کے لیے۔لیکن اس نے شہادت کو چنا۔اس نے اللہ کی محبت کے درمیان اس دنیاوی محبت کو نہیں آنے دیا۔" وہ بول رہی تھیں اور لفظ ،لفظ نایاب کی سماعتوں میں مرہم بن کر اتر رہا تھا۔
وہ اس عورت کو سن رہی تھی جس کا شوہر اس کے لیے نہیں جیا۔تو ایک غیر مرد اس کے لیے کیسے مر جائے گا؟
وہ اس زرد خستہ کاغذ کو پکڑے اس کے غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔زہن بالکل صاف ہو گیا تھا۔فلسفہ کلئیر تھا۔اہمیت واضح ہو گئی تھی۔
"اور تم کہتی ہو وہ تمہارے نہ ملنے پر مر جائے گا؟دیکھو اس کاغذ کو پڑھو۔وہ میرے مل جانے پر مر گیا نایاب۔کیونکہ اس کی زندگی اور موت اللہ کے لیے تھی۔میں اس کی زندگی کا حصہ تھی لیکن اس کا مقصد بہت واضح اور ان چیزوں سے بہت اوپر تھا۔" انہوں نے گہری سانس بھرتے خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی۔
ہاتھ بڑھا کر اس کاغذ کو پکڑا۔اور نظریں لفظ "عزیز از جان عشرت " پر ٹکائیں۔ممظر دھندلا گیا۔ضبط پھر سے ٹوٹا تھا۔
"نانو اس لفافے میں کیا تھا؟" کافی کوشش کے بعد نایاب کے منہ سے صرف اتنا نکلا تھا۔اسے سمجھ نہیں آئی وہ اس دو دن کی دلہن سے کیا پوچھے۔
وہ روئی ہوئی سوجی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔وہ مجسم محبت کو تک رہی تھی۔اوراس کا یقین بڑھتا جا رہا تھا۔
"اس میں اپنے مرنے کے بعد دوسری شادی کرنے کا حکم تھا۔دعا بھی دی اس نے۔لکھا تھا اللہ تمہیں مجھ سے بھی اچھا اور نیک شوہر عطا کرے۔" انہوں نے دوبارہ سے کاغذ کی تہہ لگاتے ہوئے ہلکا سا مسکرا کر کہا۔
"پھر ملا؟" وہ فطری تجسّس سے ان کے روشن چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
وہ آج بھی کتنی خوبصورت تھیں تو جوانی میں ان کے مقابل کون ہو گا۔لیکن وہ ان کے لیے نہیں جیے۔نایاب کے سامنے حقیقت آشکار ہو چکی تھی۔
"پتہ نہیں۔میں نے کبھی ان دونوں کا موازنہ نہیں کیا۔تب میرے لیے کوئی طاہر نہیں ہو سکتا تھا۔اور آج میرے لیے کوئی عبدالرحمن نہیں ہو سکتا۔دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے۔طاہر شاید کبھی برداشت نہ کرتے اگر میں کسی اور سے محبت کرتی ہوتی۔لیکن عبدالرحمن نے سب سن کر سمجھا بھی اور برداشت بھی کیا۔اور مجھے کبھی اس حوالے سے کوئی اذیت نہیں دی۔جس سے میرے دل میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی۔" نانو نے واپس سے اٹھتے ہوئے اس صندوق کی طرف رخ کیا۔خط اٹھائے وہ اب اس طرف جا رہی تھیں۔
آواز میں سکون تھا۔وہ اپنے عمل سے مطمئن تھیں۔
"مطلب نانا کو سب پتہ تھا۔اس کے باوجود انہوں نے آپ سے شادی کی۔نانو آپ کتنی لکی ہیں آپ کو کتنے محبت کرنے والے شوہر ملے۔" نایاب کی نظروں نے ان کا تعاقب کیا۔وہ واقعی خوش بھی ہوئی تھی اور اسے رشک بھی آیا۔
کاش اسے بھی ایسا ہی کوئی بہت چاہنے والا مل جائے۔دل نے صدا لگائی۔
"ہاں،الحمدللہ، دونوں اپنی اپنی منزل کے اونچے مقام پر۔"نانو نے خط کو اس کی اصل جگہ پر رکھ کر واپس پلٹتے ہوئے جواب دیا۔
اب وہ پہلے سے کافی بہتر لگ رہی تھیں۔ایک طوفان گزر کر بھی اپنی تباہی چھوڑ گیا تھا۔جسے سمیٹتے سمیٹتے ان کی عمر بیت چکی تھی۔
"نانو۔۔۔" ابھی وہ مزید کچھ پوچھتی کہ دروازہ دھکیلتے ہوئے عبدالرحمن صاحب اندر داخل ہوئے۔دونوں نے بے ساختہ ان کی طرف دیکھا۔
"ارے کیا بات ہو رہی تھی۔میرے آنے پر جو آپ لوگ چپ ہو گئیں۔کیا میں واپس چلا جاؤں؟" وہ ان کے یوں خاموش ہو جانے پر چوٹ کرتے ہوئے جیسے وہی سے پلٹنے کا ارادہ کرنے لگے۔
شاید وہ غلط وقت پر آ گئے تھے۔ابھی تو اس نے نانو سے ڈھیر ساری باتیں پوچھنی تھی جو اس کے دماغ میں ہلچل مچائے ہوئے تھیں۔
"نہیں ایسی بات نہیں ہے۔آپ آئیں۔میں بس اسے کچھ سمجھا رہی تھی اور کچھ پرانے قصے سنا رہی تھی۔" نانو نے تحمل سے بات سمبھالتے ہوئے انہیں اندر آنے کا عندیہ دیا اور واپس اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گئیں۔
نایاب نے دونوں کے چہروں کو بڑی فرصت سے تکا۔وہ اس کا آئیڈیل کپل تھے۔ایک دوسرے کو بہت اچھے سے سمجھتے تھے۔ہر مسئلے کا حل بات کر کے نکالتے تھے۔
لیکن اب وہ ان کو دیکھتے ہوئے کچھ اور سوچ رہی تھی۔
طاہر ایاز کیسا ہو گا؟کیا وہ نانا سے زیادہ خوبصورت ہوگا؟
نانو اور طاہر ایاز کی جوڑی کیسی لگتی ہو گی؟
دیکھنے اور سوچنے کا زاویہ بدل گیا تھا۔سوچ نے ایک نیا رخ لیا تھا۔
نانا بھی وہاں موجود کرسی پر بیٹھتے ہوئے نایاب سے گویا ہوئے۔
"اچھا۔تو آج سونے کا ارادہ نہیں ہے تمہارا؟" وہ مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بولے۔
"تھا تو نہیں۔لیکن اب بن رہا ہے۔چلیں گڈ نائٹ۔میں جا رہی ہوں۔" وہ ذہن میں بہت سے سوالات اکھٹے کرتے ہوئے مسکرا کر اٹھی اور باہر نکلتی چلی گئی۔
"کیا بات ہوئی؟کچھ معلوم ہوا کیوں پریشان ہے نایاب آج کل۔" وہ فکرمندی سے اٹھتے ہوئے نایاب کی چھوڑی جگہ پر بیٹھتے گویا ہوئے۔
ان کی بات کے جواب میں عشرت بیگم مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں بتانا شروع ہوئیں۔
یہاں سے قریب ہی دوسرے کمرے میں نایاب ٹہلتے ہوئے ہو چکی گفتگو کا لفظ لفظ یاد کر رہی تھی۔
جس انداز میں اسے سمجھایا گیا تھا شاید ہی وہ کبھی بھول پائے گی۔ذہن کے دریچوں کو کھول کر حقیقت کا بیج بو دیا گیا تھا۔دنیاوی اور حقیقی محبت کے درمیان موجود دراڑ واضح ہو گئی تھی۔
کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا اگر مرتا بھی ہے تو غلط کرتا ہے۔وہ کیوں کسی غیر کی ایسی باتوں کو سنجیدہ لے کر پریشان ہو رہی تھی۔
اپنی نادانی پر سر جھٹکتے ہوئے پوشیدہ داستان کی کڑیاں ملاتے وہ ممکنات پر غور کرتے ہوئے لیٹ گئی۔
سوتے وقت جو آخری بات اس کے ذہن میں تھی وہ کچھ یوں تھی۔
اور اللہ تعالٰی زیادہ حقدار ہے کہ اس کے لیے جیا جائے اور اسی کے لیے مرا جائے۔
تمت بالخیر